زندگی اور موت؟

182

موت کا تصور برابر تمھارے فکر وخیال پر چھایا رہتا ہے۔ تم اسے ہر جگہ اور ہر چیز کے پیچھے گمان کرتی ہو، اسے ایک ایسی سرکش قوت سمجھتی ہو جو زندگی اور زندوں پر حاوی ہے اور اس کے مقابلے میں زندگی کو کمزور، کھوکھلی اور خوفزدہ پاتی ہو، لیکن میرا نقطۂ نظر تمھارے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ میں زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں موت کو ایک کمزور اور سکڑی سمٹی قوت سمجھتا ہوں۔ موت کچھ نہیں کرپاتی سوائے اس کے کہ اپنی روزی کے لیے زندگی کے دسترخوان سے کوئی گرا پڑا ٹکڑا اٹھالے۔ میرے ارد گرد زندگی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ ہر چیز پروان چڑھ رہی ہے۔ بڑھ رہی ہے اور پھل پھول رہی ہے۔ مائیں حمل سے ہو رہی ہیں اور بچے جن رہی ہیں۔ اس معاملے میں انسان اور جانور برابر ہیں۔ پرندے، مچھلیاں اور کیڑے مکوڑے انڈے دے رہے ہیں، جن سے زندگی پھوٹ رہی ہے اور جاندار نکل رہے ہیں۔ زمین سے پودے پھوٹ رہے ہیں، جن سے پھول اور پھل نکلتے ہیں، آسمان سے موسلادھار بارش ہو رہی ہے، سمندروں میں موجیں اٹھ رہی ہیں۔ غرض اس روئے زمین پر ہر چیز نمو پذیر ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔
درمیان میں کبھی کبھی موت اچانک نمودار ہوتی ہے اور ایک جھپٹّا مارکر آگے بڑھ جاتی ہے، یا چپکے سے اپنے جینے کے لیے زندگی کے دسترخوان پر سے کوئی گرا پڑا ٹکڑا اٹھالیتی ہے۔ زندگی کا کارواں رواں دواں رہتا ہے، اس کی موجیں اچھلتی کودتی اور جوش مارتی ہیں۔ اسے موت کا مطلق احساس نہیں ہوتا۔
بسا اوقات جب موت زندگی کے جسم میں ایک مرتبہ نوچتی ہے تو درد سے اس کی چیخ نکل پڑتی ہے، لیکن زخم بہت جلد مندمل ہوجاتے ہیں۔ اور درد کی چیخ بہت جلد راحت میں بدل جاتی ہے۔ انسان اور حیوان، پرندے اور مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، پیڑپودے، سب اپنی اپنی راہ پر گامزن رہتے ہیں ، روئے زمین زندگی اور زندوں سے معمور رہتی ہے! موت کہیں کونے میں دہکتی رہتی ہے، دفعتہ ایک جھپٹاّ مارتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ یا زندگی کے دسترخوان سے کوئی ٹکڑا گرجاتا ہے جسے وہ اٹھالیتی ہے!!
سورج نکل اور ڈوب رہا ہے، زمین اس کے گرد گردش کر رہی ہے، زندگی کی کونپلیں اِدھر اْدھر نکل نکل رہی ہیں۔ ہرچیز نموپذیر ہے۔ اس میں اضافہ تعداد میں بھی ہو رہاہے اور نوعیت میں بھی، کمّیت میں بھی ہو رہا ہے اور کیفیت میں بھی، اگر موت کچھ کرسکنے کے قابل ہوتی تو زندگی کی روانی ٹھہرجاتی، لیکن زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری ہوئی اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں موت ایک کمزور اور سکڑی سمٹی قوت ہے۔ زندۂ جاوید اللہ واحد کی قوت سے زندگی کی کونپلیں نکلتی ہے، یہاں تک کہ ایک تناور درخت وجود میں آجاتا ہے!!
کسی نظریے کے لیے جینا زندگی کو طویل اور سرمدی بنادیتا ہے
جب ہم صرف اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں تو زندگی ہمیں مختصر اور معمولی نظر آتی ہے۔ ہمارے سنِ شعور کو پہنچنے سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور ہماری محدود عمر کے اختتام کے ساتھ اس کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے! لیکن جب ہم دوسروں کے لیے، یا کسی نظریے کے لیے جیتے ہیں تو اس صورت میں زندگی بہت طویل اور عمیق نظرآتی ہے۔ اس کا نقطۂ آغاز وہ ہوتا ہے، جہاں سے انسانیت کا آغاز ہوا ہے اور اس روے زمین سے ہماری جدائی کے بعد بھی اس کا سلسلہ دراز رہتا ہے!!
اس طرح ہم اپنی انفرادی عمر میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ یہ اضافہ حقیقی معنیٰ میں ہوتا ہے، نہ کہ وہمی طور پر۔ اس طرح زندگی کا تصور دنوں، گھنٹوں اور لمحوں کے بارے میں ہمارے احساس کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ زندگی سالوں کی گنتی کا نام نہیں ہے۔ بلکہ احساسات و جذبات کا شمار زندگی سے عبارت ہے۔ اس صورت میں جس چیز کو واقعیت پسند ’’وہم‘‘ قرار دیتے ہیں، وہ اصل میں ’’حقیقت‘‘ میں ہوتی ہے، ان کے تمام حقائق سے زیادہ درست حقیقت! اس لیے کہ زندگی انسان کے احساس سے الگ کردیجیے۔ اسے حقیقی معنیٰ میں خود زندگی سے عاری کردیں گے اور اگر کسی انسان کا احساس اپنی زندگی کے بارے میں کئی گنا بڑھ جائے تو عملاً اس کی زندگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ یہ مسئلہ اتنا بدیہی ہے کہ اس میں کسی بحث وجدال کی ضرورت نہیں۔ ہم جب دوسروں کے لیے جیتے ہیں تو درحقیقت خود اپنی زندگی میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں اور جس قدر دوسروں کے بارے میں ہمارے احساس میں اضافہ ہوگا خود اپنی زندگی کے بارے میں ہمارا احساس بڑھے گا اور آخرکار خود زندگی کو ہم کئی گنا بڑھالیں گے۔
خیرکا درخت تناور اور شر کا درخت کمزور ہوتا ہے
شرکا بیج لہلہاتا ہے، لیکن خیر کا بیج پھل دیتا ہے۔ پہلا فضا میں تیزی سے بڑھتا ہے، لیکن اس کی جڑیں مٹی میں قریب ہی ہوتی ہیں۔ اپنی پھیلی ہوئی شاخوں کی وجہ سے وہ خیر کے درخت تک روشنی اور ہوا نہیں پہنچنے دیتا۔ خیر کا درخت سست رفتاری کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی ہیں، جو اسے گرمی اور ہوا کا بدل فراہم کرتی ہیں۔
ہم جب شر کے درخت کے فریبی اور زرق برق مظہر سے آگے بڑھ کر اس کی حقیقی قوت اور صلاحیت کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ ہمیں بہت کمزور، خستہ اور نرم دکھائی دیتا ہے اور اس میں کوئی حقیقی سختی نظر نہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں خیر کا درخت آزمائشوں پر جما رہتا ہے۔ آندھی طوفان اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔ وہ پْرسکون انداز میں دھیرے دھیرے بڑھتا رہتا ہے اور شر کے درخت کی جانب سے آنے والے جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹوں کی مطلق پروا نہیں کرتا۔ ترجمہ: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی