کراچی میں برسات سے آگ لگتی رہے گی

1195

کر اچی میں رواں سال کی برسات جارہی ہے لیکن 25 اور27اگست کی بارشوں نے کراچی میں تباہی مچادی ہے۔ شہر کے سروے کے دوران پتا چلا کہ 80فی سے زائد کراچی کی رہائشی آبادی،صنعتی ادارے اور بازار و تجارتی مراکز اور شاپنگ سینٹرز کو شدید بارشوں سے بھاری نقصان کا خدشہ ہے۔ کما ل بالاء کمال وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علیٰ شاہ نے 25اگست کو فرمایا ہے کہ پورے سند ھ میں جہاں کے لوگوں پی پی پی کو ووٹ دیا ہے وہاں کے منتخب عوامی نمائندے کی ہر طرح سے عوام کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ وزیر اعلیٰ کے بیان کو سنتے ہی 29 اگست کو میں نے لیاری کا چکر لگا یاجہاں سے پی پی پی کے بانی سابق وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو ان کی بیٹی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور پی پی پی کے متعدد ارکا نِ قومی وصوبائی اسمبلی ملک میں ہو نے والے ہر انتخاب میں کامیا ب ہو تے رہے ہیں اور وزیر اعلیٰ سند مراد علی شاہ نے چند دن قبل ہی اس کو کیماڑی ضلع کا درجہ دیا ہے ۔ لیاری میں تین دن سے بجلی نہیں ہے او ر ہر گلی گڑر بنی ہو ئی ہے۔ پی پی پی نے کراچی کی بارے میں اس طرح کی باتیں پہلے بھی کی ہیں ۔
بھٹو دور سے پی پی پی کر اچی سے سوتیلے پن کا سلوک کر تی رہتی ہے لیکن کر اچی سے 25سال کامیاب ہونے والی متحدہ نے بھی کر اچی کچھ نہیں دیا ۔حقیقت یہ ہے متحدہ اور پی پی پی کے اتحاد نے ہمیشہ کر اچی کو برباد کیا ہے ۔کراچی سمیت سندھ بھر میں شدید بارشوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ کراچی کی غریب آبادی بارشو ں سے زیادہ متاثر ہو اہے ۔ منگل اور جمعرات کی غیر معمولی موسلا دھار بارش کے دوران یہی طبقہ اپنے گھروں اور دیگر تمام سامان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لہٰذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر مالی مدد کی صورت میں متاثرین کو ریلیف فراہم کرنا چاہیے۔ متاثرین کو رہائش کے لیے متبادل جگہ اس وقت تک دی جائے جب تک کہ ان کے تباہ شدہ گھروں کو حکومت کی مالی مدد سے دوبارہ تعمیر نہیں کیا جاتا ۔ یہ کااحکومت اس کی وجہ یہ ہے عوام کی املاک کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔متاثرہ افراد کو مالی اعانت فراہم کرنے کے لیے قومی خزانے سے دستیاب فنڈز کا استعمال کرناچاہیے تاکہ وہ اپنے مکانات دوبارہ تعمیر کرسکیں اور جلد سے جلد اپنی زندگیوں کو بحال کرسکیں۔
ہماری تحقیق کے مطابق صوبائی سیٹ اپ میں متعلقہ محکموں کے پاس کراچی کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو کا بہت بڑا کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت موجود نہیں ہے لیکن خوش قسمتی سے این ڈی ایم اے اور ایف ڈبلیو او کے پاس انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو کا کام فوری طور پر شروع کرنے کے لیے مشینری، افرادی قوت اور مہارت سمیت مطلوبہ صلاحیت موجود ہے لہٰذا انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو کا کام سمیت سیوریج لائنوں، پانی و بجلی کی تقسیم کے نظام، سڑکوں کی تعمیر نو اور دیگر شہری سہولیات وغیرہ کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے این ڈی ایم اے اور ایف ڈبلیو او کو فوری طور پر یہ تمام کام سونپے کی اشد ضرورت ہے۔جسارت مسلسل کراچی کے انفراسٹرکچر کے مسئلے کو مستقل طور پر اجاگر کرہا ہے۔ کراچی کے انتہائی خستہ حال انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو کا کام بہت ضروری ہے۔کر اچی میں سیاستدان اپنی سیاست ضروری جاری رکھیں لیکن کراچی کے تباہ حال انفرااسٹرکچر کے سب سے بڑے مسئلے کو سیاست کی نذ ر اور نظراندازنہ کیا جائے۔ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے پریشان حال کراچی والوں کو ریلیف ملے پچھلی دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ سے مشکلات سے دوچار ہیں اور انہیں حکومت کی سراسر غفلت کی وجہ سے پورے کراچی کی ٹوٹی پھوٹی اور تقریباً ناکارہ سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے انتہائی پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔
کرا چی میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو کا کام سمیت سیوریج لائنوں، پانی و بجلی کی تقسیم کے نظام، سڑکوں کی تعمیر نو کام شروع کر نے سے قبل ہی وزیر اعلیٰ سند ھ نے 10 ارب ڈالر کا خرچہ مانگ لیا ہے ۔ اس کا صاف پتا چلتاہے کہ حکومت کام سے پہلے اس منصوبے سے کچھ اپنا بھی خیال کر نے کی فکر میں لگی ہو ئی ہے۔اس صورتحال سے کرا چی میں بہتری کے بجائے “کراچی میں برسات سے آگ لگتی رہے گی”
“وزیر اعلیٰ سند ھ کو 10ارب ڈالر کا خیال کہاں سے آیا یہ بھی ایک سوالیہ نشان اور ایسامحسوس ہو رہا کہ اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ مون سون کی بارشوں نے کراچی کو تباہ کر دیا ہے جبکہ مرکزی صوبائی اور شہری حکومت کے محکموں کی نا اہلی کو بھی روز روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے۔نکاسی کا انتظام نہ ہونے کے سبب بارش کا پانی کارخانوں ،گھروں اور دکانوں میں داخل ہو گیا ہے جس سے عوام اور کاروباری برادری کومجموعی طور پرکھربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔حکومت اس شہر کو آٖفت زدہ قرار دے ، ہر قسم کے ٹیکس ایک سال کے لئے معاف اور کاروبار وں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے بلا سود قرضے اور پیکیج دئیے جائیں۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ زیر تعمیر منصوبوں کو بھی بارش سے بہت نقصان پہنچا ہے، گوداموں میں پڑا ہوااربوں روپے کا تعمیراتی سامان، اشیائے خورد و نوش کے ذخیرے ، برآمدی اشیاء اور دیگر چیزیں ضائع ہو گئی ہیں، بجلی اور گیس بند ہے ، گٹر اُبل رہے ہیں،واٹر بورڈ کا کام معطل ہے جبکہ صنعتیں، ایکسپورٹ اور امپورٹ بند پڑی ہے۔ مرکزی صوبائی اور شہری ادارے مسائل حل کرنے سے زیادہ الزام تراشی میں دلچسپی لے رہے ہیںاوراپنی عدم کا رکردگی کاجواز90سالہ ریکارڈ ٹوٹنے کو بتا رہے ہیں جس سے شہریوں کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ کراچی میں گورننس کا نظام کئی دہائیوں سے مسلسل انحطاط کا شکار ہے ۔ملک کے سب سے اہم شہر کراچی کے لئے ہمیشہ ایمرجنسی اقدامات کئے جاتے ہیں مگر مسائل کا مستقل اور دیرپا حل نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو ملکی معیشت سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔کراچی کے حالات اس حد تک بگاڑے گئے ہیں کہ ریکارڈ بارش تو کیا معمولی بارش بھی کروڑوں کی آبادی کے اس شہر کو مفلوج کر دیتی ہے جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ جبکہ ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔بارشوں کے نقصانات اور چالیس سے زیادہ افراد کی ہلاکت کے بعد صوبائی حکومت نے ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی ہیں جو نا قابل عمل ہے کیونکہ وہ کام تو اس وقت کریں گے جب اپنے دفتر پہنچیں گے کیونکہ تمام سڑکیں دریا بن چکی ہیںاور شہر کا زیادہ تر حصہ زیر آب ہے۔جب تک پی ٹی آئی ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے سیاستدان الزامات کی سیاست کے بجائے متحد ہو کر لوٹ مار کے کلچر کو ختم اور کراچی کے انفراسٹرکچر کو بہترنہیں بناتے شہر کی حالات خراب ہی رہے گی ۔ موجودہ انفراسٹرکچر بارش برداشت نہیں کر سکتا اور اسکی کمزوری سے ملکی معیشت مسلسل متاثر ہوتی رہے گی۔کراچی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اعلیٰ حکام کی جانب سے ہر بار وضاحتیں پیش کرنا اب آپشن نہیں رہا ہے۔
یونائٹیڈ بزنس گروپ(یو بی جی)کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم منیر،سیکرٹری جنرل زبیرطفیل،مرکزی ترجمان گلزارفیروزاورسندھ ریجن کے چیئرمین خالد تواب نے کراچی میںحالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں پر تشویش کا اظہار کر تے ہو ئے وفاقی اور سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ شہر میں ہنگامی بنیادوں پر سرکاری سطح پر متاثرہ افراد میںراشن ، خیموں اور دیگر ضروری سامان کی تقسیم کا سلسلہ عملی بنیادوں پر شروع کیا جائے اورتاجروں کے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ایس ایم منیر نے کہا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن کراچی میں 90 سالہ تاریخ کا بدترین مون سون ہے اور شہر بھر میں سیلابی صورتحال ہے،اگر حکومت پہلے سے متوقع شدید بارشوں سے ہونے والے نقصان کی روک تھام کے لیے حکمت عملی تیار کرتی اور شہر بھر کے کچے نالوں کی صفائی اور نالوں کے اطراف میں قائم کچی آبادیوں کا خاتمہ کرتی تو اتنا نقصان نہ پہنچتا۔ زبیرطفیل نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیاست کو بالائے طاق رکھ کر ریلیف کی کوششیںمزیدتیز کریں اور متاثرین کو کھا نا اور دیگر سامان فراہم کریں اور تاجروں کوپہنچنے و الے نقصان کو پورا کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ستم ظریفی ہے کہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہربدحال ہے،کاروباری طبقہ برسوں کی محنت کے بعد جمائے گئے کاروبار کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے، حالیہ بارشوں کی وجہ سے شہریوں اور تاجروں کا کروڑوں روپے کا نقصا ن ہوچکا ہے لیکن حکمرانوں کو ملک کے سب سے بڑے شہر اوربزنس حب کراچی کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔خالدتواب اور گلزارفیروزنے کہا کہ شہر میں نکاسی آب کا کوئی مئوثر نظام موجود نہیں ہے اور بارشوں کے سبب کراچی کی سڑکیں دریاکے مناظر پیش کررہی ہیں سیاسی جماعتوں نے کراچی کے شہریوں کو لاوارث چھوڑدیا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔یو بی جی رہنمائوں نے پاک افواج اور رینجرزکے جوانوں اور سماجی تنظیموں کوشہریوں کی مدد کرنے پر خراج تحسین پیش کیا اورمطالبہ کیا کہ کراچی کے تاجروں اورصنعتکاروںکو ایک سال کا ٰکس ریلیف دیا جائے کیونکہ کاروباری طبقہ پہلے ہی کورونا وائرس کی وجہ سے بدترین صورتحال سے دوچار تھا اور اب تاریخ کی سب سے شدید بارشوں نے تاجربرادری کو کنارے لگا دیا ہے۔
کراچی سندھ تاجر اتحاد کے چیئرمین اور مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے وائس چیئرمین شیخ حبیب نے کہاہے کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے کراچی میں جو بربادی ہوئی ہے اس طرح کی صورتحال کا سامنا اس شہر کو کبھی نہیں ہوا ہے۔ اپنے ایک بیان میں شیخ حبیب نے کہا کہ ناقص سیوریج کے نظام کی وجہ سے بارش میں نہ صرف کراچی کے عوام اپنے گھروں میں محفوظ رہے اور نہ ہی دکانوں میں موجود سامان محفوظ رہا ۔شیخ حبیب نے مزید کہا کہ کراچی کی بربادی کا حال پاکستان اور دنیا بھر کے سامنے ہے ،چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف سے کراچی کے 3 کروڑ عوام اورتاجربرادری مطالبہ کرتی ہے کہ ہر وہ شخص کا جو کراچی کا سیاسی دعویدار بنتا ہے ان سب کاکڑے سے کڑا احتساب کیا جائے۔شیخ حبیب کا کہنا تھا کہ گزشتہ30برس کے دوران سیاسی جماعتوں نے کراچی کو لوٹ کر کھایاہے لیکن اس شہر کی ترقی کے لیے اقدامات آج تک نہیں کیے گئے ،آج بھی صرف اور صرف سیاسی دعوے داری کاڈھونگ کررہے ہیں۔شیخ حبیب نے کہا کہ ان ڈھونگ کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ کراچی کی بربادی اور تباہی کا ذمے دار کون ہے ،کراچی کے عوام اور تاجر برادری کومشکلات سے دوچار کرنے والا کون ہے ،اس شہر کا سیاسی دعویٰ کرنے والوں نے عوام کو اکیلا چھوڑ دیا ہے، ناقص منصوبہ بندی اور صرف لوٹ مار کی وجہ سے بارش سے شہر کے تمام تجاری مراکز اور علاقے زیر آب آگئے اور مالی طور پر لوگوںکوکروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے ۔
jasarat.qazijavaid@gmail.com