پاکستانی ذرائع ابلاغ کا بحران – شاہنواز فاروقی

383

غالب کا یہ شعر پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے لیے پوری طرح کفایت کرتا ہے:

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

صحافت کا لفظ ’’صحیفہ‘‘ سے نکلا ہے، مگر پاکستانی صحافت کا تشخص صحیفے کے بجائے ’’لفافے‘‘ سے متعین ہورہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا کام قوم کی رہنمائی ہے، مگر پاکستان کے ذرائع ابلاغ قوم کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ بدترین بحران کا شکار ہیں۔

اصول ہے ’جیسا ملک ہوتا ہے ویسی ہی اُس کی صحافت ہوتی ہے‘۔ پاکستان پہلے دن سے ایک نظریاتی ملک ہے، ایک نظریاتی ریاست ہے، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ سوویت یونین ایک سوشلسٹ ریاست تھا اور اس کی صحافت ریاست کے نظریے کی پابند تھی۔ سوویت یونین میں یہ تصور بھی ناممکن تھا کہ ذرائع ابلاغ ریاست کے نظریے کے خلاف کچھ شائع یا نشر کرسکتے ہیں۔ ان کی خبریں تھیں تو نظریاتی تھیں، ان کے تبصرے تھے تو نظریاتی تھے، ان کے تجزیے تھے تو نظریاتی تھے، یہاں تک کہ ان کی تفریح بھی نظریاتی تھی۔ سوویت یونین کا سب سے بڑا اخبار پرودا تھا۔ اس کی اشاعت ڈھائی کروڑ تھی، اور 70 سال میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ پرودا پر ملک کے نظریے سے غداری کا الزام لگا ہو۔ امریکہ اور یورپ سیکولر اور لبرل ہیں، اور اُن کے ذرائع ابلاغ پر سیکولرازم اور لبرل ازم کی مہر لگی نظر آتی ہے۔ ان کی خبریں، تبصرے، تجزیے اور ان کی تفریح تک سیکولرازم اور لبرل ازم میں ڈوبی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے لیے اسلام ایک نظریہ ہی نہیں ہے۔ نہ ان کی خبروں پر اسلام کا کوئی اثر ہے، نہ ان کے تبصروں اور تجزیوں پر اسلام کی کوئی چھاپ ہے، نہ ہی ہمارے ذرائع ابلاغ کی تفریح اسلام کے نظریاتی تشخص سے ہم آہنگ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے ذرائع ابلاغ ملک کے نظریے کے غدار ہیں۔ پاکستان کے انگریزی اخبارات میں آئے دن ایسے کالم شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور اسلام کے تصورِ حیات پر حملہ کیا گیا ہوتا ہے۔ جن میں اسلامی اقدار کا مذاق اڑایا گیا ہوتا ہے۔ ملک کے ایک بڑے اردو اخبار میں ایک بار ایک سابق سوشلسٹ کالم نگار کا کالم شائع ہوا۔ کالم میں اس بات کا مذاق اڑایا گیا تھا کہ ہم ایک غائب ہستی خدا کو مانتے ہیں اور نظر آنے والے حقائق کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ جیو کے ایک پروگرام میں حسن نثار نے پردے کا مذاق اڑایا اور کہاکہ پردہ صرف امہات المومنین کے لیے تھا، تمام مسلم خواتین کے لیے نہیں تھا۔ ملک کے ذرائع ابلاغ میں آئے دن ایسے کالم شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں قائداعظم کو صرف ایک تقریر کی بنیاد پر سیکولر ثابت کیا جاتا ہے۔ ملک کے ایک چینل پر ایک دن ڈاکٹر مبارک علی نے بکواس کرتے ہوئے کہاکہ اقبال ایک دہشت گرد شاعر ہے۔ ملک کے کم و بیش تمام اخبارات اور تمام چینلز ایک ایسے تصورِ حیات کو فروغ دے رہے ہیں جو اسلام کے تصورِ حیات کی ضد ہے۔ وہ ایک ایسے تصورِ انسان کو آگے بڑھا رہے ہیں جو اسلام کے تصورِ انسان کے منافی ہے۔ بدقسمتی سے اس صورتِ حال پر ریاست کو کوئی تشویش ہے نہ حکمرانوں کو کوئی پریشانی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کے مذہبی طبقات نے بھی ذرائع ابلاغ کی اسلام دشمن پالیسیوں کے آگے ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں اگر کسی عالمِ دین یا کسی سیاسی رہنما کے خلاف کچھ شائع ہوجاتا ہے تو ہنگامہ ہوجاتا ہے، مگر پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے اسلام دشمنی کی جو گنگا بہائی ہوئی ہے اس پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا۔ بلاشبہ ہمارے ذرائع ابلاغ کے غیر نظریاتی کردار پر مذہبی طبقات کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ممکن ہو تو برائی کو طاقت سے روک دو۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو زبان سے برا کہو۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے دل میں برا خیال کرو، مگر یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ بدقسمتی سے ذرائع ابلاغ کی اسلام دشمنی کے حوالے سے ہمارا معاشرہ بالخصوص مذہبی طبقات ایمان کے کمزور ترین درجے پر کھڑے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ذرائع ابلاغ سے نہیں لڑ سکتے وہ شیطان، نفسِ امارہ اور امریکہ اور یورپ سے کیا لڑیں گے؟

