ایمپلائز یونین : پیاسی کی کہانیPIA

280
پیاسی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری کی ایک یادگار تقریب کے موقع پر مزدور رہنما رفیق احمد خطاب کررہے ہیں۔ اس موقع پر برجیس احمد، قمر الرزمان (DA)، مولانا یوسف، افتخار احمد، زبیر صدیقی، رضوان احمد، سید طاہر حسن شکیل، عبدالجلیل پراچہ، شاہدہ خان اور دیگر بیٹھے ہوئے ہیں

(آخری قسط)

پیاسی یونین کے مرکزی صدور و جنرل سیکرٹریز
صدور:۔
سعید الرحمن (1966)، حافظ سعید محمد اقبال احمد (1969 تا 1975)، مجید صابر شیخ (1975، 1976)، عصمت جاوید (1976 تا 1978)، برجیس احمد (1978تا …)، ملک عبداللہ، شاہد محمود، معظم خلیل، عبید اللہ، سہیل احمد، اعجاز شاہ۔
جنرل سیکرٹریز:۔
افتخار الاحد قریشی (1966)، مجید صابر شیخ (1969)، قاضی شمیم احسن، عزیز الرحمن، رفیق احمد، اکبر نیازی، اعظم چودھری، ملک عبداللہ، ندیم طاہر۔
جبکہ مختلف ادوار میں مندرجہ ذیل صاحبان نے بطور سینئر نائب صدور خدمات انجام دیں۔ محمد حنیف، قاضی احسن شمیم، محمد شاہ، اکبر نصیر الدین، چودھری محمد یوسف ظہور، مولانا محمد یوسف، چودھری محمد اعظم، سلیم الدین حیدر۔
چیئرمین پہلی ریفرنڈم کمیٹی: غوث محی الدین۔
پہلی چارٹر آف ڈیمانڈ کمیٹی: غوث محی الدین، حافظ سید محمد اقبال احمد، مجید صابر شیخ، اصغر علی، باجوہ۔
پہلی پی آئی اے کالونی ویلفیئر کمیٹی: سلطان درانی، سید طاہر حسن
پیاسی کے عہدیداران:
پیاسی یونین (CBA کے پہلے مرکزی عہدیداران (1969ء تا 1972ء)
حافظ سید محمد اقبال احمد مرکزی صدر، قاضی شمیم احسن سینئر نائب صدر، مجید صابر شیخ سیکرٹری جنرل، سلطان درانی آرگنائزنگ سیکرٹری، بشارت احمد فنانس سیکرٹری، نسیم احمد خان، پبلسٹی سیکرٹری، عزیز الرحمن چودھری آئوٹ اسٹیشنز سیکرٹری۔
29/30 اکتوبر 1962ء میں پی آئی اے سی ایمپلائز یونین (ائرویز ایمپلائز یونین کا نام بدلتے ہوئے) کے انتخابات میں رائٹسٹ گروپ (Rightist Group) کا انتخابی پینل مندرجہ ذیل PIA کے ملازمین پر مشتمل تھا:
سعید الرحمن امیدوار برائے صدر، حافظ سید محمد اقبال احمد امیدوار برائے سینئر نائب صدر، افتخار الاحد قریشی امیدوار برائے جنرل سیکرٹری، محمد حنیف امیدوار برائے خازن۔
اب صورت حال یہ ہے کہ PIA سے سب سے پرانی ٹریڈ یونین ایوپیا ختم ہوچکی ہے۔ پیاسی بھی اگرچہ ہاتھ پائوں مار رہی ہے مگر افادیت اور مقبولیت کھوچکی ہے۔ یعنی دونوں نظریاتی ٹریڈ یونین اپنا وجود کھوچکی ہیں! اب معرکہ سیاسی یونینوں (یونٹی PPP کی یونین، ایئرلیگ، مسلم لیگ (ن) کی یونین اور حال ہی میں قائم کی گئی ایک تیسری انصاف یونین PTI کی یونین) کے درمیان ہے۔ ایک اور یونین اسکائی ویز بھی بن گئی ہے، ایم کیو ایم کی کوئی الگ ٹریڈ یونین PIA میں نہیں ہے مگر ان کا گروپ بنام ’’حق پرست‘‘ موجود ہے اور وہ اپنا وزن کسی ایک یونین کے پلڑے میں ڈال کر حصہ داری/ شراکت کرتے ہیں۔ ’’پروگریسو‘‘ کے نام سے پنجاب کے لوگوں نے الگ گروپ بنایا ہوا ہے۔ وہ بھی ریفرنڈم/ الیکشن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
