خواتین کا زوق عبادت

خیر القرون اور دورِ سلفِ صالحین کی خواتین کو عبادت کا اتنا زیادہ شوق تھا کہ اپنے دن و رات کا اکثر حصہ عبادت ِ الٰہی میں گذارتیں اور اپنے آپ کو ان اعمال میں لگاتیں جو خدا اور اس کے رسولؐ کو راضی کرنے والے ہوتے، عبادت کے ذریعے سے اس مقام و مرتبہ پر پہنچ گئی تھیں جس تک آج کے بڑے بڑے ولی صفت انسان کا بھی پہنچنا مشکل ہے۔
آپؐ کی سب سے چہیتی بیوی سیدہ عائشہ صدیقہؓ عبادت گذار تھیں، اللہ سے نہایت ڈر نے والی تھیں، چاشت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتی تھیں، رمضان المبارک میں تراویح کا خاص اہتمام کرتیں، ان کا غلام نمازِ تراویح میں امامت کرتا اور وہ مقتدی ہوتیں، اکثر روزے رکھا کرتیں، پورے جذبہ کے ساتھ ہر سال برابر حج ادا کرتیں، غلاموں پر شفقت کرتیں اور ان کو خرید کر آزاد کرتیں۔ (شرح بلوغ المرام)
امّ المو منین سیدہ امّ سلمہؓ کی زندگی نہایت زاہدانہ تھی، انھیں عبادت الٰہی سے بہت زیادہ لگاؤ تھا، رمضان شریف کے علاوہ ہر مہینے میں تین روزے پابندی کے ساتھ رکھا کرتیں، اطاعتِ خداوندی ہر عمل میں صاف نظر آتا تھا، جہاں اوامر کی بے حد پابند تھیں وہیں نواہی سے بھی بچنے کا التزام کرتی تھیں۔ (ابن سعد)
امّ المومنین سیدہ زینب بنت جحشؓ بڑی دیندار، پرہیز گار، حق گو اوررونے والی تھیں، ان کی عبادت و زہد کا اعتراف خود رسول اللہؐ نے کیا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اپنی کتا ب ’’الاصابۃ‘‘ میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضورؐ مہاجرین کی ایک جماعت میں مالِ غنیمت تقسیم فرمارہے تھے، سیدہ زینبؓ بھی اس موقع پر موجود تھیں، انھوں نے کوئی ایسی بات کہی جو سیدنا عمرؓ کو پسند نہیں آئی، انھوں نے ذرا تلخ انداز میں سیدہ زینبؓ کو دخل دینے سے منع کیا، رسول کریمؐ نے فرمایا: اے عمر! انھیں کچھ نہ کہو، یہ اوّاہ (خداسے ڈرنے والی) ہیں۔
امّ المومنین سیدہ جویریہؓ بھی بڑی عبادت گذار اور زاہدانہ زندگی گذار نے والی خاتون تھیں، رسول اللہؐ انھیں اکثر عبادت و بندگی میں مشغول پاتے، آپؐ جب کبھی گھر سے باہر جاتے یا گھر تشریف لاتے تو انھیں اپنے ربّ سے راز و نیاز کر تے ہوئے پاتے، ایک دن حضور انورؐ نے انھیں صبح کے وقت اپنے گھر کی مسجد (نماز کی جگہ) میں عبادت کرتے ہوئے دیکھا پھر ضروریات سے فارغ ہو کر آئے تو بھی اسی حالت میں ان کو پایا، آپؐ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم ہمیشہ اسی طرح عبادت کرتی رہتی ہو؟ انھوں نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ کلمات پڑھا کرو ان کو تمہاری نفل عبادت پر ترجیح حاصل ہے: سبحان اللہ، سبحان اللہ عدد خلقہ سبحان اللہ عدد خلقہ سبحان اللہ رضی نفسہ سبحان اللہ رضی نفسہ، سبحان اللہ زنۃ عرشہ سبحان اللہ زنۃ عرشہ، سبحان اللہ مداد کلماتہ، سبحان اللہ مداد کلماتہ (مسند احمد ، حدیث جویریہ بنت الحارث)
مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہؐ نے فرمایا: جو شخص بارہ رکعات نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا، آپؐ کا یہ ارشاد سیدہ امّ حبیبہؓ بھی سن رہی تھیں، اس کے بعد پوری زندگی یہ بارہ رکعات ان کے معمول میں رہیں کبھی ان کو ترک نہیں کیا۔ (مسند احمد حدیث ابی موسی الاشعری)
سیدہ فاطمہ الزہراؓ کو عبادتِ الٰہی سے بے انتہا شغف تھا، ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تہجد گزار اور کثرت سے روزے رکھنے والی تھیں، خوف ِ الٰہی سے ہر وقت لرزاں اور ترساں رہتی تھیں، زبان پر ہمیشہ اللہ تعالی کا ذکر جاری رہتا تھا، سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ میں فاطمہؓ کو دیکھتا تھا کہ کھانا پکاتی تھیں، اور ساتھ ساتھ خدا کا ذکر کرتی جاتی تھیں، سیدنا سلمان فارسیؓ کا بیا ن ہے کہ سیدہ فاطمہؓ گھر کے کام کاج میں لگی رہتی تھیں اور قرآن مجید کی تلاوت کرتی رہتی تھیں، وہ چکّی پیستے وقت بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں، علّامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں ان کی اسی عادت کی طرف اشارہ کیا ہے ؎
آں ادب پروردئہ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآں سرا
