پیاسی کی کہانی

197

قسط6
رفیق حمد
سابق جنرل سیکرٹری پیاسی یونین
اس تقریب کے بعد عظیم الشان جلسہ سیرت النبیؐ کا انعقاد ہوا۔ جس سے دیگر زعماء کے علاوہ مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا کوثر نیازی، علامہ عقیل ترابی صاحبان نے خطاب کیا۔
(25-11-75) پیاسی کی PIA کالونی ویلفیئر کمیٹی کی کوششوں سے یہ مسجد تعمیر ہوئی۔ اور PIA کی ملک بھر کی تمام سجدوں کے علمائے کرام اور اسٹاف کو PIA کے مستقل ملازمین کی حیثیت دے دی گئی اور PIA کالونی کے فلیٹس کا کرایہ بھی کم کردیا گیا اور فیصد حساب مقرر کرادی گئی۔
اللہ کے فضل سے یہ تمام کامیابیاں احقر کی سربراہی میں قائم کردہ پیاسی کی PIA کالونی ویلفیئر کمیٹی کے ادوار میں ملیں۔
28-5-75، PIA میں پیاسی کے چند ذمہ داران کی آپس کی ناراضگی اور حافظ اقبال اور صدر پیاسی کی شرافت سے اٹھائے شریک ہوئے۔ مخالف یونین نے گڑ بڑ اور رخنہ اندازی کی کوششیں شروع کردیں۔ چنانچہ پیاسی کی مجلس انتظامیہ کے گھنٹوں جاری رہنے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قیادت میں ردوبدل کردیا جائے۔
چنانچہ PIA انجینئرنگ ہینگر میں ایک بہت بڑا اور منظم جلسہ عام کیا گیا۔ اس جلسہ عام سے حافظ سید محمد اقبال احمد نے جذباتی والہانہ اور تاریخی خطاب کیا اور مناسب ردوبدل کے لیے پیاسی کی صدارت سے اپنے استعفے کا اعلان کیا۔ عجیب منظر تھا۔ اس قربانی پر لوگ رو بھی رہے تھے مگر اس اقدام کو سراہا بھی رہے تھے۔ اسی اجلاس عام میں مجید صابر شیخ کو پیاسی کا صدر بنانے کی منظوری دی گئی۔ قاضی شمیم، رفیق احمد اور مجید صابر شیخ نے بھی انتہائی جذباتی خطاب کیا۔ ان اقدامات کے بعد مخالفین کی سرگرمیاں مانند پڑ گئیں اور رخنہ اندازی دم توڑنے لگی۔
پیاسی نے PIA کے 21 مارچ 1974ء کو ہونے والے تیسرے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے اور CBA بننے کے بعد مزدوروں کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ جن کی وجہ سے پیاسی کی ساکھ بہت مستحکم ہوگئی۔ مثالی چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کرایا گیا۔ (1974ء کے ریفرنڈم میں تین یونینوں نے حصہ لیا۔ پیاسی، ایوپیا اور پیائو۔ پیائو یونین 30 اکتوبر 1972ء کو رجسٹر ہوئی تھی)۔
اب دو سال بعد 1976ء کا ریفرنڈم آتا ہے۔ پیاسی کا مقابلہ روایتی حریف ایوپیا یونین سے تھا۔ پیاسی کی مقبولیت کا گراف آگے جارہا تھا اور مختلف اداروں کی رپورٹ تھی کہ پیاسی ہی کامیاب ہوگی۔ اس وقت پی پی پی کی حکومت نے پیاسی کو راستے سے ہٹانے (اور غالباً ایوپیا کو لانے) کا فیصلہ کرلیا تھا۔ چنانچہ حکومت نے ایک ایسا کام کر دکھایا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ 19 مارچ 1976ء پیاسی نے پی آئی اے کالونی میں جلسہ سیرت النبیؐ کا انعقاد کیا (جو پیاسی کی روایت کے مطابق ہر سال منعقد کیا جاتا تھا)۔ تقریب کے مہمان خصوصی مرکزی وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان تھے اور مقررین میں خطیب پاکستان مولانا احتشام الحق تھانوی، علامہ رشید ترابی، علامہ نصیر ترابی اور دیگر علمائے کرام تھے۔ اسٹیج پر وفاقی وزیر داخلہ اور پیاسی یونین کے لیڈران آچکے تھے۔ علمائے کرام کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ شرکاء خواتین و حضرات اور بچوں سے پنڈال بھر چکا تھا۔ جلسہ کی کارروائی کے آغاز کے اعلان کے ساتھ ہی اچانک سیرت النبیؐ کے مقدس جلسے کی بتیاں گُل کردی گئیں، فائرنگ اور آنسو گیس کے گولے جلسہ گاہ پر برسائے گئے اور شامیانوں کی قنابیں کاٹ دی گئیں۔ مرکزی وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان اور اسٹیج پر موجود شرکاء بشمول شیخ مجید نے اسٹیج سے کود کر جانیں بچائیں۔
