فروٹو جوس‘ ملازمین کو بحال کیا جائے

247

سائیڈ ایریا نورس چورنگی کے نزدیک پاکستان کے مشہور بزنس گروپ کامران اینڈ انڈسٹریز جو اپنی کمپنی میں فروٹو جوس بناتے ہیں غیر قانونی طریقے سے اپنے 20 ملازمین کو جبری طور بغیر واجبات کے برطرف کر کے گیٹ بند کر دیا اور ان مزدوروں نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم اور نا انصافی کے خلاف گیٹ کے سامنے احتجاج کیا۔ یہ اطلاع پانے پر ان سے اظہار یکجہتی اور داد رسی کے ہم نے بھی وہاں کا رخ کیا پہنچنے پر دیکھا بیس سے بائیس مزدور ہاتھ سے لکھے پلے کارڈز ہاتھوں میں اٹھائے دھوپ میں کھڑے ہو کر ارباب اختیار سے انصاف مانگ رہے تھے۔ اس موقع پر نیشنل لیبر فیڈریشن کے خالد خان، امیر روان، ارشاد بھٹو و دیگر ذمہ داران بھی متاثرین کی ہر قسم کی مدد اور رہنمائی کے لیے وہاں موجود تھے۔ ہم بھی وہاں جا کر ان کے احتجاج میں شریک ہوگئے، بہت ہی جلد مجھے احساس ہوا کہ ان مزدوروں میں ایک انتہائی ضعیف العمر بزرگ مزدور بھی شامل ہیں۔ اس بزرگ مزدور سے نظر تھی کہ ہٹتی ہی نہیں وقت گزرنے کے ساتھ ان بزرگوں سے بات کرنے کا تجسس بڑھتا چلا گیا۔ خیر میں نے موقع دیکھ کر ان سے بات چیت شروع کی تو انہوں بتایا بیٹا مجھے اس کمپنی میں 45 سال ہوگئے ہیں اور ان 45 سالوں میں میری تنخواہ 20ہزار روپے تھی اب کمپنی کے سیٹھ نے گزشتہ 3 ماہ کی تنخواہ بھی نہیں دی اور ہمارا گیٹ بند کر دیا، ان کے چہرے کے تاثرات عمر بزرگی اور مظلومیت دیکھ کر عجیب ہی کفایت طاری رہی جو لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں ۔
سوچیں کیا بیتی ہوگی اس مزدور پر جس نے اپنی زندگی کے 45 سال کسی مل کمپنی یا کارخانے کو دیے ہوں اور اس کے مالکان بغیر واجبات اور بغیر بتائے اس کا گیٹ بند کر دے جبکہ اسی مزدور کی محنت سے کروڑوں اربوں روپے کما کر وہ اپنی ہر آسائیشوں اور آسودگیوں کو حاصل کریں، ایسے مالکان جو آئین، قانون اور اخلاقیات کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر پامال کرتے ہوئے غریب مزدوروں کے ساتھ ناانصافی اور ظالمانہ رویہ اختیار کریں یہ طور طریقے قابل افسوس ہی نہیں بلکہ قابل سزا بھی ہے۔ آج ہماری بزنس کمیونٹی کی بین الاقوامی سطح پر وجہ شہرت جھوٹ نوسر بازی چال بازی اور ہیرا پھیری ہے۔ ہماری بزنس کمیونٹی مزدورں کی اجرت ہڑپ کرتی ہے اپنے صارفین کو ملاوٹ شدہ اشیاء فروخت کرتے اس پر بھی ناجائز ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کرتے ہیں۔ صحت سلامتی کے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہماری بزنس کمیونٹی ان تمام غیر اخلاقی غیر قانونی اور غیر انسانی حرکتوں کے سبب نا صرف ملک بھر میں بلکہ پوری دنیا میں اپنی ساکھ کو بہت بری طرح متاثر کیا بلکہ اپنے کاروبار کو بھی تباہی کہ دبانے پر پہنچا دیا اور قانون پر عملدرآمد کروانے والوں کا کردار خاموش تماشائی جیسا ہے یہ سب بھول گے ہیں جو اقوام انصاف کے ترازو اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے تو پھر ایسی اقوام کے مقدر میں افراتفری، بے چینی، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، دھوکا دہی، لوٹ مار، قتل و غارت اور ذلت و رسوائی کے علاوہ ہاتھ کچھ نہیں آتا جبکہ انصاف کے ترازو سے جڑے ہر وہ اصول اور مقدس روایات جو معاشرے کو ویل ڈسپلن عدم برداشت میانہ راوی اقوام کی شناخت ہوتی ہے اپ بس ایسے اصولوں کو لفظوں میں بیان کرتے عملی طور یہ آپ کو کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے اور ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے ہماری بزنس کمیونٹی صرف اور صرف اسلامی اور انسانی اصولوں کے تحت ہی بزنس کرکے اپنے لیے دنیا اور آخرت میں راحت اور سکون پاسکتے ہیں۔ حکومت اور ریاست کی پہلی اور بنیادی ذمہ داری ہے کہ تمام معاملات کو انصاف کے ترازو کے ساتھ منسلک اور تابے کر دے جبھی معاشرے میں پھیلی ہوئی ان بیماریوں کا خاتمہ ممکن ہے۔