متکبر کون ہے؟

736

انسان کے اَخلاقی، روحانی اور مْہلک نفسانی عَوارض میں سے ایک عْجب (Arrogance)، تکبّْر اور اِستکبار ہے۔ اسی قبیح خصلت نے شیطان کو ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ کیا۔ اللہ عزّوجلّ کا ارشاد ہے: ’’اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو ابلیس کے سوا سب فرشتوں نے سجدہ کیا، اس نے انکار کیا اور تکبّر کیا اور کافر ہوگیا‘‘۔ (البقرہ:44) عْجب کے معنی ہیں: ’’غرور میں مبتلا ہونا‘‘ اور ’’تکبّْر واِستکبار‘‘ کے معنی ہیں: ’’خود کو بڑا سمجھنا‘‘۔ ’’ اَلمْتَکَبِّر‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفتِ جلیلہ ہے، حقیقی کبریائی اور بڑائی صرف اسی کی شان ہے، اسی لیے سورہ الحشر آیت :23 میں جہاں اللہ تعالیٰ کی ایک سے زائد صفاتِ جلیلہ کو ایک مقام پر بیان فرمایا ہے، ان میں ’’اَلمْتَکَبِّر‘‘ کی صفت بھی ہے، اس کے معنی ہیں: ’’بڑائی والا، عظمت والا‘‘۔ بقولِ علامہ اقبال ؎
سروری زیبا فقط اْس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی ، باقی بتانِ آزری
حدیثِ قدسی میں رب ذوالجلال فرماتاہے: ’’کبریائی میری ’’رِداء‘‘ اور عظمت میری ’’اِزار‘‘ ہے، سو (بندوں میں سے) جو ان صفات میں مجھے چیلنج کرے گا، تو میں اسے جہنم میں داخل کردوں گا اور ایک روایت میں ہے: جہنم میں پھینک دوں گا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ :4175) جب ’’رِداء‘‘ اور ’’اِزار‘‘ کی نسبت اللہ کی ذات کی طرف کی جائے، تو اس کے وہی معنی مراد ہوں گے جو اس کے شایانِ شان ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات جسم، جسمانیات، اِن کے عَوارض، لَوازِم اور مْتعلِّقات سے پاک ہے، مقدَّس اور مْعَرَّیٰ ہے۔ قرآن وحدیث میں اس طرح کی نسبتیں انسانوں کو سمجھانے کے لیے ارشاد فرمائی گئی ہیں، ان سے ان کے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے بلکہ ذاتِ اْلوہیّت جلّ وعلاء کے شایانِ شان جو بھی معنی مراد ہوں، ان پر ہمارا ایمان ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہماری مثالی دنیا میں اعلیٰ مناصِب کے لیے ایک خاص یونیفارم یا لباس ہوتا ہے۔ حدیثِ پاک سے مراد یہ ہے کہ ’’مْتَکَبِّر‘‘ گویا اللہ تعالیٰ کی شانِ کبریائی کو چیلنج کرتا ہے یا اس جیسا بننے کا دعویٰ کرتا ہے یا اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہے، اسی بنا پر اس کا ٹھکانا جہنم کو قرار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں میں عَجز ونیاز اور تواضع و انکسار کی صفات پسند ہیں، بلکہ عبادت کے معنی ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی تذلّْل (Submissiveness) کے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’بیشک اللہ تعالیٰ مغرور، متکبر کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ (النساء:36) ’’اسی طرح اللہ ہر جبار متکبر کے دل پر (اس کی سرکشی کے وبال کے طور) مہر لگا دیتا ہے‘‘۔ (المؤمن :35) رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن متکبرین کو (انسانی شکل میں) چھوٹی چھوٹی چونٹیاں بنا کر اٹھایا جائے گا، لوگ انہیں روندیں گے، ہر چھوٹی چیز بھی ان پر مسلط ہوگی، پھر انہیں جہنم کے اْس قید خانے کی طرف لے جایا جائے گا ، جسے ’’بْولَس‘‘ کہتے ہیں اور ایسی آگ کے شعلے ان پر بلند ہوں گے، جو آگ کو بھی جلا ڈالے، انہیں زہریلی مٹی اور جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پلائی جائے گی‘‘۔ (ترمذی :2492) اس کے برعکس جو اللہ کے حضور تواضع کرے، اللہ تعالیٰ اسے سربلندی عطا فرماتا ہے۔ ارشادِ نبوی ہے: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ایک درجہ تواضع کرتا ہے، اللہ اس کا ایک درجہ بلند فرماتا ہے اور جو شخص اللہ کے سامنے ایک درجہ تکبّر کرتا ہے، اللہ اس کو ایک درجہ پست کر دیتا ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس کو سب سے نچلے طبقے میں کر دیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ :4176) رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: بدترین بندہ وہ ہے جو تکبر کرے اور حد سے تجاوز کرے اور ’’جبّارِ اعلیٰ‘‘ کی ہستی کو بھول جائے، جو گھمنڈ میں مبتلا ہو اور اترائے اور خداوندِ کبیر ومْتَعال کو بھول جائے اور جو (احکامِ خداوندی سے) غافل ہوجائے اور انہیں نظراندازکر دے اور قبر اور اس میں گلنے سڑنے کو بھول جائے، جو سرکشی اختیار کرے اور (احکامِ الٰہی سے) بغاوت کرے اور اپنے آغاز وانجام کو بھول جائے‘‘۔ (ترمذی :2448)
