اہل پاکستان کے دل فلسطین کی آزادی کے لیے بے تاب ہیں

اللہ ربّ العزت نے انسانی معاشرے کی بہت ہی خوب تقسیم کی ہے کہ ہر ایک فرد، معاشرہ دوسرے فرد یا معاشرے کے لیے مختلف امور میں مثال قائم کررہا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنے پاس موجود نعمت کا قدرداں بنتا نظر آتا ہے۔ اسی سنت پر اہل غزہ عمل پیرا ہیں، جو دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ معمولی معمولی پریشانیوں کے نتیجے مایوسیوں کے دلدل میں پھنسے انسانوں ان چھوٹی چھوٹی تکالیف پر صف ماتم کی جگہ اس دور کے سب سے بڑے فتنے اسرائیل اور اس کے حواریوں کی خدائی کو ختم کرنے کے لیے یک جان ہوکر مقابلہ کرو، جس کے لیے ہر شے کی قربانی دینا ہوگی۔

20 مئی بروز پیر جامعہ اسلامیہ غزہ کے سابق پروفیسر ڈاکٹر محمود یوسف محمد الشویبکی مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد تشریف لائے، ان کی آمد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ادارے کی جانب سے دوسالہ تخصص فی الفقہ والافتاء کے طلبہ کے ساتھ نشست کا انعقاد کیا گیا۔ ڈاکٹر محمود یوسف محمد شویبکی نے غزہ کی تازہ صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: قابض اسرائیل نے غزہ کے 70 فی صد حصے کو فضائی حملوں کے توسط سے ناقابل رہائش بنادیا ہے۔ مزید یہ کہ کچھ دن قبل میرے گھر کو بھی مسمار کردیا ہے، جس کے نتیجے میں ہم تمام ضروریات زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔

ان کا یہ جملہ سنتے ہی میں ان کے چہرے کو دیکھتا رہ گیا، اور اپنے آپ سے مخاطب ہوا کہ اگر ہمیں انفرادی طور پر معمولی سی تکلیف پہنچتی ہے تو ہماری آہ بکا کا سلسلہ رُکنے کو نہیں آتا، اللہ کی جانب سے دیے گئے انعامات کو آنا فاناً بھلا دیا جاتا ہے اور اسی عالم میں بسا اوقات اپنے ربّ سے شکوہ بھی کرنے لگ جاتے ہیں کہ اس مصیبت کے لیے ہمارا ہی انتخاب کیا گیا ہے! لیکن جامعہ غزہ کے بوڑھے شیر کے چہرے پر مسکراہٹ نے یہ سبق دیا کہ اصل قوت وہ ایمان کی قوت ہے جس کی وجہ سے انسان کو پہاڑ جیسی مشکلات بھی جھکا نہیں سکتی، بشرطیکہ اپنے ربّ پر ایمان اور اس پر توکل مضبوط ہو۔

مہمان گرامی نے مزید کہا کہ قابض اسرائیل صرف غزہ کے شہریوں کے قتل عام، ان پر بھوک وپیاس کا عالم بپا کرنے میں ہی کامیاب ہوا، اس کے علاوہ اس نے اللہ کے قوت ومدد سے مزاحمتی تحریک تک رسائی حاصل نہیں کی۔ جبکہ کتائب القسام، سرایا القدس اور دیگر مزاحمتی تحریکوں نے دشمن کے جنگی آلات، فوج کے اعلی عہدیداران، فوجیوں کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے، بالخصوص گزشتہ 10 دنوں کے دوران ان کے 100 آلات جنگ اور فوجی قتل اور شدید زخمی کیے ہیں۔ جبکہ اس جنگ کو آٹھ ماہ ہونے کو ہیں۔ اسی ناکامی کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی انٹیلی جنس اور دیگر اعلیٰ عہدیداران یہ کہہ کر استعفا پیش کرچکے ہیں کہ اتنے طویل عرصہ میں ہمیں جنگی اہداف حاصل نہ ہوسکے۔ اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسرائیلی فوج اور وہاں کے شہری اپنی ریاست کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ مجاہدین نے ان کو عسکری میدان میں شکست دے دی ہے۔ حقیقت یہی کہ مجاہدین جس ثابت قدمی،جرأت وبہادری کے ساتھ میدان جہاد میں دشمن کا مقابلہ کررہے ہیں، جس کا پورا عالم مشاہدہ کررہا ہے وہ اس امر پر دال ہے کہ فلسطین کی آزادی قریب ہے۔

ڈاکٹر محمود یوسف نے اس امر کا برملا اظہار کیا کہ مجھے پاکستانی عوام کی آنکھوں میں غزہ، اور وہاں کے مجاہدین سے محبت نظر آرہی ہے، جو اس امر کی دلیل ہے یہاں کا بچہ، نوجوان، اور خواتین فلسطین کی آزادی کے لیے بے تاب ہیں۔ آپ کی یہ بے تابی ہمارے حوصلہ کا سبب بن رہی ہے۔

سامعین کرام: آپ سب دینی علوم کے طالب علم ہیں، آپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ مسئلہ فلسطین کی حقیقت کو احسن انداز میں سمجھ کر اپنے عوام تک اس کی حقیقت کو پہنچانے کی سعی کریں، اس لیے فلسطین صرف اہل فلسطین کی ملکیت نہیں ہے، بلکہ پوری امت اس کی مالک ہے، لہٰذا اس کی آزادی کے لیے جتنے بھی وسائل ہوسکتے ہیں، ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ کالم کا اختتام فلسطینی خواتین کا القدس کی آزادی کے لیے قربانی کے جذبے پر کیا جارہا ہے جس کے راوی ڈاکٹر محمود یوسف ہی ہیں جو انہوں نے لاہور جاتے ہوئے بیان کیا، فرماتے ہیں وہاں کی خواتین بھی اسرائیل سے آزادی کے لیے اپنی تمام تر قربانیاں پیش کررہی ہیں جس کی عصر حاضر میں کوئی مثال نہیں ملتی، اور ان کی اس قربانی سے صحابیات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ چند سال قبل غزہ کے علاقے جنین سے ایک خاتون جس کا نام ھنادی جرادات، جس کی عمر 28 سال تھی۔ انہوں نے اسرائیلی فوجیوں کو جہنم واصل کرنے کے لیے ان پر خود کش حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 21 فوجی جنم واصل جبکہ 51 فوجی شدید زخمی ہوئے تھے۔ اللہ ربّ العزت اہل غزہ کو ثابت قدمی رکھے، اور ان کو فتح سے ہمکنار فرمائے۔ آمین