پیاسی کی تاریخ (قسط نمبر4)

74

یہاں 1970ء سے 1979ء تک تینوں یونینوں کے (جو اس وقت تک کے ادوار میں CBA بنتی رہیں) کا موازنہ دیا جارہا ہے۔
پیاسی یونین کی سب سے اہم دوسری خصوصیت یہ رہی ہے کہ اس نے جہاں ملازمین کو بہت کچھ دلایا وہیں PIA کی تعمیر و ترقی، استحکام اور نیک نامی کے لیے بھی بے بدل خدمات انجام دیں۔ پیاسی ہی کے دور میں PIA میں دو نئے جمبو جیٹ (B-747) طیارے آئے۔ جب یہ طیارے کراچی ائر پورٹ پر اترے ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی۔ طیارہ ساز کمپنی کے نمائندہ خصوصی نے ان طیاروں کی علامتی چابیاں ایک خوبصورت پلیٹ اور کور میں PIA کے MD اور چیئرمین انور جمال کو پیش کیں۔ انہوں نے فوراً PIA کی تمام ایسوسی ایشنز کے نمائندگان اور بڑی تعداد میں PIA کے ملازمین کی موجودگی میں پیاسی (CBA) کے صدر برجیس احمد کو دعوت دی اور کہا کہ اس چابی کو وصول کرنے کے حقدار PIA کے ملازمین اور ان کی نمائندہ تنظیم کے عہدیداران ہیں جن کی محنت، خلوص اور دیانتداری سے آج PIA کو عظیم الحبثہ جہاز ملے ہیں۔
یہ PIA کے مخلص اور عظیم سربراہ کی طرف سے پیاسی یونین کے لیے بڑا اعزاز اور خدمات کا برملا اعتراف تھا۔
پیاسی ہی کے مختلف ادوار میں PIA نے نئے نئے روٹ دریافت کیے۔ DC-10 کی کراچی، نیویارک پرواز کا اجراء اور افتتاح کیا۔ ملازمین کو بونس بھی ملتے رہے اور یہ سب کچھ محنت، لگن، ادارے سے محبت اور دیانتداری کے سبب ممکن ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال رہی۔ کسی ادارے کو چلانے کے لیے ایک انتظامیہ (چیئرمین ایم ڈی بورڈ) ہوتی ہے۔ وہ پالیسیز بناتے اور انتظام سنبھالتے اور ان پر عمل کراتے ہیں۔ اگر ان پر کوئی چیک نہ ہو تو اکثر بے لگام ہوجاتے ہیں جس سے ادارے اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اسی طرح اگر ادارے کے ملازمین کے حقوق ادا نہ کیے جارہے ہوں، ان کو مراعات اور ملازمت کا تحفظ نہ ہو اور ان کی پریشانیوں اور شکایات کا ازالہ نہ ہو اور داد رسی نہ ہو تو وہ بددلی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پس یہ بد دل، پریشانی اور مسائل کے شکار ملازمین ادارے کی ترقی میں اہم رول ادا نہیں کرپاتے۔
ان کی داد رسی اور حصول حقوق کے لیے ایک منظم مگر دیانتدار تنظیم بشکل ٹریڈ یونین جسے قانونی تحفظ اور حیثیت حاصل ہو ادارے اور مزدروں کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مجھے ایک بار (پرانی بات ہے) ایک ٹریڈ یونین لیڈر واہ کے قریب (غالباً کوہ نور ملز) ایک مل میں وہاں کی ٹریڈ یونین کے صدر سے ملانے لے گئے۔ ان سے گفتگو کا خاکہ کچھ اس طرح یاد ہے کہ میرے کئی سوالات کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سالہا سال سے یونین، انتظامیہ میں کوئی انڈسٹریل تنازع (ڈسپیوٹ) رنجش یا تنائو نہیں ہوا۔ یونین عموماً دو سال بعد چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کردیتی ہے۔ مالکان کچھ دنوں کے بعد مذاکرات کی دعوت دے دیتے ہیں۔ باہمی تبادلہ خیال ہوتا ہے اور یونین کے تمام یا اکثر مطالبات پورے کر دیے جاتے ہیں بلکہ کبھی کبھار ایک دو چیزیں وہ اپنی طرف سے اس میں شامل کردیتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ڈیمانڈ پوری نہ کی جائیں۔عام مزدور سے جنرل منیجر تک اسی مل کی چہار دیواری میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہتے ہیں۔ مسجد، ہائی اسکول، کھیل کے میدان، ڈسپنسری اسی مل کے ہائی اسکول میں مزدور اور جنرل منیجر کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ذہین بچوں کو بلاتفریق انعامات اور مزید تعلیم کے لیے وظائف اور مراعات دی جاتی ہیں۔ وغیرہ
پیاسی اعلیٰ اقدار کی امین
پیاسی یونین جو اعلیٰ اقدار کی امین اور روحِ رواح اور اسلامی مزدور تحریک کا ہر اوّل دستہ تھی دشمنوں اور مخالفین کی نظر میں بری طرح کھٹکتی تھی۔ پہلی سازش اس کے خلاف یہ کی گئی کہ چند مطالبات کی عدم منظوری اور PIA کے سخت اور توہین آمیز رویہ کی وجہ سے تحمل کے بجائے لیڈران کو ہڑتال پر اکسایا گیا۔ اور 12 جنوری 1971ء کو PIA میں ہڑتال کرادی گئی۔ اس وقت PIA کے MD ایس یو درانی اور DA بریگیڈیئر حمید الدین تھے (یہ یحییٰ دور تھا) جبکہ پیاسی کے صدر حافظ اقبال احمد اور جنرل سیکرٹری مجید صابر شیخ تھے۔ ہڑتال کے دوران پیاسی کی حریف یونین ایوپیا نے ہڑتالی مزدوروں کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ان کے خلاف کام کیا اور ڈیلی ویجز پر خاصی تعداد میں ملازمین بھرتی کرالیے گئے جن میں سے اکثریت کو بعد میں مستقل کرالیا گیا۔ مشرقی پاکستان والوں نے بھی ساتھ نہ دیا۔ اس موقع پر جلسے جلوس بھی ہوئے، شاہ فرید الحق، محسن بھوپالی، عباس باوزیر اور دیگر زعماء اور یونین لیڈروں میں حافظ اقبال، مجید شیخ، قاضی شمیم احسن، ایم یو عالم، شعاع النبی وغیرہ نے خطاب کیا اور قیادت کی۔ پولیس کا لاٹھی چارج ہوا اور گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ ان میں عباس باویر اور مجید شیخ بھی گرفتار ہوئے۔ بہرحال اس ہڑتال کے 7 روز بعد 19 جنوری 1971ء کو NLF اور ملک کی دیگر 4 مزدور فیڈریشنز کی مداخلت اور اپیل پر ختم کرنے کا اعلان صدر پیاسی حافظ اقبال احمد نے کیا۔ ہڑتال سے پیاسی کی ساکھ مجروح ہوئی۔