سلام میں پہل کرنے کی فضیلت

3642

سلام ایک متبرک اور دعائیہ کلمہ ہے، سلام کرنے والا اپنے ساتھی کو یہ اطمینان دلاتا ہے کہ تم میرے ہاتھ پیر، اعضا وجوارح، حتی کہ زبان سے بھی جانی ومالی ہر اعتبار سے مامون ہو، گویا سلام اظہار ہمدردی کے ساتھ ادائے حق بھی ہے کہ سلام کرنے والا اپنے مومن بھائی کے لیے خیر وبقا کی دعا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام میں پہل کرنے والے کے لیے احادیث میں بہت فضیلت وارد ہوئی ہے۔
ارشاد نبویؐ ہے:
ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’لوگوں میں اللہ رب العزت کی رحمت کے قریب وہ شخص ہے جو سلام میں پہلے کرے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
ایک اور روایت میں نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے: ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ سے پوچھا گیا: یارسول اللہؐ! جب دو آدمی ملاقات کریں تو ان میں سے کون سلام میں پہل کرے؟ تو آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’جو ان دونوں میں اللہ کی رحمت کے سب سے زیادہ قریب ہے‘‘۔ (جامع الترمذی)
مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قرب حاصل کرنا ہو اور رحمت خدا وندی سے زیادہ حصہ چاہتا ہو، وہ ملاقات کے وقت سلام میں پہلے کرے، وہ دوسرے کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کی رحمت کے زیادہ قریب ہوگا، دونوں روایات میں ابتدا بالسلام کو رحمت سے قرب حاصل کرنے کا سبب بتلایا گیا ہے، جس سے سلام کی اہمیت وفضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں ارشاد ہے کہ سلام میں ابتدا کرنے والا کبر سے بری ہے۔ یہ روایت بھی سلام کی فضیلت کو بتلاتی ہے۔
سلام کرنے کا اجر وثواب اور جواب کا طریقہ
سلام کو رواج دینے کے بارے میں بڑی فضیلت آئی ہے، ماقبل کی تمام روایات سلام کی فضیلت کو بتلاتی ہیں، ایک اور روایت میں سلام کی فضیلت اور اس پر اجر وثواب کا مضمون وارد ہے۔
عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے ’’السلام علیکم‘‘ کہا اور بیٹھ گیا، آپؐ نے اس کا جواب دیا اور فرمایا: ’’اس کے لیے دس نیکیاں ہیں‘‘۔ پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کہا۔ آپؐ نے اس کو جواب دینے کے بعد فرمایا: ’’اس کے لیے بیس نیکیاں ہیں‘‘۔ پھر ایک اور آدمی آیا، اس نے: ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہا تو آپؐ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’اس کے لیی تیس نیکیاں ہیں‘‘۔ (جامع الترمذی)
مذکورہ روایت میں نبی اکرمؐ نے ہر شخص کے لیے ثواب کی ایک مقدار مقرر فرمائی اور جس شخص نے جس قدر اچھے انداز میں سلام کیا، آپؐ نے اسی کے بقدر اس کے لیے نیکیوں کی تعیین فرمائی۔ معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کا اجر وثواب اس کے طریقۂ سلام پر موقوف ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے ملنے والے کو اچھی طرح سلام کرے، تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا مستحق ہوسکے اور رہا جواب دینے والے کا معاملہ… تو یاد رہے کہ سلام کرنا مسنون ہے، مگر اس کا جواب دینا واجب ہے اور قرآن کریم کے فرمان کے مطابق جواب یا تو سلام کے ہی مقدار اور معیار کا ہو، یعنی اس کے مثل ہو یا پھر اس سے بہتر ہو، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
ترجمہ: ’’جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو یا اس کو لوٹا دو‘‘۔ (النساء :86)
اس آیت کے بموجب جواب سلام سے عمدہ اور بہتر ہونا چاہیے، جواب دینے والے کو اپنے انداز، طریقے اور الفاظ کے ذریعے جواب کو عمدہ بنانا ضروری ہے، اگر اتنا نہ کرسکے تو کم از کم اسی قدر جواب دے دے جن الفاظ کے ساتھ اس کو سلام کیا گیا ہے، سلام کے جواب کے سلسلے میں صاحب روح المعانی نے نہایت عمدہ طریقہ بتلایا ہے، فرماتے ہیں:
’’ایسے سلام کے ساتھ جواب دو جو اس سلام سے بہتر ہو، جو تم کو کیا گیا ہے، بایں طور کہ تم کہو: ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ‘‘ اگر مسلمان بھائی نے صرف اول پر اکتفا کیا ہو، اور برکاتہ بھی بڑھا دو، اگر اس نے دونوں کو جمع کردیا ہو اور یہ سلام کے الفاظ کی انتہا ہے ( اگر کوئی وبرکاتہ بھی سلام میں کہہ دے) تو جواب میں اسی پر اکتفا کافی ہوگا، اضافے کی ضرورت نہیں‘‘۔ (روح المعانی)
سلام کرنا مسنون ہے، مگراس کا جواب دینا واجب ہے اور قرآن کے فرمان کے مطابق جواب عمدہ ہونا چاہیے، جیسا کہ اس کا طریقہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ آج کل جواب دینے میں بڑی کوتاہی سے کام لیا جاتا ہے، جو قرآن کریم کے فرمان کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس سے جس قدر بھی ممکن ہو احتیاط لازم ہے۔