اینٹی ٹیررازم قانون کا غلط استعمال

416

بیش تر دہریہ حکومتوں کی طرح عمران خان کی حکومت بھی اسلام پر حملہ آور ہے۔ اس جارحیت کا مقصد اسلامی جذباتیت کے سیاسی اظہار کو غیر دستوری قرار دینا ہے۔ اس کے دو بنیادی طریقے ہیں۔
۔ اسلامی کارکنوں کی غیر دستوری گرفتاریاں اور گم شدگیاں
۔ اسلامی جذباتیت کے سیاسی اظہار کی غیر دستوری تحدیدِ تشہیر اور نشریات پر غیر دستوری پابندی
یہ دونوں اقدام جس غیر دستوری قانون کے تناظر میں منظم کیے جاتے ہیں وہ 1997 کا Anti-terrorism Act (ATA) ہے۔ یہ قانون صرف اسلامی سیاسی اظہار پر پابندیاں عائد نہیں کرتا بلکہ دستوری جمہوریت کو بھی اس سے شدید خطرہ ہے۔ اے ٹی اے میں ٹیررازم کی کوئی واضح تعریف متعین نہیں۔ صرف ان اقدامات کا ذکر ہے جن کو وہ ٹیررازم کے پھیلا کا ذریعہ گردانتا ہے۔ وہ اقدام ٹیررسٹ قرار دیے گئے جن کے وقوع سے عوام میں عدم تحفظ کا احساس پھیلنے کا امکان ہوتا ہے۔ عدم تحفظ کے اس احساس کو جانچنے کا کوئی پیمانہ تجویز نہیں کیا گیا۔ یہ اے ٹی اے نافذ کرنے والوں کی صوابدید پر ہے۔
ٹیررازم کے اس مبہم تصور کا اطلاق ان واقعات پر ہو گا جو ریاست کے خلاف کی گئی ہیں۔ ریاست کی کوئی واضح تعریف اے ٹی اے میں موجود نہیں۔ عملاً ریاست سے مراد حکومت اور سرکاری ادارے (عدلیہ، انتظامیہ، فوج، پولیس، مقننہ) لیے گئے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اے ٹی اے سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کو تحفظ فراہم کرنے والا غیر دستوری قانون ہے یعنی اے ٹی اے کے مطابق ہر وہ عمل ٹیررسٹ مانا جائے گا جو سرمایہ دارانہ نظام کو غیر محفوظ کر دے۔
اے ٹی اے تمام دستوری قوانین سے بالادست ہے۔ اے ٹی اے کے ماتحت ان اقدام پر بھی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے جو ٹیررسٹ اقدام کی فہرست میں شامل نہیں لیکن جن کو ان اقدام سے متعلق قرار دیا جا سکتا ہے۔ عملاً اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت جب چاہے جس عمل کو چاہے دہشت گردی سے منسلک قرار دے سکتی ہے۔ لہٰذا اے ٹی اے کا اطلاق قتل غیرت کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے قانون قصاص کو منسوخ کرتا ہے حالانکہ قتل غیرت کے اقدام سے تحفظ عامہ متاثر نہیں ہوتا نہ قتل غیرت کو ریاست کے خلاف جرم قرار دیا جا سکتا ہے۔ تمام سرمایہ دارانہ قوانین کی طرح اے ٹی اے بھی صریحاً ایک غیر اسلامی قانون ہے۔
ٹیررازم کا اطلاق ان اقدام پر بھی لاگو ہو گا جو حکومت یا پبلک (واضع نہیں) کو دھمکانے کے لیے کیے جائیں گے۔ دھمکیوں سے کیا مراد ہے واضح نہیں۔ اے ٹی اے کی عدالت کسی بھی بیان کو دھمکی قرار دے سکتی ہے خواہ وہ دھمکی حکومت کو دی ہو کسی سرکاری ادارے کو یا کسی سرمایہ دارانہ بزنس کو۔ سرمایہ دارانہ ملکیت کو اے ٹی اے تحفظ فراہم کرتاہے۔
اے ٹی اے کے تحت پولیس اور مسلح افواج کے حقوق درج ذیل ہیں:
۔ ابتدائی تنبیہ کے بعد ٹیررسٹوں پر گولی چلائے
۔ بغیر وارنٹ کے کسی شخص کو بھی گرفتار کر لے
۔ بغیر وارنٹ کسی بھی جگہ گھس کر کسی بھی شخص کو گرفتار کر لے اور جتنا چاہے وہاں سے اسباب ضبط کر لے
