تاجروں کو نصیحت

693

امام غزالیؒ نے مسلم تاجر کے لیے سات اصول اور نصائح بیان فرمائے ہیں:
1۔تجارت کی ابتدا میں حسنِ نیت اور حسنِ عقیدہ ہو۔ تاجر تجارت شروع کرنے کے وقت سوال سے بچنے، لوگوں سے حرص وطمع سے رکنے، رزق حلال کے ذریعے سے لوگوں سے استغنا، کمائے گئے مال کے ذریعے دین پر استعانت اور اپنے اہل وعیال کی کفایت وکفالت کے قیام کی نیت کرے۔
2 ۔تاجر اپنی صنعت اور تجارت میں فروضِ کفایہ میں سے ایک فرض کفایہ کے ادا کرنے کی نیت کرے؛ اس لیے کہ صنعتیں اور تجارتیں اگر بالکلیہ چھوڑ دی جائیں تو معیشتیں باطل اور تباہ ہوجائیں گی اور اکثر لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ یعنی تجارت کرنا فرض کفایہ ہے؛ لہٰذا قوم میں ایک طبقہ ایسا ہونا ضروری ہے، جو تجارت میں لگا رہے، اس لیے کہ اگر سارے ہی لوگ صنعت وتجارت چھوڑدیں گے تو اکثر لوگ ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جائیں گے، اس لیے اپنی تجارت کی شروعات میں یہ نیت کرے کہ میں ایک فرض کفایہ کو ادا کررہا ہوں۔ اس طرح وہ اجر وثواب کا بھی مستحق ہوجائے گا۔
3۔تاجر کو دنیا کا بازار آخرت کے بازار سے نہ روک دے، اور آخرت کے بازار مساجد ہیں؛ اس لیے مناسب ہے کہ دن کے اول حصے کو بازار میں داخل ہونے کے وقت تک اپنی آخرت کے لیے صرف کرے۔
4۔اسی پر اکتفاء نہ کرے، بلکہ بازار میں بھی اللہ سبحانہ وتعالی کے ذکر کو لازم پکڑے اور تسبیح وتہلیل میں مشغول رہے۔ اس لیے کہ بازار میں غافلوں کے درمیان اللہ کا ذکر کرنا افضل ہے۔
5۔تاجر بازار اور تجارت پر بہت زیادہ حریص نہ ہو، اس کی علامت یہ ہے کہ سب سے پہلے بازار جائے اور سب سے اخیر میں وہاں سے لوٹے۔ یہ کاروبار میں بہت زیادہ حریص ہونے کی دلیل ہے۔
6۔تاجر کے لیے حرام چیزوں کی تجارت سے بچنا لازم اور ضروری ہے؛ لیکن صرف حرام سے اجتناب پر اکتفاء نہ کرے؛ بلکہ مواقعِ شبہات اور شک و تہمت کے مقام سے بھی احتراز کرے اور بچے۔
7۔تاجر کو چاہیے کہ وہ جن لوگوں سے معاملات کر رہا ہے، ان کے بارے میں ہر وقت یہ خیال رکھے اور فکر مند رہے کہ ان میں سے ہر صاحبِ معاملہ اس سے حساب لے گا کہ خرید وفروخت میں اس نے کسی کا حق مار تو نہیں لیا، لہٰذا تاجر کو اپنے ہر قول اور عمل کے بارے میں حساب و عقاب کے دن (روز محشر) کے لیے جواب تیار رکھنا چاہیے۔

اس سے ظاہر ہے کہ اگر ایک شخص نے ہزاروں آدمیوں سے خرید وفروخت کیا ہے تو ان ہزاروں آدمیوں کا حق اس سے وابستہ ہے، اگر اس نے کسی کے حق میں بھی کچھ کوتاہی اور گڑبڑی کی ہے تو وہ صاحبِ حق اس کی وصولی کے لیے قیامت کے دن اس تاجر خائن کے پاس حاضر ہوجائے گا اور اس سے اپنا حق وصول کرے گا؛ اس لیے ہر تاجر اپنی تجارت میں اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کو قیامت کے دن ہر حساب لینے والے کا حساب دینا ہوگا۔ (احیاء العلوم: 83-87/2)