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ فاطمہؓ اللہ تعالی کی بے انتہا عبادت کرتی تھیں؛ لیکن گھر کے کام میں کوئی فرق نہیں آنے دیتی تھیں۔ سیدنا حسنؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنی والدہ ماجدہ کو صبح سے شام تک محرابِ عبادت میں اللہ تعالی کے آگے گریہ و زاری کرتے، نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کرتے اور دعائیں مانگتے دیکھا کرتا تھا، اور یہ دعائیں وہ اپنے لیے نہیں؛ بلکہ تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے مانگتی تھیں، عبادت کرتے وقت آپ کا نورانی چہرہ زرد ہوجاتا تھا، جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا، آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ جاتی تھی یہاں تک کہ اکثر مصلّی آنسووں سے بھیگ جاتا تھا۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ کی عبادت کا یہ حال تھا کہ اکثر ساری رات نماز میں گذار دیتی تھیں بیماری اور تکلیف کی حالت میں بھی عبادتِ الٰہی کو ترک نہیں کرتی تھیں، اللہ تعالی کی عبادت، اس کے احکام کی تعمیل اور اس کی رضاجوئی اور سنت ِ نبویؐ کی پیروی ان کے رگ و ریشے میں سما گئی تھیں۔ (سیرت فاطمۃ الزہرا)
سیدہ اسماء بنت ابو بکرؓ عبادت وبندگی میں شہرہ رکھتی تھیں، نہایت درجے کی عابدہ اور زاہدہ تھیں، کثرت عبادت ان کا خصوصی وصف تھا، ایک مرتبہ رسول اللہؐ کسوف کی نماز پڑھا رہے تھے، بہت سی صحابیات بھی شریک ِ نماز تھیں، ان میں اسماءؓ بھی شامل تھیں۔ آپؐ نے نماز کو کئی گھنٹے طویل کیا، سیدہ اسماءؓ کی طبیعت کچھ کمزور تھی، تھک کر چور چور ہوگئیں؛ لیکن بڑے استقلال سے کھڑی رہیں، جب نماز ختم ہوئی تو غش کھا کر گر پڑیں، چہرے اور سر پر پانی چھڑ کا گیا تو ہوش میں آئیں۔ (بخاری شریف، باب صلاۃ النساء مع الرجال فی الکسوف)
آپؐ کی چچی سیدہ امّ الفضلؓ نہایت پرہیز گار اور عبادت گزار تھیں، بعض روایتوں میں ہے کہ وہ ہر پیر اور جمعرات کو ہمیشہ روزہ رکھا کرتی تھیں۔
سیدہ خولاءؓ بھی عبادت الٰہی سے کافی شغف رکھتی تھیں اور ساری عبادت اور نماز پڑھنے میں گزارتی تھیں ان کا تذکرہ مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہؐ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میںسیدہ خولاءؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو سیدہ عائشہؓ نے رسول اللہؐ سے کہا کہ یا رسول اللہؐ! یہ خولاء ہے، جو پوری رات عبادت میں گزارتی ہے اور رات بھر سوتی نہیں، اس پر آپؐ نے تعجب سے فرمایا کہ رات بھر نہیں سوتیں؟ پھر فرمایا کہ انسان کو اتنا ہی کام کرنا چاہیے جسے وہ ہمیشہ نباہ سکے۔ (مسند احمد ، مسند عائشہ)
صفوان بن معطلؓ کی اہلیہ ایک مرتبہ آپؐ کے پاس آکر شکایت کرنے لگی کہ ان کے شوہر انھیں نماز پڑھنے کی بنا پر سختی کرتے ہیں، جب میں روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ بھی تڑوا دیتے ہیں، حضور انورؐ نے صفوان بن معطلؓ سے وجہ دریافت کی تو انھوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! یہ نماز میں دو لمبی لمبی سورتیں پڑ ھتی ہیں اور میں انھیں اس سے منع کرتا ہوں، اور روزہ تڑوانے کی حقیقت یہ ہے کہ جب یہ نفلی روزے رکھنے پر آتی ہیں تو رکھتی ہی چلی جاتی ہیں جو میرے لیے تکلیف دہ ہے۔ (مسند احمد، مسند ابی سعید خدری)
سیدہ عائشہ بنت طلحہؓ مشہور تابعیہ ہیں، بڑی ذاکرہ تھیں، ان کی زبان صبح و شام ذکر الٰہی سے تر رہا کرتی تھی، ان کا نفس پاکیزہ ہوچکا تھا جس نے انھیں تمام عورتوں میں ممتاز کردیا تھا، انھیں بہت ساری باتیں خواب کے ذریعے سے معلوم ہوجاتی تھیں۔
خوابوں کی تعبیر بتانے والے مشہور امام محمد ابن سیرینؒ کی بیٹی حفصہ بنت سیرینؒ اپنے زمانے کی معروف تابعیہ ہیں، جن کے بلند مرتبہ کی گواہی اہلِ معرفت حضرات نے دی ہے، حفصہ بنت سیرینؒ پاکیزگی، عزت و عفت اور دین و عبادت کے اعتبار سے عورتوں کی سردار تھیں، ان کی الگ کوٹھری تھی جس میں وہ اکثر عبادت کرتی تھیں؛ اسی لیے عبادت کے معاملے میں بہت ممتازمقام رکھتی تھیں، اور وہ اس صفت میں حیرت انگیز مقام پر پہنچ گئی تھیں، جہاں پر صرف بڑے زاہدین کی ہی رسائی ہوتی ہے، مہدی بن میمونؒ فرماتے ہیں کہ حفصہ بنت سیرینؒ تیس سال تک اپنے مصلّی سے سوائے کسی کی بات کا جواب دینے یا قضائے حاجت کے نہیں نکلیں۔ (سیر اعلام النبلاء، باب عمرۃ بنت عبدالرحمن)