ابراہیم رئیسی کی المناک شہادت

505

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی ہیلی کاپٹر حادثے میں اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔ ان کی اس المناک شہادت نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس واقعہ نے عالمی برادری کو ششدرکردیا ہے۔ ابراہیم رئیسی طویل عرصے کے بعد پاکستان کا تاریخی اور یادگار دوہ کیا تھا اور وہ یہاں اپنی خوبصورت یادیں چھوڑ کر گئے تھے۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ پاکستانی عوام سے بھی کسی بڑے جلسہ سے خطاب کریں لیکن حفاظتی اقدامات کی بنیاد پر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ حکومت پاکستان نے بھی ان کے اس دورے کے دوران اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں غیر معمولی انتہائی سخت حفاظتی اقدامات کیے تھے۔ لاہور اور کراچی میں ان کے دورے کے دوران عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا اور ان کی آمد ورفت کے تمام راستوںکو مکمل طور پر سیل کیا گیا تھا۔

اسرائیل فلسطین جنگ میں ایران کا اہم کردار ہے اور اس وقت امریکا اسرائیل دونوں مشترکہ طور پر ایران پر حملہ آور ہیں اور دونوں کوئی موقع ہاتھ جانے نہیں دیتے جس سے ایران کے مفادات پر کاری ضرب لگے۔ طویل عرصے ایران پر امریکی پابندیوں کے باوجود ایران پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر عالمی سطح پر ابھرا ہے۔ گزشتہ چند سال میں مشرق وسطیٰ ہنگامہ خیز صورتحال سے دوچار ہے اور تیزی کے ساتھ علاقائی منظر نامہ تبدیل ہورہا ہے۔ غزہ تنازع میں ایران نے کھل کر فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے جس پر امریکا اور اسرائیل سیخ پاہیں اور ایران کو مسلسل دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں لیکن ایران نے ابراہیم رئیسی کی قیادت میں جرأت مندی اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور ابراہیم رئیسی اس نازک موقع پر قائدانہ کردار ادا کیا۔

ابراہیم رئیسی بلا شبہ ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے طاقت ور صدر بن کر ابھرے ان کے دور ِصدارت میں نظریاتی حریف سعودی عرب سے دوطرفہ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی۔ سفارتی سطح پر روس، چین بھی ایران کے قریب آئے۔ یوکرائن جنگ میں ماسکو کو عسکری حمایت حاصل رہی اور یوکرائن جنگ میں ایرانی ساختہ ڈرون طیاروں کی بھی بازگشت عام ہے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی اور افغانستان میں ایرانی تیل کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ہیلی کاپٹر میں ایرانی صدر، وزیر خارجہ ودیگر افراد کی شہادتیں بلاشبہ ایران کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں ہے اور یہ المناک سانحہ ایران کی قدامت پرست پالیسیوںکے تسلسل پر کاری ضرب ہے۔ ایرانی قوم طویل عرصے سے عالمی قوتوں کے ہر چیلنج کو قبول کررہی ہے اور وہ اس طرح کے حادثات کے عادی ہوچکے ہیں اور وہ اپنے اصولی موقوف پر مسلسل قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ سید ابراہیم رئیسی نے اپنے پاکستان کے دورے کے دوران پاکستان اور ایران کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ چند ماہ قبل ہی پاک ایران سرحد کشیدگی کے تناظر میں ان کے اس دورے نے دونوں طرف کی برف کو پگھلا دیا ہے اور انہوں نے پاکستانی قوم کے ساتھ جس طرح سے والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار کیا ہے اس نے سب کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ ان کی المناک شہادت سے پوری دنیا میں بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔ ابھی تک اس حادثے کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ بیرونی مداخلت ثابت ہوگئی تو پھر یہ سانحہ پوری دنیا کے لیے ایک بڑا امتحان اور دنیا کے امن کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

ابراہیم رئیسی نے اپنے دورے پاکستان میں پاک ایران تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کیا تھا اور ان کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے مابین تجارتی، معاشی معاملات میں استحکام حاصل ہوا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب پورا مشرق وسطیٰ سیاسی وجغرافیائی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اسرائیل فلسطین پر حملہ آور ہے اسرائیل کی جانب سے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور ردعمل میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل داغے جانے کے بعد خطے میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہوچکی ہے۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود ایران معاشی مسائل کا شکار ہے۔ ابراہیم رئیسی نے تین اگست 2021 کو جب ایران کی صدارت سنبھالی تو ان کا ملک داخلی انتشار اور بیرونی پابندیوںکا شکار تھا۔ معاشی مسائل گمبھیر ہوتے جا رہے تھے انہوں نے انتہائی مدبرانہ انداز میں ان تمام مسائل کو حل کیا۔ انہوں نے حلف اٹھاتے ہی اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ وہ غیر ملکیوںکو یہ ڈکٹیٹ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کہ ملک کی معیشت کو کیسے چلایا جائے۔ ان کا ملک مشرق وسطیٰ کے استحکام کا ضامن ہے۔ ایران عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو منظم کرنے اور انہیں وسعت دینے کے لیے بھی ہرممکن اقدامات کرے گا۔

بے شک سید ابراہیم رئیسی نے اپنے پونے تین سالہ دور صدارت میں اپنی پہلی تقریر میں کی گئی باتوں اور وعدوںکی پاسداری کی۔ انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ اقدامات کیے جس کے بہتر نتائج سامنے آئے ہیں۔ پاکستان کا بھی دورہ انتہائی ہمیت کا حامل تھا طویل عرصے کے بعد ایرانی حکومت کے کسی اعلیٰ عہدیدار کا یہ اہم دورہ تھا جس کے مستقبل میں دونوں ملکوں پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ابراہیم رئیسی کو ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای کے نظریاتی جانشین کا درجہ بھی حاصل تھا اور ممکنہ طور پر وہ اگلے سپریم کمانڈر کے لیے موزوں ترین فرد سمجھے جاتے تھے۔ ان کی شہادت ناصرف یہ کہ برادر اسلامی ملک ایران بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک غم کا باعث ہے۔ ابراہیم رئیسی اسلام دشمن قوتوں کے سامنے ایک ننگی تلوار کی مانند تھے انہوں نے ہمیشہ طاغوتی قوتوں کو آگے بڑھ کر للکارا اور اسلام دشمن قوتوں کے سامنے کبھی اپنے سر کو نہیں جھکایا۔ سید ابراہیم رئیسی کا مشن جاری رہے گا اور فلسطین کو جلد آزادی حاصل ہوگی اور امریکا اسرائیل جلد دنیا کے نقشہ سے ہی مٹ جائیں گے۔