پیاسی یونین کے زوال کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مثلاً دائیں بازو کی تنظیموں سے جو پیاسی کے ساتھ تھیں بے رخی، صرف جماعت اسلامی کے اراکین کو ہی چاروں مرکزی اور اہم عہدوں پر رہنا (جیسے 1980ء میں صدر برجیس احمد، سینئر نائب صدر محمد یوسف، جنرل سیکرٹری رفیق احمد اور آرگنائزنگ سیکرٹری سید افتخار احمد)، لسانی اور علاقائی تنطیمیں، مرکزی عہدیداران کا ورکرز اور عام ملازمین سے ترش اور بیزاری کا رویہ، ورکرز کے دکھ درد اور خوشی میں عدم شرکت، ورکرز اور ملازمین کے انفرادی مسائل سے عدم دلچسپی، پرسنلٹی کلیش، باہمی اعتماد کا فقدان، من پسند افراد کی بھرتی، حتیٰ کہ محکمہ جاتی سلیکشن/ انتخاب میں بھی عدم انصاف اور بھرتی کے لیے دو تین افراد (جماعت کے اراکین) پر مشتمل الگ سیل قائم کرنا، ذاتی مفادات اور گروپنگ، خود کو خادم کے بجائے حکمراں سمجھنا۔ (ان میں کمی بیشی ہوسکتی ہے)۔ اگر خامیاں نہ ہوتیں تو پیاسی نے PIA میں ملازمین کو جتنا کچھ اپنے معاہدوں کے ذریعے دلوایا تھا اور مثالی معاہدے کیے تھے تو PIA کے ملازمین ان کے اور پیاسی تنظیم کے گرویدہ ہوتے۔ کہتے آج بھی یہی ہیں کہ پیاسی نے مزدوروں کی بے مثال خدمت کی اور یہ کہ:۔
’’پیاسی نے مزدور تحریک کو نئے خدوخال دیے۔ اور پیاسی نے اسلامی شعائر اور جمہوریت کی آبیاری کی‘‘۔
اس سب کے باوجود PIA میں ’’پیاسی‘‘ ہی ایک نظریاتی یونین ہے جو کسی نہ کسی طور پر 50 سال سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے، اس کے احیاء کی ضرورت ہے۔ PIA کے ملازمین میں کوئی متحرک اور فعال اسلامی ذہن کی لیڈر شپ تلاش/ تیار کی جائے۔ پیاسی کے چند سابقہ لیڈران کا گروپ مشاورت اور رہنمائی کے لیے منتخب کیا جائے۔ (جیسے برجیس احمد، چودھری اعظم، کاکا خیل، شعاع النبی… وغیرہ) اس پر سنجیدگی اور توجہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت PIA میں تمام یونینز سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہیں یا ان کی پروردہ ہیں۔ پیاسی واحد اسلامی اقدار پر مشتمل یونین ہے، یہ ادارے اور ملازمین کی بیک وقت خدمت دیانت اور امانت کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کرسکتی ہے۔ اس کا ماضی اس بات کا گواہ ہے، موجودہ CBA کی مدت ختم ہوچکی ہے، پیاسی کو میٹنگز سیمینار اور جلسہ سیرتؐ کے انعقاد کی کوشش کردینی چاہیے تا کہ اس کی فعالیت لوگوں پر واضح ہوجائے۔
مزدوروں کو اپنی سیاسی، لسانی، گروہی سیاست کو خود تک محدود رکھنا چاہیے۔ تجارتی، صنعتی، قومی اداروں میں اپنے نظریاتی اور سیاسی وابستگی اور سیاسی جماعتوں کو لانے اور داخل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ جماعتیں اداروں سے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس سے اداروں کے ساتھ ساتھ خود یونین کی اپنی آزادی اور خودمختاری متاثر ہوتی ہے اور ادارے کو تنزلی اور ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اگرچہ یہ کام مشکل ہے مگر اس کی ضرورت شدید ہے۔ کیونکہ ہمارے سامنے اس کی مثالیں موجود ہیں۔