ایک وقت تھا کہ صحافت ایک مشن تھی، مگر اب صرف کاروبار بن کر رہ گئی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان اچھا ہو تو وہ کاروبار میں بھی مشن تلاش کرلیتا ہے، اور انسان اچھا نہ ہو تو وہ مشن کو بھی کاروبار بنالیتا ہے۔ ابتدائی زمانوں کے مسلمان تاجر جہاں جاتے تھے کاروبار بعد میں کرتے تھے اسلام پہلے پھیلاتے تھے، مگر اب صحافت جیسا مقدس پیشہ صرف کاروبار بن کر رہ گیا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کے پاس کوئی مشن ہے ہی نہیں۔ ان کے پاس نہ نظریاتی شعور کو عام کرنے کا مشن ہے، نہ صداقت کو غالب کرنے کا مشن ہے، نہ علم پھیلانے کا مشن ہے، نہ باطل کے ساتھ پنجہ آزمائی کا مشن ہے، نہ انسان کو بہتر انسان اور معاشرے کو بہتر معاشرہ بنانے کا مشن ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مالکان ذرائع ابلاغ سے صرف ’’مال‘‘ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ صرف ایوانِ اقتدار تک رسائی چاہتے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اس بات کا ماتم کرتے ہیں کہ حکمرانوں نے ان پر سنسر عائد کیا ہوا ہے۔ حکمرانوں کا سنسر بدترین چیز ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ کے کاروبار اور مالی مفاد نے خود ذرائع ابلاغ پر جو سنسر عائد کررکھا ہے وہ ذرائع ابلاغ کے مالکوں اور صحافیوں کو نظر نہیں آتا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض پر 460 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا، مگر روزنامہ جنگ، روزنامہ دنیا، روزنامہ ایکسپریس اور روزنامہ دی نیوز میں یہ خبر سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوئی، اس لیے کہ ملک ریاض سے سب کو بزنس چاہیے۔ ملک ریاض کی خوشنودی کے بغیر ذرائع ابلاغ زندہ نہیں رہ سکتے۔

دنیا بھر میں صحافت ’’جامع‘‘ ہوتی ہے، مگر ہماری صحافت صرف ’’سیاسی‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ دنیا کے اہم اخبارات اور ٹی وی چینلز تمام علوم و فنون کے عکاس اور ترجمان ہوتے ہیں۔ ان میں کہیں نہ کہیں تھوڑا بہت ادب ہوتا ہے، تھوڑی بہت نفسیات اور عمرانیات ہوتی ہے، تھوڑا بہت فلسفہ اور تاریخ ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کا 90 فیصد مواد سیاسی ہوتا ہے۔ ہماری خبریں سیاسی ہوتی ہیں، ہمارے کالم سیاسی ہوتے ہیں، ہمارے ٹاک شوز سیاسی ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس سیاسی مواد کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوتی۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ معاشرے کی شعوری اور علمی سطح کو بلند کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کررہے۔ بہت کم لکھنے والے ایسے ہیں جن پاس ’’خیالات‘‘ ہیں، جو تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری صحافت کا مزاج ’’بیاناتی‘‘ ہے۔

ذرائع ابلاغ اپنی غیرجانب داری اور معروضیت سے پہچانے جاتے ہیں، مگر ہمارے ’’آزاد ذرائع ابلاغ‘‘ بھی بڑے ’’پابند ذرائع ابلاغ‘‘ ہیں۔ ملک کے بعض چینلز ایسے ہیں جو نواز لیگ کے ترجمان ہیں، ملک کے بعض چینلز اسٹیبلشمنٹ کی ترجمانی کے لیے مشہور یا بدنام ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ملک کا ہر اخبار ’’پارٹی پیپر‘‘ اور ہر چینل ’’پارٹی چینل‘‘ ہے۔ ’’وابستگی‘‘ بری چیز نہیں بلکہ اچھی چیز ہے، لیکن اس کی بنیاد ’’نظریہ‘‘ ہونا چاہیے۔ مگر جس طرح ہماری سیاست تعصبات کی سیاست ہے اسی طرح ہماری صحافت بھی تعصبات کی صحافت ہے۔ میاں نوازشریف اور آصف زرداری صحافیوں کو خریدنے کے لیے بدنام ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری صحافت ’’قومی‘‘ نہیں، ’’گروہی‘‘ اور ’’طبقاتی‘‘ ہے۔

