سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کیلیے جامعات اور تحقیقی مراکز کو عالمی طرز پر ترقی دینی ہوگی

319

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پاکستان میں ایک ترقی پذیر فیلڈ ہے‘ ہمارے ملک کواس میں ترقی کے لیے یونیورسٹیرز اور تحقیقی مراکز کو عالمی طرز پر اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے‘ کسی بھی ملک و قوم کی معاشی خوشحالی سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیقی ترقی سے براہِ راست منسلک ہوتی ہے‘ اعلیٰ تحقیقی اداروں کی اہمیت اور ضرورت بھی ناگزیر ہوتی ہے‘ ان میں ہی تربیت یافتہ انسانی وسائل کی خدمات کو بروئے کار لایا جاتا ہے ۔ان خیالات کا اظہار بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے سربراہ اور کامسٹیک کے کوآرڈینٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چودھری، پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر محمد فاروق افضل اور خادم علی شاہ بخاری انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کیسبٹ) شعبہ آئی ٹی کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ محی الدین اورنگزیب نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کس طرح ترقی کر سکتا ہے؟ ڈاکٹرمحمد اقبال چودھری نے کہا کہ موجودہ دور میں کسی بھی ملک کی معاشی خوشحالی اُس ملک کی سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیقی ترقی سے براہِ راست منسلک ہوتی ہے‘ تحقیقی ترقی میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں‘ ترقی میں ٹیکنالوجی سے متعلق بصیرت یعنیtechnology foresight کا بڑا بنیادی کردار ہے‘ اس عمل کے تحت بڑی باریک بینی سے ملکی سطح پر آج اور کل کی قومی ضروریات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ قومی سطح پر معاشی، معاشرتی اور صنعتی ضروریات کیا ہیں‘ پھر منصوبہ بندی کی جاتی ہے اورایک روڈ میپ بنا کر یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ملک کو کون سی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے‘ اس میں انسانی وسائل کی ترقی کا کردار بھی انتہائی نمایاں ہے‘ جن شعبہ جات کا تعین کیا جاتا ہے ان سے متعلق انسانی وسائل بھی تیار کیے جاتے ہے‘ پی ایچ ڈی، ٹیکنالوجسٹ اور ٹیکنیشن کی سطح پر افراد کو ٹریننگ دی جاتی ہے‘ ہیومن کیپٹل کے بغیر متعلقہ شعبے میں ترقی ممکن نہیں ہے‘ اس مقصد کے لیے اعلیٰ تحقیقی اداروں کی اہمیت اور ضرورت بھی ناگزیر ہوتی ہے‘ تحقیقی اداروں میں کی جانے والی تحقیق کی صنعتوں کو منتقلی کی اہمیت بھی سب سے نمایاں ہے‘ اس ضمن میں سرکاری سطح پر اداروں اور صنعتوں کے درمیان ایک تعلق پیدا کیا جاتا ہے جبکہ اس حوالے سے ٹیکنالوجی انکیوبیشن سینٹرز اور انڈسٹریل پارک وغیرہ اہم کردار ادا کرتے ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر تحقیقی اداروں کے ساتھ جوائنٹ ریسرچ پروجیکٹ پر بھی کام کرتا ہے‘ پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مطلوبہ ترقی کے لیے یہی راستہ اختیار کرے۔ محمد فاروق افضل نے کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی پاکستان میں ایک ترقی پذیر فیلڈ ہے اور اس نے اپنے قیام کے بعد سے ہی ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے‘ ملک میں سائنس دانوں، انجینئروں، ڈاکٹروں، اور تکنیکی ماہرین کا ایک بہت بڑاطبقہ موجود ہے جو اس شعبے میں فعال کردار ادا کر رہا ہے مگر جہاں ٹیکنالوجی کے بہت سے فائدے ہیں وہاں ان کے نقصانات بھی ہیں،مگر ان نقصانات میں ٹیکنالوجی کا کوئی قصور نہیں ہے جتنا ہمارا قصور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں تجرباتی کام نہ ہونے کے برابر ہے‘ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم تب تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک ہم سائنسی اعتبار سے ترقی نہ کرلیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک میں تجرباتی کام کو فروغ دیں۔ اپنے نوجوان کو اس ریس سے نکالیں اور پریکٹیکل کام کی ترغیب دیں‘ ہم نے اپنی نسل کو نمبروں کی ریس میں ڈال دیا ہے۔ اس خطے کا بچہ صرف نمبروں کے لیے اسکول کی خاک چھانتا ہے۔ محی الدین اورنگزیب نے کہا کہ ترقی کے عمل کو خواندگی اور معیاری تعلیم کی اعلیٰ ڈگریوں کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا‘ ملک کی آبادی وسیع ہے اور چیلنج یہ ہے کہ ان وسائل کو دولت میں کیسے تبدیل کیا جائے‘ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے پاکستان کو اپنے نوجوانوں کو ایک چیلنجنگ تعلیمی ماحول سے روشناس کرانا ہوگا جو انہیں مشکل مسائل کے حل کا سوچنے اور اس کا حل تلاش کرنا سکھائے‘ ترقی کیلیے ایک اہم پہلو علوم میں اعلی ٰ سطح کی مہارت ہے‘ پاکستان کو اپنی یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز کو بین الاقوامی سطح پر اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے‘ ترقیاتی عمل کے ایک اہم پہلو کا اطلاق تحقیق اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے ہے‘ ہمیں توجہ برآمدات بڑھانے، درآمدی متبادل کو فروغ دینے، موجودہ تیار شدہ مصنوعات کے معیار اور پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے اور منصوبوں کی نشاندہی پر مذکور کرنا چاہیے‘ کامیابی کے لیے سب سے اہم عنصر ہر سطح پر سب سے زیادہ تخلیقی لوگوں کو شامل کرنا ہے جس کے لیے ایسے اقدامات متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو ہمارے ہونہار طلبہ کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا انتخاب کرنے پر آمادہ کریں‘ اس میں کیرئر کا مناسب پرکشش ڈھانچہ متعارف کرنا اور بین الاقوامی سطح پر ایک بہترین کارکردگی کے ساتھ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ ادارے بنانا شامل ہے۔