حقوق کے تحفظ کیلئے مزدوروں میں شعور اجاگر کرنا ہوگا،شمس سواتی

301

رپورٹ : قاضی سراج

نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر ظفر خان کی دعوت پر مشاورتی اجلاس 17 ستمبر کو مسجد قباء فیڈرل بی ایریا کراچی میں منعقد ہوا جس کی صدارت نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی نے کی۔ ذیل میں پروگرام کی رپورٹ پیش کی جارہی ہے۔
شمس الرحمن سواتی
نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ مزدور تحریک کے لیے کام کرنے والے خواہ وہ کسی بھی نظریے کے ہوں میں اُن کو سلام پیش کرتا ہوں۔ مزدوروں کو کوئی تقسیم نہیں کرسکتا ہے۔ مزدور سب بھائی بھائی ہیں اور مزدور جب تقسیم ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ ہمارا امشترکہ دشمن اُٹھاتا ہے جو کہ بہت چالاک ہے۔ ٹریڈ یونین ختم ہورہی ہیں۔آج اگر کوئی نکلے یا نہ نکلے لیکن کل کو ضرور نکلیں گے اور وہ نکلنا بہت خطرناک ہوگا سب کچھ بہالے جائے گا اس لیے ہم ان کو رہنمائی دیں۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو منظم طریقے سے نکالیں اور انہیں شعور دیں کہ اپنے تحفظ کے لیے کیا کرنا ہے۔ مزدور سے حقوق نہیں بلکہ زندگی چھینی جارہی ہے۔ جہاں تک رجسٹریشن کی بات ہے اس کے لیے کوئی نظام ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارا ٹارگٹ یہ ہونا چاہیے کہ ہم سب مزدوروں کو رجسٹر کروائیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم مزدوروں کو اُن کے حقوق دلائیں۔ کم از کم اُجرت پر عمل درآمد کروائیں، شادی بیاہ گرانٹ، علاج معالجہ اور تمام حقوق دلوائیں اور آج حالات کا تقاضا یہی ہے۔ ہم مزدوروں کی رہنمائی کریں تا کہ وہ بغیر قیادت کے نہ نکل سکیں ورنہ ہمارے لیے سنبھالنا مشکل ہوگا۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان میں لیبر رجسٹریشن کا کوئی نظام ہی نہیں ہے کسی بھی انڈسٹریل اسٹیٹ میں ٹریڈ یونین نہیں ملے گی۔ انڈسٹری جب لگائی جاتی ہے تو اُس کے سیفٹی کے اصول و ضوابط طے کیے جاتے ہیں لیکن آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ حادثات پر حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت لوگوں کے اندر بغاوت کا لاوا اُبل رہا ہے ہمیں اس لاوے کو اس کھوکھلے نظام کے خلاف استعمال کرنا چاہیے۔ یہ بھی کوئی نظام ہے کہ جرنیل اور جج کے لیے اعلیٰ اسپتال، اسکول، کالج ہوں اور مزدور سے اُس کا جینا بھی چھین لیا جائے۔ ایسا نظام مزید نہیں چلے گا اس میں ملک کا نقصان ہوگا۔ ہم مزدوروں میں شعور بیدار کریں گے تاکہ وہ اپنا ووٹ سانپوں کے منہ میں نہ ڈالے، آئندہ 10 ہزار ارب کرپشن ہوئی ہے، ٹیکس کن سے لیا جاتا ہے جو 100 روپے روزانہ کماتے ہیں، ماچس/ صابن اور دیگر چیزیں خریدنے والے ٹیکس دیتے ہیں۔ لیکن جو اربوں روپے کمارہے ہیں وہ کوئی ٹیکس نہیں دے رہے آج ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے اور اس بات میں میں بالکل کلیئر ہوں کہ اس جنگ میں جو ظالم کا ساتھ دے گا وہ خود ظلم کا شکار ہوجائے گا۔
