انقلابی اور سخت اصلاحات وقت کی ضرورت

374

پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر سال بجٹ کی تیاری کے لیے بیرونی قرضوں پر انحصار کیا جاتا ہے، اور بیرونی قرضوں کے حصول کے لیے بجلی، گیس، پٹرول اور دیگر مدات میں عالمی ادارے کی خواہشات پر نتائج کی پروا کیے بغیر اضافہ کردیا جاتا ہے جو یقینا پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، سب سے مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن منشور میں غریبوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے نکات پیش کیے جاتے ہیں تاہم انتخابات میں فتح یابی اور حکومت سازی کے بعد سیاسی جماعتیں اور قائدین مختلف تاویلات کے ذریعے اُن نکات پر عملدرآمد سے معذرت کرلیتے ہیں۔

پاکستان کے معاشی نظام کو درست سمت میں لانے کے لیے عالمی ادارے کی سفارشات پر سرکاری اداروں میں اصلاحات کے بارے میں بھی غور کیا جارہا ہے، سوشل میڈیا پر پنشن اصلاحات کی خبریں بھی گردش کررہی ہیں جبکہ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کی تجاویز کا بھی سُننے میں آرہا ہے، یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ 2011ء میں بھی وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کے امتیازی فرق کو ختم کرنے کے لیے پے اینڈ پنشن کمیٹی کو یونیفائد پے اسکیل کا مسودہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور اطلاعات کے مطابق وہ مسودہ تیار بھی کرلیا گیا تھا، تاہم طبقہ اشرافیہ کی مُداخلت کے سبب اُس پر بھی عمل درآمد ممکن نہیں ہوسکا تھا۔

ہمارے قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ سرکاری مراعات کی نظر ہوجاتا ہے جبکہ صدرِ مملکت، وزیرِ اعظم اور وزراء کے غیر ضروری بین الاقوامی دورے سرکاری خزانے پر بوجھ بنتے ہیں۔ ہر سال وفاقی اور صوبائی وزراء اور اراکین ِ پالیمان کی مراعات میں سیکڑوں فی صد کا اضافہ کردیا جاتا ہے حالانکہ انہیں پہلے ہی غیر معمولی مراعات حاصل ہیں۔ کروڑوں، اربوں روپے کی گاڑیاں خرید لی جاتی ہیں، قرضوں پر معیشت چلانے کے باوجود غیر ضروری منصوبوں کا اجراء عمل میں لایا جاتا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ سرکاری افسران کو بھی غیر معمولی مراعات سے نوازہ جاتا ہے، گاڑیوں، ڈرائیورز، پٹرول، یوٹیلیٹی بلز کی مد میں اعلیٰ سرکاری افسران کا سالانہ خرچہ بیرونی قرضوں میں اضافے کا سبب نہیں ہے؟۔ کسی بھی مملکت کے انتظامی اُمور کو منتظم رکھنے کے لیے دو بنیادی اکائیاں ضروری ہوتی ہیں ایک نقد آمدن جو بذریعہ ٹیکس حاصل کی جاتی ہے جبکہ دوسری قدرتی وسائل جن میں بالخصوص آئل اینڈ گیس شامل ہے جن سے توانائی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں جبکہ دیگر قدرتی وسائل بھی معیشت کو رواں رکھنے کے لیے کارآمد ثابت ہوتے ہیں حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے تاہم تاحال ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لانے پر قادر نہیں ہوسکے ہیں۔

کروڑوں کی آبادی والے پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق 52لاکھ ہے اُن میں سے بھی بیش تر وہ ہیں جو اپنے اثاثے ظاہر نہیں کرتے کیونکہ ٹیکس دہندگان میں سے بیش تر تنخواہ دار طبقہ ہے جس میں سرکاری اور غیر سرکاری ایسے ملازمین شامل ہیں جن کو تنخواہوں کی ادائیگی بینکوں کے ذریعے عمل میں لائی جاتی ہے وگرنہ شاید فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ٹیکس دہندگان کی تعداد محض 10 سے 20 لاکھ ہی ہوتی جبکہ اگر بادی النظر دیکھا جائے تو پاکستان میں ٹیکس نیٹ میں آنے والوں کی تعداد 2 کروڑ سے بھی متجاوز ہے ہر سال وزارت خزانہ کی جانب سے یہ نوید سنائی جاتی ہے کہ لاکھوں، کروڑوں ٹیکس چوروں کا سراغ لگالیا گیا ہے اور اُن کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا ہے تاہم نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے، ریاست کی جانب سے کسی بھی شکل میں طبقہ اشرافیہ پر جو ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں طبقہ اشرافیہ کسی دوسری شکل میں اپنا وہ بوجھ نچلے طبقے پر منتقل کردیتا ہے۔