یہ حقوق دستور پاکستان دفعہ 19 اور سپریم کورٹ کے حکم کی صریح مخالفت ہیں۔ پولیس اور مسلح افواج کے یہ حقوق دستور پاکستان کی دفعہ کی بھی نفی کرتے ہیں۔ اے ٹی اے کا اطلاق ان اقدامات اور دھمکیوں اور احتجاجوں پر بھی ہوتا ہے جو کسی سامراجی حکومت یا سامراجی ادارہ کے خلاف منظم کیے جائیں۔ ہر وہ مذہبی دھمکی جو کسی حکومتی یا سرمایہ دارانہ ادارہ کو دی جائے اے ٹی اے کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ عملاً اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جذباتیت کے سیاسی اظہار کو ممنوع قرار دینا اور جرگوں اور دارالقضا کے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دینا ہے۔
اے ٹی اے کا اطلاق ہر پرامن مظاہرے پر لاگو کیا جا سکتا ہے کیونکہ خطرہ امن عامہ اور دھمکی کی اصطلاحات غیر واضح ہیں اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی عوامی مظاہرہ مواصلاتی نظام میں مداخلت کے بغیر برپا نہیں کیا جا سکتا۔ تمام جمہوری قوتوں کے لیے اے ٹی اے سب سے بڑی دھمکی اور تحفظ کے لیے خطرہ ہے۔ اے ٹی اے تشہیرِ آرا پر بھی پابندی عائد کرتا ہے۔ اسلامی جذباتیت کے اظہار پر میڈیا کی مکمل ناکہ بندی کا جواز اے ٹی اے کی دفعہ (5:2:p) فراہم کرتی ہے۔
اے ٹی اے کے تحت ٹیررسٹ سے مراد ہر وہ شخص ہے جو سرمایہ دارانہ سامراجی تحفظ کو غیر مستحکم کرنے کی حمایت کرے۔ اس سے عملاً مراد یہ ہے کہ ہر راسخ العقیدہ مسلمان ٹیررسٹ ہے خواہ اس نے کوئی ٹیررسٹ اقدام نہ کیا ہو اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ کسی بھی عمل کا مقصد عوام، حکومت یا سامراجی اداروں کے لیے عدم تحفظ کا احساس پھیلانا ہے۔ صرف وہ مسلمان دستوری حقوق کے مستحق قرار دیے گئے ہیں جو سامراجی سرمایہ دارانہ نظام اقدار کے تحفظ کو قبول کرتے ہیں۔
اے ٹی اے عدالتوں کو اختیار ہے کہ وہ اس امر کا فیصلہ کریں کہ کون سا واقعہ عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر رہا ہے۔ اے ٹی اے عدالتوں کو واقعہ کا محرک جانچنے کی ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دے کر اے ٹی اے قانون کو عملاً مہمل بنا دیا گیا ہے۔ عملاً حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ جس عمل کو بھی چاہے ٹیررسٹ قرار دے۔
اے ٹی اے کا رروائیوں کا دائرہ کار عملاً لامحدود ہے۔ مثلاً اس قانون کی دفعہ دس کے تحت پولیس و سرکاری اہل کاروں کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی بھی مکان میں بغیر وارنٹ گھس کر دستاویز کی تلاشی لیں اور جو چاہیں ضبط کر لیں۔ دفعہ گیارہ املاک کے ضبط کرنے کا اختیار بھی پولیس کو دیتا ہے۔ دفعہ گیارہ ٹیررسٹ تنظیم کی تعریف یوں کرتی ہے: ہر وہ تنظیم ٹیررسٹ قرار دی گئی ہے جو ٹیررسٹ افعال میں ملوث ہو، ٹیررسٹ افعال کی تیاری کرے یا ان کی حمایت کرے یا کسی دوسری ٹیررسٹ تنظیم کی حمایت کرے۔ اپنی صفوں سے مبینہ ٹیررسٹوں کو خارج نہ کرے۔ اس کی قیادت بالواسطہ یا بلاواسطہ مبینہ ٹیررسٹوں کے ہاتھ میں ہو۔
