محبت رسول ﷺکا معیار اور کسوٹی

282

محبت اور وفا کے راستے میں صرف محبوب پر جان قربان کرنا ہی محبت کرنے والوں کا شیوہ نہیں ہوتا، بلکہ جو اس کے محبوب سے عداوت رکھیں اور محبوب کو تکلیف پہنچانے کا باعث بنیں، اْن سے لاتعلقی بھی لازم ہے، خواہ وہ رشتے میں کتنے ہی قریب کیوں نہ ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’آپ ایسی قوم نہیں پائیں گے کہ جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں (لیکن ساتھ ساتھ) اللہ اور اس کے رسول کے مخالفین سے بھی محبت رکھیں۔
خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا ان کے قریبی رشتے دار ہوں، یہ وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں پر اللہ نے ایمان ثبت فرمادیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی، اللہ ان کو ایسے باغات میں داخل فرمائے گا، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ اللہ کی جماعت ہے، سنو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہونے والی ہے‘‘۔ (المجادلہ: 22)
صحابۂ کرام کی زندگیاں اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت میں رشتے داریوں کو قربان کرنے کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں، جو بھی رسول اللہؐ کے مقابلے میں آیا، ان مردانِ وفا شعار نے ان سے ہر رشتہ ناطہ توڑ لیا، جنگ کے میدان میں رسول اللہؐ کے مقابلے میں نکلنے والے اپنے قریبی رشتوں کو اپنے ہاتھوں سے کاٹ کے رکھ دیا، چشمِ فلک نے شاید ایسے مناظر کہیں اور نہ دیکھے ہوں، یہ وہ لوگ تھے جن کی محبت کا محور صرف رسول اللہؐ کی ذات تھی، علامہ علی القاری لکھتے ہیں: ’’جنگ بدر میں ابوعبیدہؓ نے اپنے باپ کو قتل کیا، مصعب بن عمیرؓ نے اپنے بھائی کو قتل کیا، عمرؓ نے اپنے ماموں کو قتل کیا، علیؓ نے اپنے کئی رشتے داروں کو قتل کیا اور ابوبکرؓ نے اپنے بیٹے کو مقابلے کے لیے للکارا۔ (شرح الشفاء، ج 3، ص:368)
کوئی محبوب کی شان میں ادنیٰ سی بے ادبی کردے، محبت کرنے والے تڑپ اٹھتے ہیں اور جب تک اس کا ازالہ نہیں کرتے آرام سے نہیں بیٹھتے، خواہ وہ بے ادبی کرنے والا کوئی بھی ہو، علامہ آلوسی لکھتے ہیں: غزوۂ بنی المصطلق میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے ایک گستاخانہ کلمہ کہا، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: ’’وہ (منافقین) کہتے ہیں: اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور وہاں سے عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا‘‘۔ (المنافقون: 8) متعدد سندوں سے روایت ہے: عبداللہ بن ابی کے بیٹے عبداللہ ایک مخلص صحابی تھے، اْن کو جب علم ہوا کہ ان کے والد نے یہ گستاخانہ کلمہ کہا ہے، تو انہوں نے مدینہ کے قریب پہنچ کر اپنے باپ پر تلوار سونت لی اور کہا: خداکی قسم! میں اس تلوار کو اس وقت تک میان میں نہیں ڈالوں گا، جب تک تم یہ نہیں کہوگے کہ محمدؐ عزت والے ہیں اور میں ذلت والا ہوں، جب تک باپ نے یہ نہ کہا، بیٹے نے اسے نہ چھوڑا۔
ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن ابی کو مدینہ میں داخل ہونے سے روک دیا اور کہا: جب تک تم رسول اللہؐ سے مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت حاصل نہیں کروگے میں تم کوشہر میں آنے نہیں دوںگا تاکہ تم کو معلوم ہوجائے کہ عزت والا کون ہے اور ذلت والا کون، حتٰی کہ اس نے رسول اللہؐ سے اجازت حاصل کی تب عبداللہؓ نے اس کو مدینہ میں داخل ہونے دیا۔ (تفسیر روح المعانی، جز14، ص:210 ) عبداللہؓ نے رہتی دنیا تک کے لیے ایک پیغام دیا کہ رشتوں کی حرمت کی بنیاد رسول اللہؐ کی ذات سے وابستگی ہے، جس کی وابستگی اس ذات سے نہ رہے، اس رشتے کی حرمت ختم ہوجاتی ہے، خواہ وہ باپ ہی کیوں نہ ہو اور عزتیں رسول اللہؐ کے دَر سے ملتی ہیں، جو اْن کے در سے پھر گیا، اس کی کوئی عزت نہیں۔
امام احمد رضا قادری نے کہا ہے ؎
جو تیرے در سے یار پھرتے ہیں
دربدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں
رسول اللہؐ کی محبت کے لیے زمان ومکان کی قید نہیںہے، ہر عہد میں آپؐ کی محبت کا دم بھرنے والے موجود رہے ہیں اور ہر آنے والا لمحہ آپؐ کی محبت کی شدت میں اضافہ کرتا ہے، حدیث ِپاک میں ہے: ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے، اْن میں سے ہر شخص یہ خواہش کرے گا کہ وہ اپنی جان ومال الغرض سب کچھ قربان کرکے میرے دیدار کی ایک جھلک دیکھ لے ‘‘۔ (مسلم: 2832)
