بچوں کے ساتھ شفقت

266

اسلام جس طرح بڑے، بوڑھوں اور بزرگوں کی عزت کرنے اور اْن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی تعلیم دیتا ہے، اسی طرح چھوٹے، کم سن اور معصوم بچوں کے ساتھ بھی شفقت و مہربانی اور حسن سلوک کی ترغیب دیتا ہے۔ اور جس طرح ہمارے بڑے، بو ڑھے اور عمر رسیدہ بزرگ حضرات ہماری توجہ کا مرکز ہیں، اسی طرح ہمارے کم سن، چھوٹے اور معصوم بچے بھی ہمارے لاڈ پیار، شفقت و محبت اور حسن سلوک کے حق دار ہیں۔
نبی اکرمؐ کا ہر شعبۂ زندگی کے افراد کے ساتھ حسن سلوک مثالی اور قابل تقلید تھا ہی، لیکن کم سن، چھوٹے اور معصوم بچوں کے ساتھ جو آپ کا حسن سلو ک اور لاڈ پیار تھا وہ بھی خاصا قابل رشک و قابل دید تھا۔
سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ نبی اکرمؐ منبر پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں بیان فرما رہے تھے کہ اتنے میں سیدنا حسین بن علیؓ (گھر سے) نکلے، اْن کے گلے میں کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا، جو لٹک رہا تھا اور زمین پر گھسٹ رہا تھا کہ اْس میں اْن کا پاؤں اْلجھ گیا اور وہ زمین پر چہرے کے بل گرگئے۔ نبی اکرمؐ اْنہیں اْٹھانے کے ارادے سے منبر سے نیچے اْترنے لگے۔ صحابہؓ نے جب حسینؓ کو گرتے ہوئے دیکھا تو اْنہیں اْٹھا کر نبی اکرمؐکے پاس لے آئے، نبی اکرمؐ نے اْنہیں لے کر اْٹھا لیا اور فرمایا: ’’شیطان کو اللہ مارے! اولاد تو بس فتنہ اور آزمائش ہی ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے تو پتا ہی نہ چلا کہ میں منبر سے کب نیچے اْتر آیا، مجھے تو بس اْس وقت پتا چلا جب لوگ اس بچے کو میرے پاس لے آئے‘‘۔ (معجم طبرانی)
ابو سعیدؓ فرماتے ہیں: ’’ایک مرتبہ نبی اکرمؐ سجدے میں تھے کہ سیدنا حسن بن علیؓ آکر آپؐ کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے، پھر نبی اکرمؐ اْنہیں ہاتھ سے پکڑ کر کھڑے ہوگئے، پھر جب نبی اکرمؐرکوع میں گئے تو وہ نبی اکرمؐ کی پشت پر کھڑے ہوگئے، پھر نبی اکرمؐنے اْٹھ کر اْنہیں چھوڑ دیا تو وہ چلے گئے‘‘۔ (مسند بزار)
زبیرؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ نبی اکرمؐ سجدے میں ہیں کہ اتنے میں حسن بن علیؓ آکر نبی اکرمؐکی پشت مبارک پر سوار ہوگئے، آپؐ نے اْنہیں نیچے نہ اْتارا (بلکہ یوں ہی آپؐ سجدے میں رہے) یہاں تک کہ وہ خود ہی نیچے اْترے۔ اور آپؐ اْن کے لیے دونوں ٹانگیں کھول دیا کرتے اور وہ ایک طرف سے آکر نبی اکرمؐ کے نیچے سے گزر کر دوسری طرف سے نکل جاتے‘‘۔ (معجم طبرانی)
اسود بن خلفؓ فرماتے ہیں: ’’ایک مرتبہ نبی اکرمؐ نے حسن بن علیؓ کو پکڑ کر اْن کا بوسہ لیا، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ’’آدمی اولاد کی وجہ سے کنجوسی کرتا ہے اور نادانی والے کام کرتا ہے (بچوں کی وجہ سے لڑ پڑتا ہے) اور اولاد کی وجہ سے آدمی بزدلی اختیار کرلیتا ہے (کہ میں مرگیا تو میرے بعد بچوں کا کیا ہوگا؟) (مسند بزار)