سیسی کے ڈائریکٹر ویجیلنس ایک بار خبروں میں

224

محکمہ محنت سندھ کے ادارے سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کے حوالے سے کافی عرصہ سے مختلف خبریں گاہے بگاہے منظر پر آتی رہتی ہیں۔ اور ان خبروں اور اطلاعات کی بنیاد پر ماضی میں اینٹی کرپشن اور نیب نے جب تحقیقات کا آغاز کیا تو کروڑوں روپے کی انکوائریاں اب تک ریفارنس اور ایف آئی آر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ خبر آنے پر عموما ادارہ اور اس کے سرپرست حقائق کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ لیکن جب تحقیات ہوتی ہیں تو پھر میڈیا کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ حیدرآباد آفس میں انکم ٹیکس کا غبن ہو یا سیسی کے ہسپتال میں فراڈ سیسی کی انتظامیہ کا رویہ ایسی ہی رہا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک نجی چینل نے سندھ سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن میں کرپشن کے حوالے سے پروگرام کئے ہیں جس میں دعوا کیا گیا کہ ڈائریکٹر ویجیلنس نادر قناصرو ہر جمعہ کے روز سیسی کے تمام لوکل دفاتر سے ہفتہ وصول کرتے ہیں اور مبینہ طور پر یہ رقم تین کڑوڑ روپے ماہانہ بنتی ہے۔اس کے علاوہ نادر قناصرو کے 2002 کی نگراں دور حکومت میں غیرقانونی اپائنٹمنٹ کا ذکر بھی کیا گیا کیونکہ کسی بھی نگراں حکومت کو کسی بھی ادارے میں اپائنٹمنٹ کا اختیار نہیں ہوتا ہے اس حوالے سے عدالتوں کے کئی فیصلے موجود ہیں۔ اس پروگرام میں دستاویزات کے ساتھ ان کے موجودہ پرموشن کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا ہے کیونکہ انھیں 2012 میں سندھ ہائی کورٹ کیس نمبر 2190/2012 میں اور بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان ان کی اس وقت کی ترقی کو تنزلی میں تبدیل کرتے ہو? دوبار? گریڈ 16 میں سوشل سیکورٹی آفسر بنا? جانے کا حکم دے چکی ہے۔ ان سنگین الزامات کی تاحال نہ تو متعلقہ ڈئریکٹر نے اور نا ہی کمشنر سیسی یا ان کے پبلک ریلشن ڈیپارٹمنٹ نے تردید کرنے کی زحمت فرمائی ہے جس سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا ہے۔