افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

235

اسلامی ریاست میں خروج
ظالم امراء کے مقابلے میں خروج ایسی صورت میں نہ صرف جائز بلکہ فرض ہو جاتا ہے جبکہ ان کو ہٹا کر ایک صالح و عادل حکومت قائم کرنے کا امکان ہو۔ اس معاملے میں امام ابوحنیفہ کا مسلک بہت واضح ہے جسے ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں اور الموفق المکی نے مناقب ابوحنیفہ میں نقل کیا ہے۔ اس کے برعکس ایک حکومت عادلہ کے خلاف خروج بہت بڑا گناہ ہے اور تمام اہل ایمان پر لازم ہے کہ ایسے خروج کو دبا دینے میں حکومت کی تائید کریں۔ بین بین حالت میں جبکہ حکومت عادل نہ ہو مگر صالح انقلاب کے بھی امکانات واضح نہ ہوں پوزیشن مشتبہ ہے اور ائمہ و فقہا نے اس معاملے میں مختلف طرزِ عمل اختیار کیے ہیں۔ بعض نے صرف کلمہ حق کہنے پر اکتفا کیا مگر خروج کو ناجائز سمجھا۔ بعض نے خروج کیا اور جام شہادت نوش کرنے کو ترجیح دی۔ اور بعض نے باامید اصلاح تعاون بھی کیا۔

خروج کرنے والوں کی مساجد یا دوسرے
مقدس مقامات (حرم اور کعبہ) میں پناہ ؟

حکومت عادلہ کے مقابلہ میں جو لوگ خروج کریں وہ اگر مساجد میں پناہ لیں تو ان کا محاصرہ کیا جاسکتا ہے اور اگر وہ وہاں سے گولہ باری کریں تو جوابی گولہ باری بھی کی جاسکتی ہے۔ رہا حرم میں ان کا پناہ لینا تو اس صورت میں صرف محاصرہ کر کے اس حد تک تنگ کیا جاسکتا ہے کہ بالآخر باغی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائیں۔ حرم میں قتل وخون کرنا یا حرم پر سنگ باری یا گولہ باری کرنا درست نہیں ہے۔ بخلاف اس کے ایک ظالم حکومت کا وجود خود گناہ ہے اور اپنے قیام و بقا کے لیے اس کی کوشش بھی گناہ میں اضافے کے سوا کچھ نہیں۔
اسلامی ریاست کے ٹیکس
قرآن و سنت نے ٹیکسوں کا کوئی نظام تجویز نہیں کیا ہے بلکہ مسلمانوں پر زکوٰۃ بطور عبادت اور غیر مسلموں پر جزیہ (بطور علامت اطاعت) لازم کرنے کے بعد یہ بات حکومت کی صوابدید پر چھوڑی ہے کہ جیسی ملک کی ضروریات ہوں ان کے مطابق باشندوں پر ٹیکس عائد کریں۔ خراج اور محاصل درآمد و برآمد اس کی ایک مثال ہیں۔ جنہیں قرآن و سنت میں شرعاً مقرر نہیں کیا گیا تھا اور حکومت اسلامی نے اپنی صوابدید کے مطابق انہیں خود مقرر کیا۔ اس معاملے میں اصل معیار ملک کی حقیقی ضروریات ہیں۔ اگر کوئی فرمانروا اپنے تصرف میں لانے کے لیے ٹیکس وصول کرے تو حرام ہے۔ ملک کی حقیقت ضروریات پر صَرف کرنے کے لیے لوگوں کی رضامندی سے ان پر عائد کرے تو حلال ہے۔
حجاج بن یوسف بحیثیت گورنر و منتظم
حجاج بن یوسف دنیوی سیاست کے نقطۂ نظر سے بڑا لائق اور دینی نقطہ نظر سے سخت ظالم حاکم تھا۔ (رسائل مسائل، جلد سوم)