۔ کاپروگرامWERO

95

پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن، ورکرز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن نیٹ ورک آرگنائزیشن ورکنگ ود ڈس ایبیلٹیز اور ازکارد انٹرٹینمنٹ نے ایک رائونڈ ٹیبل ڈسکشن کا اہتمام بعنوان ’’انوسٹنگ ان ایجوکیشن جمہوری اور با اختیار سوسائٹیز کی طرف قدم‘‘ کیا۔
میر ذوالفقار علی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ویرو، محترمہ کنیز زہرہ نیشنل کوآرڈینیٹر پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن نے افتتاحی کلمات میں کہی اس رائونڈ ٹیبل کا مقصد ممبران صوبائی اسمبلی خصوصاً اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ایجوکیشن اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے تاکہ سندھ میں ایجوکیشن سے متعلق ایشوز پر خصوصاً Covid-19 کے بعد جو چیلنجز تعلیمی نظام کو درپیش ہیں ان پر گفتگو کی جائے اور بہتری کے لیے تجاویز تیار کی جائیں جو حکومت اور متعلقہ اداروں کو دی جائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا جمہوری پارلیمانی نظام میں اسمبلیوں اور اس کی کمیٹی کا پالیسی سازی، قانون سازی، قانون پر عملدرآمد اور اس کی نگرانی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ چیئرپرسن اسٹیڈنگ کمیٹی ایجوکیشن سندھ نے گفتگو کرتے ہوئے کہی تعلیم ہر شخص کا یونیورسل حق ہے اور اس کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے مزید کہا پرائیویٹ ایجوکیشن سسٹم کا حصول صرف مراعات یافتہ طبقہ تک محدود ہوگیا ہے۔ لہٰذا اسے ریگولیٹ کرنے اور عام لوگوں کی رسائی ممکن بنانا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا فزیکل ایجوکیشن کی بہت اہمیت ہے مگر موجودہ covid-19 کی صورتحال میں ڈیجیٹل ایجوکیشن کو بہتر کرنے اور ہر ایک کی اس تک رسائی کو ممکن بنانا ضروری ہے۔ ربیعہ نظامانی ممبر صوبائی اسمبلی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اچھی قانون سازی کے باوجود حکومت اس پر عملدرآمد میں ناکام ہے۔ قاسم سومرو اور انتھونی نوید نے سندھ حکومت کی تعلیم کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور ہر بچے تک اسے پہنچانے کے لیے ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر بیلہ رضا جمیل ادارہ تعلیم و آگہی نے بھی تعلیمی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے اور اس پر عملدرآمد میں ناکامی کی وجہ سے رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون پر خاطر خواہ عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ فرحت شیریں چیئرپرسن سندھ کمیشن آف اسٹیٹس آف وومن نے لڑخیوں کی ایجوکیشن پر بجٹ بڑھانے اور ان کی انرولمنٹ کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا۔
ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے سنگل قومی نصاب پر گفتگو کرتے ہوئے انداز میں ترمیم کے بعد نصاب میں مرکز کی مداخلت اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالی۔
قاضی خضر کو چیئرپرسن سندھ ایچ آر سی پی نے اعداد و شمار کی روشنی میں سندھ میں تعلیم کی ابتر صورتحال کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ تعلیم انسانی حقوق میں سرفہرست ایک بنیادی حق ہے مگر اسے شہریوں کو اس بنیادی حق سے محروم رکھا ہے۔

قرار دادیں

حکومت اپنے سیاسی وعدوں اور بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرے اور ایجوکیشن میں جی ڈی پی کو 4 فیصد سے 6 فیصد تک ادا کرے۔
اگلے دس سالوں میں تعلیم پر 1.913.37 بلین روپے تمام لڑکیوں کی تعلیم کو 2030 تک مختص کیے جائیں گے۔
حکومت covid-19 سے تعلیم پر طویل بنیادوں ؐر ہونے والے اثرات سے نبردآزما ہونے کے نئے خصوصی اقدامات کرے۔
تعلیمی اداروں کی مینجمنٹ کو ضروری معلومات اور وسائل فراہم کرے تاکہ SOPS پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔
حفاظتی آلات کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ والدین پر اضافی بوجھ نہ پڑ سکے اور بچوں خو اسکولوں سے ڈراپ آئوٹ نہ ہونا پڑے۔
حکومت ان بچوں کی نگرانی کرے جو covid-19 میں مالی مسائل کی وجہ سے اسکول چھوڑنے اور چائلڈ لیبر کرنے پر مجبور ہوئے انہیں اسکول میں واپس لانے کے اقدامات کیے جائیں۔
ٹیچرز اور اسٹوڈنٹس کو ڈیجیٹل ایجوکیشن کے لیے مناسب سہولتیں اور تربیت فراہم کرے۔ آئین کے آرٹیکل 25-A میں ترمیم کرے اور بچوں کی 12 سال تک اسکول ایجوکیشن تک یقینی بنایا جائے۔