ام المؤمنین… سیدہ عائشہؓ

309

امام زرکشی نے اپنی کتاب (اجابہ) میں سیدہ عائشہؓ کی ایسی چالیس منقبتوں (خوبیوں) کا ذکر کیا ہے، جو کسی اور میں نہیں پائی جاتیں، رسول اللہؐ کی دیگر بیویوں کی آپ سے اس وقت شادی ہوئی تھی جب کہ وہ عمر رسیدہ اور شوہر دیدہ تھیں، جب کہ آپ نے عائشہؓ سے اس وقت شادی کی جب کہ وہ کنواری تھیں، آپ اپنی تمام بیویوں کو بہت چاہتے اور ان میں سب سے زیادہ عائشہؓ کو چاہتے۔ بیماری کے وقت آپ نے انھی کے یہاں قیام کرنا پسند فرمایا، انھی کی آغوش میں آپ کی وفات ہوئی اور انھی کے حْجرے میں آپ کی تدفین بھی ہوئی، نزولِ وحی کے وقت آپ ان کے ہم راہ ہوتے، آپ کا ان کے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا، جب حبشی لوگ مسجد کے سامنے اپنے کمالات دکھا رہے تھے تو آپ ان کی خاطر وہاں کھڑے ہوئے، انھوں نے اپنا رخسار آپ کے کندھے پر رکھ لیا تاکہ اطمینان سے وہ تماشا دیکھ سکیں۔ آپ کا دو بار ان سے دوڑ کا مقابلہ ہوا، پہلی بار وہ آپ پر سبقت لے گئیں، پھر جب وہ ذرا موٹی ہوگئیں اور ان کا بدن بھاری ہوگیا تو آپ ان پر سبقت لے گئے اور ان سے کہا: یہ اس کا بدلہ ہے، ایک روز جب ابوبکرؓ ان کے پاس اس وقت آئے جب کہ وہ نبی کریمؐ سے ایسی بات کہہ رہی تھیں جسے عام طور پر غصے کی حالت میں بیویاں کہا کرتی ہیں تو ابوبکرؓ نے انھیں مارنا چاہا مگر رسول اللہؐ نے انھیں بچالیا، جب ابوبکرؓ چلے گئے تو ان سے کہا: دیکھا کس طرح میں نے تمھارے ابو سے تمھاری حفاظت کی؟!
اس طرح آپ کا اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ معاملہ تھا: انسیت والا، حسنِ سلوک والا، خوشی ومسرت والا معاملہ، نہ کہ اس طرح کا جیسا کہ بعض مرد حضرات سمجھتے ہیں، وہ مردانگی اس بات میں سمجھتے ہیں کہ آدمی اپنے گھر میں ترش رو، منہ بگاڑے اور تیوری چڑھائے رہے اور اپنی بیوی کو فوجی آرڈر کی طرح آرڈر دے اور ظالموں کی طرح اس پر سختی کرے، نہیں، ہرگز نہیں، اللہ کے رسول ایسے نہیں تھے اور نہ تو اسلام نے اس کی اجازت دی ہے۔
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’تم میں کا سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھائی سے پیش آئے، میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے زیادہ اچھے سے پیش آتا ہوں‘‘۔ عائشہؓ کے ساتھ آپ کے حسنِ سلوک کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک ایرانی شخص نے آپ کو ایک ولیمے پر مدعو کیا تو رسول اللہؐ نے کہا: کیا یہ بھی میرے ساتھ مدعو ہیں؟ (یعنی عائشہؓ) اس نے کہا: نہیں، اس نے دوبارہ آپ کو دعوت دی تو آپ نے کہا: کیا یہ بھی میرے ساتھ مدعو ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، جب اس نے آپ کو تیسری بار دعوت دی تو پھر آپ نے کہا: کیا یہ بھی میرے ساتھ مدعو ہیں تب اس نے کہا: ہاں۔ ایک طرف اللہ کے رسول کی اس عالی ظرفی کو دیکھو اور دوسری طرف آدمی کی اس صاف گوئی کو دیکھو اور پھر اس کا اندازہ آج کے لوگوں کے حالات سے لگاؤ۔ جب رسول اللہ کی بیویوں سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی کہ انھیں اس بات کا اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو آزادی کا استعمال کرکے جاسکتی ہیں اور رسول اللہ انھیں طلاق دے دیں گے یا چاہیں تو آپ کی زوجیت میں رہیں تو عائشہؓ سے حد درجہ تعلق خاطر رکھنے کی بنا پر آپ نے فرمایا: جواب دینے میں جلدی نہ کرو، جاؤ پہلے اپنے والدین سے مشورہ کرلو، کیوں کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ جلد بازی میں تم کہیں دنیا کو ترجیح نہ دے بیٹھو، تو انھوں نے کہا: کیا میں آپ کے سلسلے میں مشورہ کروں؟ یہ کہہ کر انھوں نے رسول اللہؐ کو دنیا کے مقابلے میں پسند کیا اور پھر بقیہ امہات المؤمنین نے بھی ان کی اتباع میں رسول اللہ کی زوجیت میں رہنا پسند فرمایا۔