(مثلاً پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، پاکستان اسٹیل اور خود پی آئی اے وغیرہ)۔
مزدور تحریک کی کمزوری، خرابی اور تباہی کی وجوہات میں لالچ، مفاد پرستی، بدیانتی، سہل پسندی، گروپ بندی اور اعلیٰ مقاصد، جذبہ خدمت سے بیزاری کے علاوہ فرض شناسی اور نظریات کا فقدان ہے۔ سیاستدانوں کو بڑی ذمہ داریوں پر فائز افراد کی طرح ہر کوئی عموماً راتوں رات امیر کبیر بن جانا چاہتا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سب یہیں چھوڑ جانا ہے۔ ’’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘۔
اچھے رہنما ناپید ہوتے جارہے ہیں۔
ایک اچھے مزدور رہنما میں مزدوروں کے مسائل سے کماحقہ واقفیت اور ان کو حل کرنے اور کرانے کا جذبہ، مزدوروں کے دکھ درد، غمی خوشی میں شامل رہنا، ان کو دوست بنانا، دور اندیشی، معاملہ فہمی، خلوص، دیانتداری، امانت داری، مزدور اور متعلقہ قوانین سے واقفیت، مضبوط و مربوط دلائل، زیادہ سے زیادہ ساتھیوں کو ان کے نام یا اچھے القاب سے یاد رکھنا، متحرک رہنا اور خوف خدا اور جذبہ خدمت و ایثار کا ہونا۔ اس کے لیے صحت مند ہونا اور دور اندیشی بھی ضروری ہے۔ مزدوروں کو متحد و مجتمع رکھنا بھی ایک فن ہے۔
وزیراعظم ہونا آسان مگر ’’عظیم‘‘ ہونا بہت مشکل ہے۔ مزدوروں اور عوام کو خوشنما نعرے اور وعدے دینا آسان مگر ان کے لیے بہتر مستقبل کے لیے کام کرنا مشکل ترین۔ مزدوروں کی فلاح وبہبود کے لیے جوم کام کرنے ضروری ہیں میری رائے میں یہ ہیں:
کرنے کے کام
-1 بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور بعداز تعلیم روزگار کی فراہمی۔-2 سر چھپانے کی جگہ، مکان کی فراہمی۔-3 ریٹائرمنٹ پر گزارہ الائونس (پنشن) EOBI کی طرز پر۔ اس کو مزدور عموماً ’’بڑھاپا الائونس‘‘ کہتے ہیں۔-4 مزدوروں اور تاجران/ آجر/ مالکان میں دیانت، امانت، ادائیگی حقوق کے تحت معاہدات اور ان پر عمل۔-5 انجمن سازی کے حقوق۔ -6 ڈیلی ویجز اور ٹھیکیداری نظام ملازمت کا خاتمہ۔
مکان، رہائش، پنشن، بڑھاپا الائونس کا انتظام و اہتمام دورانِ ملازمت ملازم کی تنخواہ سے کچھ رقم ان مدات میں منہا کرکے اور کچھ خود سے ملا کر ان مختص کردہ فنڈز میں پس انداز و جمع و کاروبار کرکے باآسانی کیا جاسکتا ہے۔ (PNSC نے KDA کے ذریعہ کراچی ناگن چورنگی کے قریب اسی فارمولے کے تحت فلیٹ تعمیر کراکر اپنے ملازمین کو دیے ہیں۔ EOBI اسی فارمولے پر ریٹائرڈ مزدوروں، ملازمین کو پنشن دے رہی ہے۔ نہ حکومت پر اضافی مالی بوجھ بنیادوں پر۔ حکومت کو صرف مناسب جگہوں پر زمین کا بندوبست کرنا ہے اور اللہ کی زمین بہت بڑی ہے۔
میڈیا کا کردار
