قومی اداروں کی نجکاری ملکی مفاد میں نہیں‘ ظفر خان

287

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ 70ء کی دہائی تک پاکستان کی صنعتی ترقی تیز ترین تھی اور یوں لگتا تھا کہ ملک جلد ہی صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں کھڑا ہوجائے گا۔ مگر مختلف ادوار میں پاکستان کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی بناء پر پاکستان اپنی صنعتی و معاشی ترقی برقرار نہ رکھ سکا۔ گوکہ ملک میں اب بھی بے انتہا پوٹینشل موجود ہے مگر رفتہ رفتہ ہم آزاد معاشی و اقتصادی پالیسیوں سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں اور FATF و آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے اور ان قرضوں و سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لیے چلے جارہے ہیں۔
پاکستان میں پبلک سیکٹر کے اداروں یعنی اسٹیٹ اون انٹرپرائزز کی نجکاری کے لیے بھی ملک میں پرائیویٹائزیشن کمیشن تشکیل دیا گیا اور اس کا جواز یہ بتایا گیا کہ ملک کے قرضوں کے بوجھ کو اُتارنے اور کم کرنے کے لیے ان قومی اداروں کو بیچ کر سرمایہ حاصل کیا جائے گا تا کہ قرضوں کے بوجھ سے جان چھڑائی جاسکے۔ واضح رہے کہ ملک کی معاشی پالیسی مرتب کرنے کے لیے اب آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے ساتھ ٹیم بھی IMF کی رکھ لی گئی ہے۔ حتیٰ کہ ملک کا بجٹ بھی وہی ٹیم تشکیل دے رہی ہے۔ جس میں یہ تک طے کیا جاتا ہے کہ بجلی و پٹرول کے نرخ کیا ہوں گے، کونسی اشیاء پر مزید ٹیکس لگے گا اور کس اشیاء و خدمات پر ڈیوٹی میں اضافہ ہوگا۔ لہٰذا اس ہی دبائو کی بناء پر مختلف حکومتوں نے قومی اداروں اور اثاثوں کی نجکاری کا آغاز کردیا۔ ابتداء میں ہی پی ٹی سی ایل، کوٹ ادو پاور پلانٹ اور بینکس کی نجکاری کردی گئی مگر پاکستان میں اول دن سے نجکاری کا عمل شفاف نہیں رہا اور حکمرانوں نے اپنے اپنے اثاثوں کو بڑھانے اور بیرون ملک اپنے بینک اکائونٹس اور پراپرٹی بنانے کا منافع بخش ذریعہ بنالیا۔ MCB مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کی شفافیت پر اب تک سوالات موجود ہیں۔ جبکہ پی ٹی سی ایل جو ملک کا سب سے بڑا ریونیو دینے والا منافع بخش ادارہ تھا اس کی نجکاری کے وقت جو قیمت طے پائی وہ بھی اب تک پوری ادا نہیں کی گئی۔ پی ٹی سی ایل کی زمینوں کا تنازع آج تک برقرار ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیل مل کی نجکاری کو غیر شفافیت اور زمین کی قیمت شامل نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان 2006ء میں روک چکی ہے۔ قومی اداروں کی غیر شفاف نجکاری اور اونے پونے داموں فروخت کرنے کے عمل جس پر سپریم کورٹ بھی اپنا ٹھپہ لگا چکی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ پرائیویٹائز کیے گئے ادارے کی کارکردگی کا ہے۔ بینکس کے علاوہ دیگر تمام ادارے جس میں کراچی کو بجلی سپلائی کرنے والا ادارہ KE بھی شامل ہے کس طرح آف شور کمپنیوں کے ہاتھوں میں یہ ادارے فروخت کیے گئے اور کس طرح عوام اور حکومتیں ان اداروں کے آگے بے بس ہیں اور کارکردگی بہتر ہونے کے بجائے خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ادارے تو پرائیویٹائز ہونے کے بعد بند ہوگئے اور آج ان اداروں کی زمینوں کو ہائوسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کردیا گیا۔
تیسرا بڑا اور اہم ترین مسئلہ پرائیویٹائز کیے گئے اداروں سے فارغ کیے گئے مزدوروں کا ہے۔ پی ٹی سی ایل میں نجکاری سے قبل 7000 سے زائد مزدور تھے جو اب دس ہزار رہ گئے۔ KE میں چالیس ہزار سے زائد مزدور تھے انہیں ڈیوٹی پر برقرار رکھنے کے لیے فی یونٹ غالباً 50 پیسے کا اضافہ کیا گیا جو آج تک KE وصول کررہی ہے۔ مگر ملازمین کو جبری فارغ کرکے گھر بھیج دیا گیا اور آج 8 سے 10 ہزار مزدور مستقل ملازمت پر ہیں۔ پاکستان اسٹیل کی دوبارہ نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا معاملہ ابھی پراسس میں ہے۔ مگر پاکستان اسٹیل کے تمام ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور کابینہ نے منظور کرلیا۔ KPT اور پورٹ قاسم پر موجود برتھوں اور ملک کے ایئر پورٹس کو بھی غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کا ملک اور قوم کو فائدے کے بجائے نقصان ہے۔ جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