کون سی تنظیمیں کس وقت اس تعریف پر پوری اترتی ہیں اس کی نشاندہی کی ذمے داری کسی عدالت کو نہیں حکومت کی وزارت داخلہ کو سونپی گئی ہے اور حکومت کو مبینہ ٹیررسٹ تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کی آڑ میں ملک کی ہر سیاسی اسلامی جماعت پر اے ٹی اے کی دفعہ گیارہ کی ننگی تلوار لٹک رہی ہے۔ وفاقی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ سامراج کی نشان دہی پر مبینہ ٹیررسٹ تنظیموں کی شناخت کریں۔ لیکن چونکہ اے ٹی اے ایک عام فوج داری قانون اور سرمایہ دارانہ قانونی نظام کے ماتحت ہے لہٰذا مبینہ ٹیررسٹ تنظیم کو حکومت اور ہائی کورٹ سے اس حکم امتناع پر نظرثانی کا اختیار موجود ہے۔ حکومت کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ جس تنظیم کو چاہے مشکوک ٹیررسٹوں کی فہرست (سیکنڈ شیڈول) میں شامل کر کے اس کی نگرانی کرے۔ یہ نگرانی غیر معینہ مدت تک بڑھائی جا سکتی ہے۔
اے ٹی اے کی دفعہ گیارہ کے تحت ہر قسم کا ایسا مظاہرہ جس کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ نظام کے عدم تحفظ کا اندیشہ ہو ٹیررازم کی تعریف میں شامل ہے اور اس قسم کے مظاہرہ کا ہر شریک سرمایہ دارانہ تحفظ کے لیے خطرہ پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ ایسے مظاہرہ کے ہر شریک کو دس سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ حکومت یہ فیصلہ کرنے کا بھی حق ہے کہ کون سا عمل سرمایہ دارانہ تحکم کے لیے خطرہ پیدا کرتا ہے اور اس کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ جس کیس کو چاہے اے ٹی اے کی تحویل میں دے دے۔ لیکن اس بات کی اجازت ہے کہ اے ٹی اے کے فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے۔
اے ٹی اے دفعہ 127A کے تحت مبینہ ٹیررسٹ کو اگر وہ کسی کو ہتھیار فراہم کرنے والا تصور کیا گیا تو ہتھیار استعمال کرنے والے کے مماثل قرار دیا جائے گا۔
اے ٹی اے میں یہ واضح نہیں کہا گیا کہ ٹیررازم کے خلاف اے ٹی اے عدالتوں کے ہائی کورٹ کے فیصلوں کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن دستور پاکستان ہائی کورٹ کے ہر فیصلہ کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ATA 1997 کی تنسیخ کی اسلامی جدوجہد: یہ ایکٹ ریاستی سامراجی دہشت گردی کو فروغ دینے کا ایک قانونی تناظر فراہم کرتا ہے۔ یہ قانون کلنٹن سرکار کے شدید دبا میں آ کر مسلم لیگ نے پارلیمنٹ میں منظور کروایا۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ATA 1997 کے متن کی مشابہت حیرت انگیز حد تک اس قانون سے ملتی جلتی ہے جو چلی کے آمر پنوشے نے اپنے اقتدار میں آنے کے فورا بعد نافذ کیا تھا۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ نہ نواز شریف اسلام دشمن ہے نہ عمران خان لیکن دونوں سامراج کے غلام ہیں۔ سامراج کو خوش رکھنے کے لیے اب عمران خان کو پاکستان کے بلاسفیمی لاز کی تنسیخ پر مجبور کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں اسلامی سیاسی جذباتیت کے اظہار کو قانونی طور پر کچلنا آج سامراج کی ضرورت ہے کیونکہ امریکا جوتے کھا کر افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور ہو گیا ہے اور اب پاکستان میں اپنے فوجی اڈے اور تنصیبات قائم کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ ATA 1997 وہ ظالمانہ قانون ہے جو ان امریکی اڈوں کے خلاف اسلامی عوامی جذباتیت کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ لہٰذا ATA 1997 کی تنسیخ ان تمام اسلامی اور دہریہ قوتوں کے لیے ضروری ہے جو پاکستان کی خود مختارانہ سالمیت کو محفوظ رکھنا چاہتی ہیں اور اس کو سامراجی دہشت گردی سے بچانا چاہتی ہیں۔ لیکن اس ضمن میں بنیادی ذمے داری اسلامی تنظیموں ہی کی ہے کیونکہ وہ ATA 1997 کی اصل شکار ہیں۔ انہی کے کارکن لاپتا کیے جا رہے ہیں۔ انہی کی تنظیمیں کالعدم قرار دی جا رہی ہیں۔ انہی کی عوامی سرگرمیوں کی نشریات پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ مندرجہ ذیل اقدامات ممکن العمل ہیں:۔ تمام اسلامی جماعتوں میں ATA 1997 کی تنسیخ کی ضرورت واضح کی جانے اور ایک ایسا سیاسی مذہبی اتحاد قائم کیا جائے (جس میں اسلامی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں شریک ہوں) جو ATC 1997 کی تنسیخ کی لیے ملک گیر جدوجہد کرنے کی منصوبہ بندی کرے۔
۔ یہ اتحاد 2023 کے انتخابات میں ایک مشترکہ اسلامی منشور کی بنیاد پر لڑے اور اس انتخابی مہم کا مرکزی ایشو تحفظ ناموس رسالت اور ATA 1997 کی تنسیخ ہو۔
۔ کوشش کی جائے کہ پی ڈی ایم تحفظ ناموس رسالت اور تنسیخ ATA 1997 کے ایشو کو اپنے پروگرام اور انتخابی مہم میں مرکزی اہمیت دے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پی ڈی ایم کے تمام روابط اسلام دشمن پیپلز پارٹی سے منقطع ہو جائیں۔
۔ مسلم لیگ کے عام کارکنوں اور حمایتیوں کے حلقہ میں ناموس رسالت کے لیے جذباتیت کو فروغ دینے کے لیے مستقل کوشش کی جائے۔ یہ عمل کسی نہ کسی حد تک تحریک انصاف کے عام کارکنوں میں بھی جاری کیا جائے بالخصوص ان طبقوں میں جو پہلے اسلامی جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں۔
۔ اسلامی اتحاد فی الفور فرانس سے تمام ثقافتی و تجارتی تعلقات منقطع کرنے کی عوامی مہم چلائے اور کوشش کرے کہ ہر محلہ میں جمعہ کے خطبات میں فرانس میں جاری اسلام دشمن اقدامات کی تشہیر ہو اور فرانس سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ زور و شور سے پیش کیا جائے اور مقامی تاجروں سے فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ کی درخواست کی جاتی رہے۔ 2023 تک فرانس مخالف عوامی تحرک اپنے عروج کو پہنچ جائے۔
۔ اسلامی اتحاد فی الفور ایک ملک گیر وکلا کی مجلس قائمہ قائم کرے جس میں چوٹی کے وکلا شامل ہوں۔ وکلا کمیٹی کے دو فرائض ہوں:
۔ تحریک لبیک کے کالعدم قرار دیے جانے کے خلاف ہائی کورٹ اور عدالت عظمیٰ میں تیاری اور پیشی۔ اس کمیٹی کے کام کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے۔
۔ اے ٹی اے کے قانون کی ایسی ترمیم کی تیاری جو عملاً اس کی تنسیخ پر منتج ہو۔ یہ ترمیمی بل کمیٹی کے قیام سے زیادہ سے زیادہ تین مہینہ بعد قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائے۔ قومی اسمبلی میں یہ بل جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور ہم خیال مسلم لیگی اراکین کے ساتھ مل کر پیش کریں اور اس بل کی بھی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے۔