الیکٹرانک بالخصوص پرنٹ میڈیا کا مزدور مسائل کے حل میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ کس کے کیا مسائل ہیں، کون کس کرب و آلام میں ہے، کہاں ظلم و زیادتی ہورہی ہے، کہاں اور کیا حق تلفیاں ہورہی ہیں، کہاں مزدوروں اور بچوں سے جبری مشقت لی جارہی ہے، کہاں مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، حبس بیجا میں رکھا جارہا ہے، وقت پر اجرت نہیں دی جارہی ہیں، کہاں انسانیت سوز سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ یہ اور دوسرے مسائل اگر میڈیا پر اجاگر نہ ہوں تو مزدور اور کمزور طبقہ کا دور دور تک کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اور وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا۔ جہاں اس طرح کی خبریں اخبار میں یا میڈیا پر اجاگر ہوجاتی ہیں، وہاں متعلقہ ادارے حرکت میں آجاتے ہیں ورنہ معاملات یونہی چلتے رہتے ہیں، نہ خبر گیری، نہ داد رسی اور نہ انصاف (ایک وقت تھا کہ ذرا خبر چھپی اور متعلقہ ادارے، حکام حرکت میں آتے تھے)۔
اخبارات جو بے لاگ خبریں اور تبصرے شائع کرتے ہیں مشکلات سے بھی گزرتے ہیں۔ مارچ 73ء میں ’’جسارت‘‘ پر کئی مرتبہ پابندی لگی۔ اس کے پبلشرز اور ایڈیٹر کی گرفتاریاں بھی ہوئیں۔
روزنامہ جسارت نے ہر پیر کی اشاعت میں ایک مکمل ’’صفحہ محنت‘‘ مقرر کر رکھا ہے جس میں مزدوروں سے متعلق بلا امتیاز خبریں، مضامین، تصاویر، تبصرے وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ احقر کی رائے میں۔ روزمرہ کی اہم اور خاص خبریں فوراً ہی شائع کی جانی چاہئیں، پیر تک تک موقوف رکھنے سے خبر کی افادیت اور اہمیت کم یا ختم ہوجاتی ہے۔
’’جسارت‘‘ بلا شبہ مزدوروں کے مسائل بڑی جسارت، جرأت، ہمت و محبت اور بے باکی سے اجاگر کرنے میں ذمہ داری کے ساتھ اہم اور بروقت خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس پیرانہ سالی میں بھی بڑی لگن اور محنت سے صفحہ محنت کے انچارج کماحقہ اپنے فرائض اور ذمہ داری بحسن و خوبی ادا کررہے ہیں۔ ان ہی کے اصرار اور حکم کی تعمیل میں یہ احقر ’’پیاسی‘‘ کی تقریباً 50 سالہ تاریخ (1970ء تا 2020ء) اپنی معلومات اور یادداشتوں کو مجتمع کرکے اور کچھ ساتھیوں کی مشاورت و معلومات سے استفادہ کرکے مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم اگر کوئی کمی بیشی ہو تو گزارش ہے کہ ساتھی تصحیح اور رہنمائی فرما دیں۔
کتاب ’’پیاسی کی ان کہی کہانی‘‘ (تحفظات کی جسارت کے ساتھ) (مصنف سید امین الدین حسینی) کی تقریب رونمائی کی صدارت جناب سید منور حسن (اس وقت کے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان) نے 10 جولائی 2005ء اتوار کو کراچی میں کی۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت سید منور حسن صاحب (اب مرحوم و مغفور) نے فرمایا تھا کہ اس کے بعد کی بھی تاریخ ’’پیاسی‘‘ مرتب کی جانی چاہیے۔قاضی سراج کی فرمائش پر مجھے مرحوم و مغفور سید منور حسن صاحب کی بات یاد آگئی اور اللہ کے فضل سے احقر کو یہ سعادت مل گئی۔