حال ہی میں تاجروں سے ٹیکس وصولی کے لیے ایک اسکیم تیار کی گئی تھی جس پر تاحال تاجر تنظیمیں کو تحفظات ہیں، اسکیم کے تحت تاجروں سے کاروبار اور کاروباری مراکز کی مناسبت سے بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکس وصولی کا پلان ترتیب دیا گیا تھا اوّل تو اِس اسکیم پر عمل درآمد شروع نہیں کیا گیا ہے دوم اِس اسکیم پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ راقم نے چند سال قبل اپنے ایک کالم میں ٹیکس وصولی کے عمل میں بڑھاوے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مقامی حکومت کے ٹیکسیشن شعبے سے اشتراک کی تجویز دی تھی جس کے ذریعے تاجروں اور تجارتی مراکز کا تفصیلی ڈیٹا حاصل کیا جاسکتا ہے اور دکانوں کی درجہ بندی کے تحت ٹیکس کی شرح کا نفاذ عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ ایک ہی تجارتی مرکز میں مختلف کاروباروں میں آمدنی کا تناسب مختلف ہوتا ہے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ کاروبار کی نوعیت اور آمدنی کے تناسب ہی سے ٹیکس کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔

بجلی اور گیس کی تیزی سے بلند ہوتی قیمتوں نے غریب اور متوسط طبقے کے ہوش اُڑادیے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ شہر ِ کراچی میں ہونے والی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود بجلی کے بل گزشتہ ماہ کے مقابلے میں بڑھ کر ہی آتے ہیں، چند سال قبل تک 40واٹ کی ٹیوب لائٹس اور 60واٹس کے پیلے بلب استعمال کرنے پر گرائونڈ پلس ون (سادہ زبان میں دو منزلہ عمارت) کا بجلی کا ماہانہ بل 250 سے 300یونٹ تک آتا تھا، طرز زندگی میں تبدیلی کے ساتھ 12واٹس کی ننھی ننھی لائٹوں کی تنصیب کے باوجود نئے جدید میٹر نصب ہونے کے بعد سے ایک سنگل فلور (ایک منزل) کا ماہانہ بجلی کا بل ہی گرمیوں میں 300 یونٹ سے متجاوز ہوجاتا ہے، مزید اُس پر یہ ظلم کے محفوظ اور غیر محفوظ کا فارمولہ بناکر 2 سو یونٹ سے زائد کے استعمال پر یونٹ کے نرخ میں غیر معمولی اضافہ کردیا جاتا ہے، علاوہ ازیں فیول ایڈجسٹمنٹ سرجارچ، کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ اور دیگر ٹیکس کی صارفین سے وصولیابی سراسر ظلم ہے۔

پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں GST بھی صارفین سے وصول کیا جاتا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس (GST) جس کی ادائیگی فروخت کُنندہ ’’کمپنی/ادارے‘‘ کے ذمہ عائد ہوتی ہے پاکستان میں اُس کی ادائیگی بھی ’’صارفین‘‘ کررہے ہیں۔ مارکیٹ میں پیکنگ کی صورت میں فروخت ہونے والی تقریباً تمام ہی اشیاء بالخصوص اشیاء خورو نوش پر قیمتوں کا اندراج کچھ اس انداز میں ہوتا ہے کہ پہلے ریٹیل پرائس ’’خوردہ قیمت‘‘ تحریر ہوتی ہے اُس کے بعد پلس GSTلگا ہوتا ہے اور آخر میں نیٹ پرائس ’’خالص/ اصلی‘‘ لکھے ہوتے ہیں، دکاندار صارفین سے خوردہ کے بجائے نیٹ ’’خالص/اصل‘‘ قیمت وصول کرتے ہیں۔ اِس ضمن میں بڑے بڑے تجارتی اداروں کا طریقہ واردات کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ وہ ٹریڈ پرائس پر بڑے بڑے مالز اور تھوک فروشوں /تقسیم کاروں کو GST ’’جنرل سیلز ٹیکس‘‘ کی مد میں قیمتوں میں 4سے لیکر 17فی صد تک کٹ کا فائدہ دیتے ہیں جو کہ دکاندار صارفین سے حاصل کرتے ہیں اس طرح کمپنیاں اور ادارے دستاویزات میں GST خود دے رہے ہوتے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ بوجھ بھی عوام پر ہی منتقل کردیا جاتا ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات کی درستی کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ بنیادوں پر انقلابی اور سخت اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