عبداللہ بن مبارک نے کہا: ’’کمالِ تواضع یہ ہے کہ انسان دنیاوی اعتبار سے اپنے سے کمتر کے ساتھ تواضع کرے، یہاں تک کہ اسے احساس ہوجائے کہ دنیاوی جاہ ومنصب کی بنا پر آپ کو اس پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے اور یہ کہ جو دنیاوی اعتبار سے اس سے برتر ہے، اپنے آپ کو اس کے آگے ذلیل نہ کرے تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ اس کی دنیاوی برتری حقیقت میں فضل وکمال نہیں ہے‘‘۔ قتادہ نے کہا: ’’جسے اللہ تعالیٰ نے مال یا جمال یا علم یا اسبابِ ظاہری سے نوازا ہو اور پھر وہ تواضع نہ کرے تو قیامت کے دن یہی نعمتیں اس کے لیے وبال بنیں گی‘‘۔ ایک روایت میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ جب میں آپ کو نعمتوں سے نوازوں تو آپ عاجزی اختیار کریں تاکہ میں تکمیلِ نعمت کروں‘‘۔ (اِحیائْ علومِ الدین، جلد:3، ص :419)
متکبر کی ایک پہچان اَڑیل پن، ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی ہوتی ہے، وہ حق کے آگے سرتسلیم خم نہیں کرتا بلکہ عقلی دلائل سے اسے رد کرتا ہے، حالانکہ ایمان کی حقیقت اور مؤمن کی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمؐ کے فرمان کے آگے بلاچوں وچرا سرتسلیم خم کر دیتا ہے۔ اسے عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھتا بلکہ عقل کی راستی اور اِصابت (Righteousness) کے لیے وحیِ ربانی کو کسوٹی بناتا ہے اور اسی نتیجۂ فکر کو راست اور حق سمجھتا ہے، جو وحی کی کسوٹی پر پورا اترے، جو عقل کو مطلقاً معرفتِ حق کے لیے میزان اور کسوٹی بنائے، وہ زندیق ہے اور یہی ابلیس کا شِعار ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے: ’’اور (اے آدم!) ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا (اور) وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا، (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: تجھ کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے منع کیا، جبکہ میں نے تمہیں حکم دیا تھا؟ اْس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے، (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: تو یہاں سے اتر، تجھے یہاں گھمنڈ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ (الاعراف :12۔13) یعنی آگ لطیف ہے اور مٹی کثیف، اور لطیف چیز کثیف سے افضل ہے، تو میں اپنے جوہرِ تخلیق کے اعتبار سے افضل ہو کر اَدنیٰ کے سامنے سجدہ کیسے کروں؟ اسے عقل نہیں مانتی، دلیل اس کا ساتھ نہیں دیتی۔ سو اْس نے عقلی دلیل سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو رَد کردیا اور راندۂ درگاہ ہوا اور فرشتوں نے بلاچوں وچرا اللہ تعالیٰ کے حکم کو تسلیم کیا اور آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ فرشتوں کو معلوم تھا کہ کمال نہ آگ میں ہے، نہ ذرۂ خاک میں ہے، کمال تو ربِّ ذوالجلال کی عطا میں ہے، وہ چاہے تو ذرّے کو آفتاب سے بالا کردے، قطرے کو سمندر کردے اور خاک کے پتلے آدم کو رشک ملائک بنادے۔
پس متکبر کی ایک پہچان خود سری، خود فریبی اوراپنی ذات کو راستیِ فکر ( Self Righteousness ) کا حامل سمجھنا ہے، ایسے شخص پر اللہ تعالیٰ معرفتِ حق کے دروازے بند کردیتا ہے اور فریبِ نفس میں مبتلا ہوکر وہ اپنی خطا کو صواب، باطل کو حق، ظلم کو عدل اور ناروا کو روا سمجھنے لگتا ہے۔ آج ہم اپنے پورے ماحول اور نظام کا جائزہ لیں تو ہم پر عیاں ہوگا کہ بحیثیتِ مجموعی ہم اسی مرض میں مبتلا ہیں۔ یہ فریبِ نفس انفرادی بھی ہوتا ہے اور گروہی اور طبقاتی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم میں کتنے ہی گروہ ہیں جنہوں نے شریعت کے مسلّمہ معیارات کو رد کرکے اپنے اپنے معیارات وضع کرلیے ہیں۔ علامہ اقبال کا یہ فرمان سچ ہے ؎
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اْمّت روایات میں کھو گئی
بندہ جب خودرائی، خود نگری، خود فریبی اور عْجبِ نفس میں مبتلا ہوتا ہے، تو خود کو بڑا سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں کو اپنے مقابلے میں حقیر جاننے لگتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: (1) رسول اللہؐ نے فرمایا: جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، ایک شخص نے عرض کی: (یارسول اللہؐ!) انسان چاہتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو، جوتے اچھے ہوں، (کیا یہ تکبر ہے؟)، آپؐ نے فرمایا: (نہیں)، بے شک اللہ تعالیٰ (اپنی ذات، صفات اور افعال میں) جمیل ہے اور اپنی صفتِ جمال کا ظہور (اپنی مخلوق میں بھی) پسند فرماتاہے، تکبر تو حق کے انکار اور لوگوں کو (اپنے مقابلے میں) حقیر جاننے کا نام ہے‘‘۔ (مسلم :147)