ظاہر ہے کہ جو ذرائع ابلاغ ’’گروہی‘‘ اور ’’طبقاتی‘‘ نفسیات کا مظہر بنے ہوئے ہوں اُن سے یہ توقع ہی فضول ہے کہ وہ امت کے تصور کو عام کریں گے، یا وہ عالمی وژن کو فروغ دیں گے۔ چنانچہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں امت بہت کم رپورٹ ہوتی ہے اور بہت کم زیرِ بحث آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں لوگ پوچھتے ہیں کہ جس چیز کو ’’امتِ مسلمہ‘‘ کہا جاتا ہے اس کا کوئی وجود بھی ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ میں ’’عالمی تناظر‘‘ بھی خال خال ہی نظر آتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ قوم کو سمندر کی مچھلی بنانے کے بجائے اسے کنویں کا مینڈک بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ ہماری صحافت عوام کو بھی خواص میں ڈھال دیتی تھی، اور ایک وقت یہ ہے کہ ہماری صحافت خواص کو بھی عوام بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ ایک زمانے میں ہمارے اخبارات پر علما، دانش وروں، شاعروں اور ادیبوں کا غلبہ تھا۔ چنانچہ اخبار اور رسالے پڑھنے والوں کی ذہنی اور علمی سطح بھی بلند ہوتی تھی۔ مگر اب ہماری صحافت میں دانش ور اور شاعر و ادیب کم ہی نظر آتے ہیں۔ چنانچہ اب صحافت شعور اور علم کے فروغ کا ذریعہ نہیں رہی۔ پہلے صحافت میں ایسے لوگ بہت ہوتے تھے جن کو پڑھ کر لوگ لکھنے والے بن جاتے تھے، مگر اب ہمارے ذرائع ابلاغ میں ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں جن کو پڑھ کر یا جن کو سن کر کوئی لکھنے والا بن جائے۔

صحافت کو قوم میں سنجیدگی کو فروغ دینے والا ہونا چاہیے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ ’’عورت فروش‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلز مختلف صورتوں میں عورت کا چہرہ فروخت کررہے ہیں۔ اس کا جسم بیچ رہے ہیں۔ اس کی مسکراہٹ کے دام وصول کررہے ہیں۔ اس کی ادائوں کو نیلام کررہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ آپ کسی بھی اخبار کا سنڈے میگزین دیکھ لیجیے، اس کے ٹائٹل پر عورت موجود ہوگی۔ رشید صدیقی نے کہیں لکھا ہے کہ جس شخص کا تصورِ عورت پست ہوتا ہے اُس کا تصورِ خدا بھی پست ہوتا ہے۔ یہ بات پورے معاشرے کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ کا تصورِ عورت انتہائی پست ہے۔ وہ اسے ماں، بہن، بیوی، ڈاکٹر، انجینئر، استاد، شاعر اور ادیب کی حیثیت سے پیش نہیں کررہے۔ وہ اسے ’’جنسِ بازار‘‘ بناکر سامنے لارہے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جن ذرائع ابلاغ کا تصورِ عورت اتنا پست ہے اُن کا تصورِ خدا کتنا پست ہوگا۔

ہمارے ٹی وی چینلز نے ڈرامے کے معیار کو اتنا گرا دیا ہے کہ ایک بار ممتاز ڈرامہ نگار حسینہ معین نے انٹرویو میں کہاکہ اب ہمارا ڈرامہ خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے لائق نہیں رہ گیا۔ امجد اسلام امجد ایک انٹرویو میں اس سے بھی آگے چلے گئے، انہوں نے کہاکہ اب بعض ڈرامے شوہر اور بیوی بھی ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ کئی ممتاز ڈرامہ نگاروں نے روزنامہ ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ اب ہمارا ڈرامہ این جی اوز نے اچک لیا ہے، اب این جی اوز طے کرتی ہیں کہ ڈرامے کی کہانی کیا ہوگی، اس کا ٹریٹمنٹ کیا ہوگا؟ ایک ڈرامہ نگار نے شکایت کی کہ اُن کے ایک ڈرامے میں ایک مثبت کردار تھا، اُن سے ڈائریکٹر نے کہاکہ اسے بھی منفی بنادو۔ اس طرح معاشرے کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ معاشرے میں کہیں خیر موجود نہیں، ہر طرف شر ہی شر ہے۔ ہمارے ٹاک شوز کا یہ حال ہے کہ وہ بیاناتی سیاست سے شروع ہوتے ہیں، اسی میں آگے بڑھتے ہیں اور اسی میں ختم ہوجاتے ہیں۔ اکثر ٹاک شوز پنجابی فلموں کی طرح چیخ پکار کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں۔ ان میں مرغوں کی لڑائی کا منظر خود کو دہرا رہا ہوتا ہے۔ یہ ٹاک شوز معاشرے کا ایسا مزاج بنارہے ہیں کہ کچھ دنوں بعد کوئی شخص سنجیدہ اور علمی بات سننے کے قابل نہیں رہ جائے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے ذرائع ابلاغ معاشرے کے خلاف ایک سازش نظر آتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ معاشرے کو بینا بناتے ہیں، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ معاشرے کو نابینا بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ معاشرے کی قوت ہوتے ہیں، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ معاشرے کی کمزوری بن گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ معاشرے کے محافظ ہوتے ہیں، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ معاشرے کے دشمن کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ معاشرے کو اوپر اٹھاتے ہیں، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ معاشرے کو سر کے بل گرانے میں لگے ہوئے ہیں۔

(This article was first published in Friday Special)