گناہ کے کام میں خاوند کی اطاعت

373

البتہ خاوند اگر عورت کو ایسا کام کرنے پر مجبور کرے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے تو معصیت الٰہی والے کاموں میں خاوند کی اطاعت نہیں بلکہ انکار ضروری ہے۔ جیسے خاوند عورت کو حالت حیض میں جماع پر مجبور کرے تو عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ انکار کر دے اور اس کو یہ ناجائز خواہش پوری نہ کرنے دے۔
یا جیسے آج کل بہت سے لوگ اپنی بیویوں کو اپنے دوستوں کے سامنے بے پردہ آنے پر یا سرے سے بے پردہ ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ خاوند کے کہنے پر ایسا کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔
نبیؐ کا فرمان ہے: ’’جس کام میں خالق کی معصیت ہو، وہاں کسی بھی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں‘‘۔ (ترمذی)
بنا بریں کسی بھی کام یا معاملے میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرنی، نہ اپنی مرضی سے اور نہ خاوند یا کسی اور کے کہنے پر۔ اس قسم کے موقع پر یعنی دین پر ثابت قدمی کی وجہ سے جو تکلیف یا آزمائش آئے، اس کو برداشت کیا جائے، یہ دنیا کی آزمائش آخرت کے اس عذاب کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی جو اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں مل سکتا ہے۔ عورت مرد کی قوّامیت (حاکمیت) کو برداشت کرے۔
گھر کا نظام صحیح طریقے سے چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مرد کو حاکم اور سر براہ بنایا ہے کیونکہ کسی ایک کی حاکمیت اور سر براہی کے بغیر کوئی بھی نظام نہیں چل سکتا۔ عورت اگر چاہتی ہے کہ وہ امن و سکون اور آرام و راحت کی زندگی گزارے تو اس کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ وہ مرد کی فطری قوامیت کو تسلیم کرے۔
اس کا ایک تقاضا تو یہ ہے کہ مرد اپنے حاکمانہ اختیارات کو ظلم و جبر کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ جس طرح ایک سمجھدار حاکم وقت (خلیفہ، بادشاہ) اپنی رعایا کے ساتھ شفقت ونرمی اور عدل و انصاف کا معاملہ کرتا ہے، اسی طرح مرد بھی اپنی چھوٹی سی مملکت (گھر) میں نرمی، شفقت اور عدل و انصاف سے کام لے اور عورت کو ہر طرح کی سہولت بہم پہنچا کر اچھی حکمرانی کی مثال قائم کر کے اللہ کو خوش کرے۔
دوسرا تقاضا یہ ہے کہ عورت مرد کی حاکمانہ حیثیت کو تسلیم کرے اور خود قوّام بننے کی سعی نہ کرے، اس سے باہم تعاون کے بجائے تصادم اور ٹکرائو پیدا ہوگا جس سے گھرکا سکون برباد ہوجائے گا۔ بعض عورتیں بعض وجوہات کی وجہ سے ایسا کرتی ہیں اور مرد کے مقابلے میں ہر موقع پر اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس سے اکثر وبیشتر معاملات بگڑ جاتے اور گھر برباد ہوجاتے ہیں۔ مرد کتنا بھی نرم خْو، صلح جْو اور مرنجاں مرنج قسم کا ہو لیکن عورت کی تفوّق وبرتری تسلیم کرنا اس کے لیے مشکل ہے۔ بنا بریں ظاہری حالات کے اعتبار سے چاہے عورت مرد سے ممتاز ہو، مثلاً وہ اونچے خاندان کی ہو، اصحاب حیثیت گھرانوں سے اس کا تعلق ہو، یا حسن و جمال میں منفرد ہو اور مرد ان چیزوں میں اس سے فروتر ہو۔ تب بھی عورت کی سرتابی اور برتری جتلانے کی روش گھر کو برباد کر سکتی ہے۔ بھلائی اسی میں ہے کہ عورت، عورت بن کر ہی رہے، مرد بننے کی کوشش نہ کرے، ماتحتی والی تواضع ہی اختیار کرے، حاکمانہ خوابوں سے اپنے کو بچائے۔
’’جو اللہ کی خاطر تواضع اختیار کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو بلند کر دیتا ہے‘‘۔