ایسا کب تک؟؟

344

ابھی مملکت خداداد پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کے حصول میں قدرے کامیابی سے مسرور ہورہی تھی کہ ’’دبئی ان لاکڈ‘‘ کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آگئی اور عالم تمام میں چھا گئی۔ جس میں بتایا گیا کہ 17 ہزار پاکستانیوں نے دبئی کے مہنگے ترین علاقوں میں 23 ہزار جائداد خریدی ہوئی ہیں جن کی مالیت ساڑھے 12 ارب ڈالر ہے، دبئی میں جائداد کی خریداری میں بھارت اوّل نمبر پر ہے تو پاکستان دوسرے نمبر پر ہے اور پاکستان نے برطانیہ، سعودی عرب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستانی خریداروں میں حکمرانوں، ریٹائرڈ جرنیلوں، پولیس چیف اور حتیٰ کہ سندھ اور بلوچستان کے ارکان اسمبلی تک شامل ہیں۔ اب سابق بیوروکریٹ شفقت محمود نے نکتہ خاص اٹھایا کہ یہ ملکیت جو خیرات میں تو نہیں ملی ہے خریدی گئی ہے تو خریداری کا سرمایہ کہاں سے دبئی میں آیا، ملازمت کے ذریعے ملا یا کاروبار کرکے کمایا۔ یہ آسمان سے ہن تو نہ برسا، اگر پاکستان سے بھیجا گیا تو پہلا سوال یہ ہے کہ بھیجنے والے کے پاس اتنی بھاری رقم کہاں سے آئی کہ حیرانی ہوتی ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک پولیس اہلکار رائو انوار نے دبئی کے 74 دورے کیے اور ان کی تنخواہ ماہانہ 95000 روپے تھی۔ اُن کی اہلیہ اور بیٹوں کی اربوں روپے کی جائداد دبئی میں بن گئی، ہے نہ کمال کی بات۔ اب یہ حرام کی کمائی تھی تو پھر بھیجی کیسے گئی۔ سرمایہ کی منتقلی کے لیے اسٹیٹ بینک اور دیگر حکومتی اداروں کی منظوری درکار ہوتی ہے وہ لی گئی؟
سوال اٹھانے والے بھولے بادشاہ ہیں یہ کمائی نہ ہی قانون کے مطابق ہوئی نہ قانونی طریقے سے بھجوائی گئی۔ ماڈل گرل ایان علی ائرپورٹ پر مکمل پروٹوکول کے ساتھ بھاری رقوم بیرون ملک لے جاتے پکڑی گئی تو پکڑنے والا انسپکٹر اس جرأت رندانہ کی بدولت قتل کردیا گیا اور ایان علی کا بال تک بیکا نہ ہوا۔ اور تو اور پاناما لیکس کا قصہ ابھی پرانا نہیں ہوا۔ جس میں حکمران وقت نے پراپرٹی کی خریداری کی خاطر ایسی ملازمت کے ثبوت دیے کہ جن کو دیکھ کر قانون بھی شرمسار ہوا ہوگا۔ اب یہ کہنا کہ حساب کتاب کی دنیا میں خریداری پراپرٹی پوری نہیں اترتی تو یار لوگ کہتے ہیں کہ حساب کتاب تو روز محشر ہوگا۔ یہاں تو حمام میں تمام وہ لوگ ننگے نہانے والے ہی ہیں جو حساب کتاب کے بھی ذمے دار ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں خریداری جائداد کے مقابلے میں فرق اتنا ہے کہ یہاں حکمران وقت خریدار ہیں تو بھارت کے حکمران مودی کے اثاثے بتارہے ہیں کہ اُن کے پاس نہ زمین ہے نہ کوئی گاڑی، ہاں سود خاطر اس وزیراعظم مودی نے 2.86 کروڑ روپے فکسڈ اکائونٹ میں رکھے ہوئے ہیں اور 9.12 لاکھ روپے نیشنل سیونگ سرٹیفکیٹ میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور سونے کی 4 انگوٹھیاں ہیں، اُن پر کوئی مجرمانہ کیس زیر التوا نہیں ہے۔ اتنی سی رقم تو ایک سیاست دان، ایم پی اے، معمولی بیوروکریٹ کے پاس پاکستان میں ہے اس تقابل پر کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی لٹیروں شرم تم کو مگر نہیں آتی کہ تمہارے کرتوت دیکھ کر شرمائیں یہود و ہنود، پاکستان میں مال کھپے کا عروج ہے جو سفر زوال ہے، حکمران وقت کے کرتوتوں کی سزاوار قوم پاکستان ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دبئی ان لاکڈ کا آئینہ جس نے پاکستان کے لٹیروں کی ایک مرتبہ پھر نقاب کشائی کی ہے پاناما لیکس کی طرح ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔ جی ہاں کچھ ایسا ہے۔ یہ انکشاف جو اب منظر عام پر لائے گئے ہیں ان کا ڈیٹا پاکستانی ادارے ایف آئی اے کے پاس پچھلے سات سال سے موجود ہے اس ادارے نے یہ دبئی حکام سے رابطہ کرکے منگوایا تھا اور یہ طے پایا تھا کہ ان صاحب کی جائداد پر ٹیکس اور جرمانہ عائد کرکے ملک کی معیشت کی ڈوبتی نبض کو سہارا دیا جائے، کارروائی شروع ہوئی ایک بڑے میڈیا ہائوس مالکان کی رہائش گاہ پر نوٹس چسپاں کیا گیا۔ یہ (ن) لیگ کا دور تھا اور تحقیقات نمک کی کان میں نمک کے مصداق ہو کر ختم ہوگئیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو اس نے چور راستہ ایمنسٹی اسکیم نکالا۔ 2019ء میں کالے دھن کو سفید کرنے کا فارمولا دیا اور کارروائی سے بچت کا سامان صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس اسکیم میں 45 دن کے اندر ٹیکس کی ادائیگی کے ساتھ اپنے غیر علانیہ اثاثوں و اخراجات کو ظاہر کرنا اور معمولی جرمانہ سے پاک پوتر بننا تھا اور یوں کچھ نے فائدہ خوب اٹھایا اور ایف آئی آر کی تحقیقات کا باب بھی ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔ اب پھر دبئی لیکس نے آئینہ دکھایا تو کچھ لٹیرے برا مان گئے۔ پاکستان کی تاریخ کی روایت یہ رہی ہے کہ دھماکا ہوتا ہے اور کچھ دنوں گونج رہتی ہے پھر سب بھول جاتے ہیں اور مٹی پائو کا معاملہ ہوجاتا ہے۔ کیا اب بھی ایسا ہوگا یہ کب تک ہوتا رہے گا؟