پیاسی کے شمع توحید و رسالت کے جانثاروں اور ورکروں نے بھی ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا کہ اجڑے اور تباہ حال پنڈال کو پھر سے آراستہ کیا، بجلی بحال کی، آنسو گیس کی شدت ختم کی اور سیرت النبیؐ کا یہ جلسہ دوبارہ شروع کرادیا۔ اس جلسے سے مولانا احترام الحق تھانوی اور علامہ نصیر ترابی نے رقت آمیز خطاب کیا اور کہا: ’’دراصل حکومت نے سیرت النبیؐ کے جلسے کو درہم برہم کیا دراصل انہوں نے اپنی حکمرانی اور حکومت کو اپنے ہی ہاتھوں سے درہم برہم کرلیا‘‘ (اور کچھ عرصے بعد ہوا بھی یہی)۔ 10 اپریل 1976ء PIA ہیڈ آفس میں پیاسی اور ایوپیا یونینوں کے ورکرز کے مابین سخت لڑائی ہوئی اور یہ نعرہ لگا ’’ائرویز کے طوطے اڑ گئے‘‘۔ ریفرنڈم 12 اپریل کو ہونا تھا۔ 11 اپریل کو پی پی پی کی حکومت نے ریفرنڈم ملتوی اور پیاسی کی بارگیننگ (سوداکار) ایجنسی پر پابندی کا اعلان کردیا۔ گرفتاریاں کی گئیں۔ ایوپیا کے 8 اور پیاسی کے 20 ورکرز / لیڈرز گرفتار ہوئے، 6 دن بعد ایوپیا کے ورکرز کی ضمانتیں ہوگئیں مگر پیاسی کے ورکرز کی بمشکل 9 دن بعد ضمانتیں ہوئیں۔ 41 ملازمین (ورکرز) اور 13 افسران کو PIA کی ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ پیاسی یونین کی تقریباً پوری قیادت ہی ملازمت سے فارغ کردی گئی۔
(ان میں مجید صابر شیخ صدر، قاضی شمیم احسن GS، عزیز الرحمن، بشارت احمد، نو روز گل، ایم کلیم، سلیم الدین حیدر، محمد یوسف، محمد یحییٰ، ریاض احمد، سلیم تیموری (کراچی سے) محمود (صدر پنڈی)، مشاہد اللہ خان، محمد دین (راولپنڈی)، نسیم انور چودھری (صدر لاہور)، بلند اقبال رانا (لاہور)، طاہر خان (صدر پشاور)، افضل حسین (کوئٹہ)، (سب پیاسی والے) جبکہ ایوپیا کے امین چودھری عباس جعفری، سبط اختر (کراچی) زندہ محمود باجوہ (لاہور) اور پیائو کے صدر فرحت حسین رضوی اور انیس احمد خان سبکدوش کردیے گئے۔ (10 ستمبر 1972ء)
وفاقی وزراء عبدالحفیظ پیرزادہ اور عبدالستار گبول وغیرہ نے وزیراعظم کے ایما پر ایک نئی پاکٹ یونین بنانے کے کام کا آغاز کردیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایوپیا، پیائو اور پیاسی تینوں یونینوں کے ذمہ داران/ لیڈران سے میٹنگز کا سلسلہ اور مذاکرات شروع کیے۔ اسلام آباد اور کراچی میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ 12 جون 1976ء کو پیاسی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں رائے، ورکرز اور لیڈران منقسم ہوگئے۔ ایک کا خیال تھا کہ خاموشی اختیار کی جائے۔ کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ مجوزہ حکومتی یونین میں حصہ لیا جائے۔ اگر پیاسی نے اس میں حصہ نہ لیا تو حکومت ایوپیا اور پیائو اور کچھ دوسرے لوگوں کو ساتھ ملا کر اپنی یونین بنالیں گے اور پیاسی کے ورکروں کو نقصان پہنچائیں گے۔ پیاسی کے اکبر نصیر الدین، سعید وارثی اور چند دیگر لوگوں نے حکومتی یونین کا حصہ بننے کی نہ صرف رائے دی بلکہ فیصلہ کرلیا۔ اس کے مقابلے میں پیاسی کے ایک بڑے گروپ کا کہنا تھا کہ ہمیں پیاسی کے دامن پر ’’پاکٹ یونین‘‘ کا تمغہ نہیں سجانا چاہیے۔ حالات کا مقابلہ مزدور مفاد میں کرنا ہوگا اس رائے میں حافظ اقبال صدر، مجید صابر شیخ، برجیس احمد، رفیق احمد، محمد یوسف، اعظم چودھری، قمر شاہ، گیلانی بشارت، خواجہ نثار اور راقم الحروف وغیرہ شامل تھے۔ یہی پیاسی کا فیصلہ قرار پایا ۔