رنج و غم سے نجات

234

دْکھوں اور غموں سے نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر وسعت قلبی، کشادہ دلی اور وسعت نظر پیدا کرے۔ ساری دْنیا کواللہ کا کنبہ سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات اوراس کی نوازشوں کی وسعتوں کو پیش نظر رکھے۔ اسی طرح انسان حسد سے بچ سکتا ہے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کوکھا جاتی ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
انسان کوجاننا چاہیے کہ کسی کے برا چاہنے سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اگر اللہ کی مشیت نہیں ہے تو حاسد کے برا چاہنے سے اس کے دشمن کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ حاسد کو سوائے رنج وغم کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ لہٰذا حسد سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا ہے۔
’’اللہ نے جو تم میں سے ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے اس کی تمنا نہ کرو‘‘۔ (نساء: 32)
اور حاسدوں سے بچنے کے لیے اللہ نے جو دعا سکھائی ہے اس کا وِرد کرتے رہنا چاہیے۔ (سورہ فلق و الناس)
دکھوں، غموں ، کا ایک علاج یہ ہے کہ انسان اپنے اندر فیاضی، ایثار پسندی کے اوصاف پیدا کر ے۔ فیاضی جود وسخاوت، ایثار وقربانی یہ بہت اہم اور مطلوبہ صفات ہیں جن سے خیر کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ انسان اپنے کسی حق کو بخوشی کسی دوسرے کوبخش دے، اپنا حق چھوڑدے، اپنے حق کا مطالبہ نہ کرے، اپنا بچا ہوا مال دوسروں پر خرچ کردے یا اپنی ضروریات کے باوجود دوسروں پر خرچ کرے ان تمام صورتوں میں انسان کو نہ صرف یہ کہ غم سے نجات ملے گی بلکہ اسے وہ روحانی خوشی حاصل ہوگی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے خوشگوار تعلقات بھی پیدا ہوں گے۔ آخرت میں درجات بھی بلند ہوںگے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ: ’’اور اپنے مال خرچ کرو یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ ( تغابن: 16)
ترجمہ: ’’اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ (حشر: 9)
نبی اکرمؐ نے فرمایا : ’’اللہ اْس شخص پر رحم فرمائے جو فیاض ہے اور جب وہ بیچے جب خریدے اور جب وہ اپنے حق کا مطالبہ کرے‘‘۔ (بخاری)
اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے ایسے شخص کو دعا دی ہے جو زندگی میں مختلف مواقع پر فیاضی وایثار سے کام لیتا ہے یعنی جب گاہک کو تول کردیتا ہے تو ترازو کا پلڑا جھکا رکھتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم نہ تولے بلکہ زیادہ تولے۔ جب خود خریدتا ہوتا ہے تو زیادہ کا حریص نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب کسی سے اپنے حق کا تقاضا کرتا ہے تو نرمی سے کام لیتا ہے اور ضرورت محسوس ہوتی ہے تو معاف بھی کردیتا ہے۔
’’سخی خدا سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے دوزخ سے دور ہے‘‘۔ (ترمذی )
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اسی بات کی تعلیم دی ہے کہ لوگ دوسروں کے حقوق کے ادا کرنے میں فیاضی کو پیش نظر رکھیں۔ معاملات میں خوشگواری اسی سے پیدا ہوسکتی ہے۔
’’اور آپس میں حق سے بڑھ کر دینا نہ بھولو۔ یقیناً اللہ اسے دیکھ رہا ہے جوکچھ تم کرتے ہو‘‘۔ (بقرہ: 237)
نبیؐ نے فرمایا:
’’خرچ کرو، گنو مت‘‘۔ (بخاری مسلم)
انسان پر اللہ کی اتنی نعمتیں ہیں کہ ان کا شمار بھی نہیں کیا جاسکتا، جب انسان ان نعمتوں کا احساس نہیں کرتا تو ناشکری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انسان کی اس کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’جس نے وہ سب کچھ یا تمہیں دیا جو تم نے مانگا اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے‘‘۔
(ابراہیم: 34)
اگر ان ہدایات پر عمل کیا جائے تو حسد کی بیماری کے پیدا ہونے کی گنجائش نہیں رہتی۔