رہی ان کے علم کی بات تو وہ اس میں بلند مقام پر فائز تھیں۔ ابو موسیٰ اشعریؓ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ: ہم اصحابِ رسول کو جب کوئی مسئلہ درپیش آتا تو عائشہؓ سے دریافت کرتے۔
ان کا حسنِ بیان ان کے علم سے کم نہ تھا۔ احنف کہتے ہیں: میں نے ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ اور اپنے اس دور کے خلفا کی تقریریں سنی ہیں، لیکن عائشہؓ کے کلام سے زیادہ شاندار اور خوب صورت کسی اور کا کلام نہیں سنا۔
وہ شریف النفس اور سخی و فیاض تھیں، انھوں نے رسول اللہؐ کے ساتھ فقر و فاقہ اور بھوک کی حالت میں صبر کیا یہاں تک کہ کئی کئی دن ایسے گزر جاتے کہ روٹی اور کھانا پکانے کے لیے رسول اللہ کے گھر میں چولھا تک نہیں جلتا، دونوں صرف کھجور اور پانی پر گزر بسر کرلیتے اور جب دنیا مسلمانوں کے قدموں میں آئی تو ایک دفعہ ایک لاکھ درہم آئے اور وہ روزے سے تھیں مگر انھیں تقسیم کرادیا، اس وقت ان کے گھر میں کچھ بھی نہیں تھا، ان کی باندی نے کہا: آپ نے ایک درہم کا گوشت کیوں نہ خرید لیا جس سے افطار کرلیتیں؟ بولیں: اگر تو نے یاد دلایا ہوتا تو ایسا کرلیتے۔
وہ فقر و فاقہ سے کبھی پریشان ہوئیں اور نہ ہی مال داری میں ذرا بھی تکبر کو قریب پھٹکنے دیا، وہ ایسی عالی ظرف اور بلند اخلاق تھیں کہ دنیا ان کے سامنے حقیر نظر آتی، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے آنے جانے کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔
عائشہؓ کی سب سے انوکھی بات یہ ہے کہ وہ ایک مکمل نسوانی نمونہ ہیں، عورت کی طبیعت کے اعتبار سے، اس کی بلند پروازی کے اعتبار سے، اس کی خوبیوں اور اس کی کم زوریوں کے اعتبار سے۔
وہ ایک اچھی بیوی تھیں اور شادی عورت کا پہلا کام ہوتا ہے، ایک عورت کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ بیوی بنے اور ماں بنے، اسے کوئی چیز اس سے بے نیاز نہیں کرسکتی، چاہے وہ دنیا بھر کا مال و متاع حاصل کرلے، چاہے آسمان کی بلندی کو چھونے والی عظمت پالے اور چاہے علم اور سرداری کے اس مقام تک پہنچ جائے جس کے سامنے گردنیں سرنگوں ہوجائیں تب بھی وہ شادی سے بے نیاز نہیں ہوسکتی، یہ تمام چیزیں اس کے دل سے شادی کے میلان اور شادی کی رغبت کو مٹا نہیں سکتیں۔
وہ ذی علم تھیں؛ کیوں کہ علم عورت کے مزاج کے منافی نہیں ہے، علم نے عورت کو اس کی نسوانیت کی بنا پر اس بات سے روکا نہیں ہے کہ وہ علم کے میدان میں مردوں کی امام بن سکے۔
سیدہ عائشہؓ کی زندگی کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان پر گھناؤنی تہمت لگائی گئی، حالاں کہ وہ اس سے اسی قدر دور تھیں جس قدر زمین وآسمان ایک دوسرے سے دور ہیں۔ ان کی برأت کا حکم ان آیتوں میں نازل ہوا جن کی تلاوت ہم تاقیامت اپنی نمازوں میں کرتے رہیں گے۔ یہ ایک سبق تھا جسے اللہ نے ایک کامل اور افضل ترین عورت کی شکل میں پیش کیا تاکہ مومن عورتیں شبہات کی جگہوں سے بچتی رہیں، خواہ وہ کیسی ہی متقی اور پاک دامن کیوں نہ ہوں اور وہ یہ جان لیں کہ اگر ام المؤمنین عائشہؓ پر تہمت لگ سکتی ہے تو دنیا میں کوئی عورت ایسی نہیں جو کہ تہمت سے مامون ہو۔ اس لیے ہر مسلم عورت پر فرض ہے کہ وہ زندگی بہت احتیاط سے گزارے۔
اب جب کہ عائشہؓ پر چودہ صدیاں بیت چکی ہیں، دنیا نے اب تک ان جیسی خاتون کوئی اور نہیں دیکھی۔ وہ رہتی دنیا تک ایک بے مثال نمونہ رہیں گی اور خواتینِ اسلام کی شاہراہ کو روشن کرتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور جنت میں انھیں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
ترجمہ: محمد اکمل فلاحی