مسائل اور ان کا حل
اس وقت پورا ملک مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ کسی کو کسی پر اعتماد نہیں، لوٹ مار، چوری ڈاکا، رہزنی، اغواء، بے روزگاری (ایک ایک چوراہے پر دس بھکاری عورتیں، بچے، مرد، بوڑھے۔ نقاب میں عورتیں، جو پردہ دار خواتین اور حجاب کی توہین سے کم نہیں) خواجہ سرا (سج دھج کے ساتھ) موجود ہوتے ہیں۔ کے الیکٹرک والے عوام پر زائد بلنگ، لوڈ شیڈنگ، مینٹینس کے نام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، گندا پانی گٹروں سے نکل کر سڑکوں پر بہہ رہا ہے، پانی کی ہاہا کار ہے، گیس میں پریشر کی کمی کا مسئلہ ہے، کوڑا کرکٹ گلیوں اور سڑکوں پر ہے، مافیاز ہیں، ٹرانسپورٹ کی کمی ہے، روزگار دینے کے بجائے اداروں میں چھانٹی کے مسئلے ہیں، تعلیم کے دہرے، تہرے معیار اور نظام ہیں، علاج معالجہ کی عدم سہولت ہے، ملاوٹ، تول میں کمی، انصاف کا دہرا اور بگڑتا اور دیر طلب نظام ہے، کرپشن ہے۔ غرضیکہ قرآن حکیم میں سابقہ قوموں میں جن جن خرابیوں کا ذکر فرما کر ان میں سے بہت سی بستیوں اور قوموں پر عذاب کا ذکر فرمایا ہے مجموعی اعتبار سے وہ سب خرافات و خرابیاں قوم میں آچکی ہیں یا آرہی ہیں۔ مسائل کم اور حل ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہ کوئی حل کرنا چاہتا ہے نہ ادراک ہے اور نہ ہی کوئی پرسانِ حال ہے۔ بزرگوں اور اللہ والوں کی ایک محفل میں حاضری کا شرف ملا۔ کچھ حضرات یہی باتیں کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کررہے تھے۔ ایک سوال پر ایک بزرگ نے فرمایا ’’ہمارا ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے ’’بددیانتی‘‘۔ پوچھا حل کیا ہے؟ کہا ’’دیانت‘‘۔ جتنی سخت محنت مزدور کرتا ہے اگر وہ اتنی ہی محنت اپنے کاروبار میں کرے تو کایا پلٹ جائے۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ اپنے اپنے دائرے اور وسائل اور حالات کے مطابق اپنے کاروبار، تجارت، کاشت اور زراعت کی طرف آئیں اور اپنے بچوں کو دستیاب وسائل میں دینی و دنیوی تعلیم دلائیں۔ کہتے ہیں تعلیم زیور بھی ہے، ہتھیار بھی اور طاقت بھی۔حدیث شریف کا مفہوم ہے ’’علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے‘‘۔ اور یہ بھی کہ ’’مہد سے لحد تک علم حاصل کرو‘‘

پیار کے طاہر حسن کی ڈائری

۔PIA ریٹائرڈ ایمپلائز کے رہنما اور پیاسی کے سابق رہنما سید طاہر حسن نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ ملازمت کے دوران ڈائری مرتب کرتے تھے۔ ڈائری میں نوٹ کرتے تھے کہ کل کیا کیا کام کرنے ہیں۔ رات میں منصوبہ بندی کرتے کہ کون سے کام نہیں ہوئے اور مزید کیا کام کرنے ہیں۔ اس طرح شیڈول بنا کر کام کرنے سے پیاسی یونین کے مقاصد حاصل کرنے میں بڑی مدد ملی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی کی ڈائریوں کو دیکھ کر ہی پیاسی کی کہانی مرتب کی ہے۔