بیکل اْتساہی نے کہا ہے ؎
جب حْسن تھا اْن کا جلوہ نما انوار کا عالم کیا ہوگا
ہرکوئی فدا ہے بن دیکھے، تو دیدار کا عالم کیا ہوگا
رسول اللہؐ کی محبت وہ نعمت ہے، جو عمل میں کمی کے باوجود محبت کرنے والے کو آپؐ کی معیت کا شرف عطا کرتی ہے، انسؓ بیان کرتے ہیں: ’’میں اور نبیؐ مسجد سے باہر جارہے تھے، مسجد کے دروازے کے پاس ایک شخص ہم سے ملا، اس نے کہا: یارسول اللہؐ! قیامت کب واقع ہوگی، نبیؐ نے فرمایا: یہ بتاؤ قیامت کے لیے تمہاری تیاری کیا ہے، وہ شخص ڈر کر خاموش ہوگیا، پھر اس نے عرض کی: میرا ذخیرۂ اعمال تو بہت زیادہ نہیں ہے، لیکن اتنی بات ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں، آپؐ نے فرمایا: تم اسی کے ساتھ ہوگے جس کے ساتھ تم محبت کرتے ہو‘‘۔ (بخاری :7153)
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے جو انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ سب کیا ہی عمدہ ساتھی ہیں‘‘۔ (النساء :69)
علامہ بغوی اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ آیت نبی کریمؐ کے آزاد کردہ غلام ثوبان کی شان میں نازل ہوئی، وہ رسول اللہؐ سے شدید محبت کرتے تھے اور آپ کو دیکھے بغیر ان کو قرار نہیں آتا تھا، ایک دن بارگاہ نبوی میں آئے، ان کا رنگ متغیر تھا اور چہرے سے اداسی نمایاں تھی، رسول اللہؐ نے ان سے فرمایا: تیرا رنگ پھیکا کیوں پڑگیا ہے، انہوں نے کہا: یارسول اللہ! نہ مجھے کوئی بیماری ہے اور نہ کوئی تکلیف ہے، سوائے اس کے کہ میں جب تک آپ کو دیکھ نہیں لیتا اور آپ سے ملاقات نہیں ہوجاتی، مجھے سخت وحشت لاحق ہوتی ہے، پھر مجھے آخرت کا خیال آیا تو مجھے اندیشہ ہو ا کہ میں وہاں آپ کو دیکھ نہیں سکوںگا، کیونکہ آپؐ تو انبیاء کرام کے ساتھ اعلیٰ مقامات پر ہوں گے اور اگر میں جنت میں داخل بھی ہوا، تو میرا مقام جنت میں آپ کے مقام سے بہت نیچے ہوگا اور اگر خدانخواستہ میںجنت میں نہ جاسکا، تو آپ کو ہمیشہ کے لیے نہیں دیکھ سکوں گا، تو یہ آیت نازل ہوئی‘‘۔
(تفسیر بغوی، ج:1، ص:659 )
ہنگامی حالات کے علاوہ عام حالات میں بھی صحابہ کرام رسول اللہؐ سے محبت اور تعظیم کے رشتے میں بندھے ہوئے تھے اور آپ کا بے انتہا ادب کرتے تھے اور حد درجے کی محبت کرتے تھے، جس کی گواہی آپؐ کے سخت ترین دشمنوں کو بھی دینی پڑی، صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہؐ کے ساتھ مذاکرات کے لیے قریش کا جو وفد آیا اس میںعروہ بن مسعود بھی تھے، امام بخاری لکھتے ہیں: وہ (عروہ بن مسعود) کن انکھیوں سے نبیؐ کے اصحاب کی طرف دیکھ رہے تھے جب بھی رسول اللہؐ تھوکتے تو وہ کسی نہ کسی صحابی کے ہتھیلی پر آجاتا وہ اس لعاب مبارک کو اپنے چہرے اور بدن پر ملتا اور جب آپ کوئی حکم دیتے تو وہ سب اس کی تعمیل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور جب آپ وضو کرتے تو وہ آپ کے وضو کے بچے ہوئے پانی کو لینے کے لیے اس طرح جھپٹتے تھے کہ گویا ایک دوسرے کو قتل کردیں گے اور جب آپ بات کرتے تو سب آپ کے سامنے اپنی آوازوں کو پست کرلیتے، آپ کی تعظیم کی وجہ سے وہ آ پ کو جی بھر کر دیکھ نہیں پاتے تھے۔
پھرعروہ اپنی قوم کے پاس واپس گئے اور کہا: اے لوگو! میں بادشاہوں کے پاس گیا ہوں، میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی کے پاس گیا ہوں، اللہ کی قسم میں نے کہیں نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے لوگ اْس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم (سیدنا) محمدؐ کے اصحاب آپ کی کرتے ہیں، اْن کے لعابِ دہن کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر ملتے ہیں، جب وہ ان کو کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو وہ سب اس کی تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وہ ان کے وضو کا بچا ہوا پانی لینے کے لیے اس طرح جھپٹتے ہیں گویا ایک دوسرے کو قتل کردیں گے اور جب وہ بات کرتے ہیں تو وہ سب ان کے سامنے اپنی آوازوں کو پست کرلیتے ہیں اور وہ ان کی عظمت وجلالت کے سبب ان کو جی بھر دیکھ نہیں پاتے‘‘۔ (بخاری: 2731)