تعدُّدِ ازدواج…

212

بعض اصحاب جو موجودہ فضا سے متاثر ہیں، کہتے ہیں کہ چار شادیوں کا ثبوت قرآن میں نہیں ہے، بلکہ یہ بعد کے مولویوں اور مذہب کے ٹھیکیداروں کی ایجاد ہے۔ اسی طبقے میں وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ چار شادیوں کا ذکر قرآن میں موجود تو ہے لیکن یہ ایک خاص ماحول میں تھا، اب وہ حالات نہیں رہے اس لیے اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔
بعض لوگوں نے چار شادیوں کے مسئلے کو ایک سیاسی مسئلہ بنادیا ہے اور ملک (ہندوستان) میں اس کے خلاف فضا بنا رہے ہیں۔ ان کے نزدیک چار شادیوں کی وجہ سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ ایک وقت آئے گا جب کہ ان کی آبادی ہندؤںکی آبادی سے زیادہ ہوجائے گی، اس لیے وہ ہندو بھائیوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ زیادہ بچے پیداکریں۔ وہ ایک سے زیادہ شادی کی مخالفت اس لیے نہیں کررہے ہیں کہ انہیں عورت سے ہمدردی ہے یا اسے وہ عورت پر ظلم سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ اس کی مخالفت اس لیے کررہے ہیں کہ اس سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ حالانکہ یہ خلافِ واقعہ بات ہے۔ اس پر ایک خاص پہلو سے غور کیا جاسکتا ہے۔
دنیا میں عورتوں اور مردوں کا ایک خاص تناسب ہے۔ یعنی جتنے مرد ہوں گے اتنی ہی عورتیں ہوں گی۔ اتفاق ہی سے کبھی ایسی صورت پیدا ہوسکتی ہے جس میں عورتوں یا مردوں کی تعداد ایک دوسرے سے زیادہ ہو۔ جیسا کہ موجودہ دور میں اس بات کی خاص طور سے کوشش کی جارہی ہے کہ لڑکیاں پیدا نہ ہوں اور رحم مادر ہی میں انہیں ختم کردیا جائے۔ عام طور سے دونوں کی تعداد تقریباً برابر رہتی ہے۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ جہاں ایک ہزار مردوں کے لیے ایک ہزار ہی عورتیں ہوں وہاں چار شادیوں کا رواج کیسے عام ہوسکتا ہے؟ آپ کسی بھی مسلم آبادی کا جائزہ لے کر دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں کتنے افراد ہیں جن کی ایک سے زیادہ بیویاں ہیں۔ ہمارے ملک میں عورتوں کا تناسب مردوں سے کافی کم ہے۔ اتراکھنڈ میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں آٹھ سو عورتیں ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج عام ہو۔
اس کے باوجود ہمارے ملک میں مختلف وجوہ سے ایک سے زیادہ شادیاں ہوتی ہیں۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ بعض دوسری قوموں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رواج مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں پہلی بیوی ہی کو حقیقی بیوی تسلیم کیا جاتا ہے۔ دوسری بیوی کو پہلی بیوی کا درجہ اور مقام حاصل نہیں ہوتا۔ دوسری بیویوں کو معاشرے میں جس حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور جس طرح وہ ظلم کا نشانہ بنتی رہتی ہیں، عدالتوں کو چاہیے کہ اس کا جائزہ لیں اور اس کے سد باب کی راہیں تلاش کریں۔ اسلام میںکسی شخص کے ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان فرق و امتیاز کو وہ جائز نہیں سمجھتا، بلکہ اس کا سد باب کرتا ہے۔