شفیق غوری
سندھ لیبر فیڈریشن کے صدر محمد شفیق غوری نے کہا کہ مزدور مسائل پر ابتر صورتحال کی ذمہ دار موجودہ حکومتی پارٹی ہے۔ سندھ کی حکومتی پارٹی تو بڑے فخر سے قانون پاس کرواتی ہے اور اس کا کریڈٹ بھی لیتی ہے لیکن اس پر عملدرآمد بہت مایوس کن ہوتا ہے۔ مزدوروں کے حق میں قانون سازی کرنا ایک مشکل مرحلہ تو ہے لیکن قانون پر عملداری کروانا اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کروایا جائے۔ اس وقت سندھ میں سوشل سیکورٹی اور سندھ ویلفیئر ورکرز بورڈ پر بالادستی اور اجارہ داری سیاسی قوتوں کی ہے جس میں سرفہرست پیپلز پارٹی ہے۔ سندھ ویلفیئر ورکرز بورڈ کے فنڈ مین کوئی پیسہ حکومت کا نہیں ہوتا ہے یہ تو آجروں کا پیسہ ہوتا ہے۔ بورڈ کی نمائندگی میں اُن لوگوں کا حق ہونا چاہیے جو گرائونڈ پر ٹریڈ یونین چلا رہے ہوں اور وہ زمینی حقائق سے باخبر ہوں۔ لیکن اس کے برعکس اداروں میں وہی لوگ موجود ہیں جن کے افسران بالا کھانچے فکس ہیں۔
غلام محبوب
PC ہوٹلز ورکرز فیڈریشن کے رہنما غلام محبوب نے کہا کہ میں نے 30 سال پہلے اپنی جدوجہد کا آغاز NLF کے دفتر سے کیا تھا۔ NLF نے ہمیں سکھایا کہ مزدوروں کی جدوجہد کیسے کی جاتی ہے۔ خالد خان کے دور میں NLF میں اک نئی روح آئی اور اُس کا Credit میں خالد خان کو دوں گا۔ میرے خلاف چرس رکھوائی گئی، منشیات فروشی کے کیس بنائے گئے، سول ایف آئی آر کاٹی گئی اور مختلف کیسوں میں مجھے پھنسایا گیا لیکن تب سے لے کر اب تک میں اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹا۔ اصل میں مسئلہ یہی ہے کہ ہمارے مزدور لیڈر دبائو برداشت نہیں کرپاتے اور یہی جدوجہد کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے۔ عمران خان نے بھی 6 کروڑ روپے سندھ ویلفیئر ورکرز بورڈ کے فنڈ سے ڈیم فنڈ میں دیے، اس سے پہلے بھی اسی ورکرز فنڈ سے 30 کروڑ روپے حکومت نے نکالے، اس میں تو حکومت کا ایک پیسہ نہیں ہوتا ہے تو پھر کیوں اپنے منصوبوں کے لیے مزدوروں کے فنڈ سے حکومت خرچ کرتی ہے۔PC ہوٹلز میں زبردستی ملک سے 2000 لوگ فارغ کیے گئے حالانکہ قانون یہ ہے کہ کسی کو جبری ہٹانے پر 10 لاکھ جرمانہ عاید کیا جاتا ہے۔ جہاں تک تعلق ورکرز ویلفیئر بورڈ کا اس میں ہوتا یہ ہے کہ 40 فیصد مزدور نمائندگی 40 آجر صاحبان اور 20 فیصد سرکاری لوگ ہوتے ہیں لیکن یہاں 40 فیصد پی پی پی چھائی ہوئی ہے اور NGO نے تو سارا بیڑا غرق کیا ہوا ہے۔ ٹھنڈے ہوٹلز میں بیٹھ کر منرل واٹر پی کر خاک مزدوروں کا احساس کیا جاسکتا ہے۔ ٹریڈ یونین کے فیصلے سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ میں نے سعید غنی سے جب وہ لیبر منسٹر تھے بات کی تھی کہ آپ لوگ جب گھروں کی تعمیر کرواتے ہیں مزدوروں کے لیے تو ایسا کریں کہ جس منصوبے پر جو رقم خرچ ہوتی ہے وہ فی بندہ کے حساب سے مزدوروں میں تقسیم کیا جائے، کیونکہ مزدوروں کے ریٹائرمنٹ کے بعد میڈیکل کی سہولتیں ختم ہوجاتی ہیں وہ یہ رقم اپنی صحت یا دوسری ضروریات میں صرف کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ منصوبے ہی جیبیں بھروانے کے لیے شروع کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم آج مزدوروں کو اُن کے جائز حقوق دلوانے کے لیے جمع ہوئے ہیں تو اس کا واحد حل یہی ہے کہ مزدوروں کو روڈ پر لایا جائے اگر ہم ایک لاکھ بندہ باہر لانے میں کامیاب ہوگئے تو ہمارے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔
بخت زمین
سائٹ لیبر فورم اور ہیلکس فارما CBA یونین کے جنرل سیکرٹری بخت زمین نے کہا کہ 1996ء میں ٹھیکیداری نظام کے خلاف میں نے یونین بنائی۔ جس پر مجھے نوکری سے برخواست کیا گیا۔ 5 سال بعد سپریم کورٹ کے آرڈر پر مجھے بحال کیا گیا۔ میکٹر میں بھی یونین بنائی۔ سائٹ انڈسٹریل ایریا میں تقریباً 5000 کارخانے ہیں اس وقت جس میں سے ہم نے سائٹ لیبر فورم کے تحت 27 ٹریڈ یونین کی میٹنگ بلائی اور مزدوروں کے مسائل پر بات چیت کی۔ سندھ میں صرف کاغذوں کی حد تک ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ ہوا ہے۔ ہم نے سائٹ میں بہت جدوجہد کی لیکن اُس کے نتیجے میں ہمارے ورکرز آج تک عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ ہم اس وقت مزدور تحریک کے لیے مزدور کو باہر نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ہمیں اپنے حقوق کے لیے اسمبلی میں اپنے نمائندے پہنچانے ہوں گے جو ہمارے حقوق کی جنگ لڑ سکیں۔
سفیر مغل
کوکا کولا ورکرز فیڈریشن کے رہنما سفیر مغل نے کہا کہ نیشنل لیبر فیڈریشن ایک موثر پلیٹ فارم ہے مزدوروں کے مسائل کو اُجاگر کرنے کے لیے اور اُن کے حق میں یہاں سے ہمیشہ آواز اُٹھائی گئی ہے۔ آپ یقین کریں کہ مل ایریا کے مزدوروں کی اکثریت ریڑھ کی ہڈی میں درد کا شکار ہیں۔ پورا انفرا اسٹرکچر تباہ ہے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں، فیکٹریوں میں سیفٹی کے لیے کچھ ہوتا نہیں ہے، یہ مالکان ہمیں صرف اتنا دیتے ہیں کہ ہم زندہ رہ کر ان کے مل کارخانے چلا سکیں۔ باقی ہم آپ کے ساتھ ہیں آپ مزدوروں کے لیے جو قدم اُٹھائیں گے ہم ہر قدم پر آپ کے ساتھ ہیں۔
نظام الدین شاہ
نیشنل لیبر فیڈریشن سندھ کے صدر سید نظام الدین شاہ نے کہا کہ میں 37 سال سے لیبر فیلڈ میں ہوں سکھر سے تعلق ہے اب بھی جدوجہد کررہا ہوں۔ علی انٹر پرائز کے متاثرین کا کیا ہوا وہ جو جرمنی سے اُن کے لیے فنڈ آیا تھا وہ کہاں گیا کیسے استعمال ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مزدوروں کو اپائمنٹ کارڈ نہیں ملتے ہیں نہ ہی سوشل سیکورٹی کارڈ ملتے ہیں، ایک بدترین نظام ہے جس میں مزدور پس رہے ہیں یہ نظام سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں صرف صنعت کاروں کو نوازا جاتا ہے۔
پروگرام کا آغاز مزدور رہنما نظام الدین شاہ نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ مزدور رہنما ظفر خان نے نظامت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیے۔