بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائم کے سامنے حکومت بے بس ؟

381

قموس گل خٹک
میڈیاپر حکومتی دعووں سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت سندھ نے بھتہ خوروں سٹریٹ کرائم، کرپشن اور اندرون سندھ ڈاکووں کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ان جرائم میں ملوث افراد کی کمر توڑ دی ہے مگر حکومتی دعووں کو زمینی حقائق اور عوامی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو لوگ سوال کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کو حکومت کے دعووں پر اعتماد نہیں ہے لوگ تو میڈیا پر حکومت کے بلند بانگ دعوے سن کر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف یہ کاروائیاں کہاں اور کس جگہ ہوئی ہیں؟ شائد حکمرانوں کے نقطہ نظر سے عوام کو ایسی کاروائیوں سے باخبر رکھنا بھی ضروری نہ ہو لیکن جب کوئی مثبت تبدیلی آتی ہے تو عوام کو خود بخود پتہ چل جاتا ہے جیساکہ چند سال پہلے ضلع حیدرآباد میں ایک سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس کی تعیناتی سے پورے سندھ کے عوام کو امن و آمان کی تبدیلی کا پتہ چل گیا تھا جس نے حیدرآباد کی تاریخ میں پہلی اور شائد آخری بار جرائم پیشہ افراد کے خلاف ایسا کریک ڈاؤن کیا تھا کہ ہر قسم کے بھتہ خور ؤاور دیگر جرائم پیشہ لوگ پولیس کے کریک ڈاؤن سے خوفزدہ ہوکر دوسرے صوبوں میں روپوش ہوگئے تھے کیونکہ ان کو یقین ہوگیا تھا کہ اب مجرم عدالتی نظام کی کمزوریوں کا فائدہ بھی نہیں اٹھاسکیں گے بلکہ بروقت فل فرائی اور ہاف فرائی کے فارمولے سے اپنے کالے کرتوت کا حساب دیں گے میں نے خود اس پولیس افسر کو موٹر سائیکل ڈیلر ایسوسی ایشن کے عشائیہ میں تقریر کرتے سنا انہوں نے کہا تھا کہ حیدرآباد شہر کی ہماری مائیں اور بہنیں سن لیں کہ میں ان کے زیورات پرس موبائل کا محافظ ہوں اگر میرے ہوتے ہوئے آپ سے یہ چیزیں کوئی چھین لیں تو اس کی مالیت میرے پاس آکر وصول کریں کیونکہ میں عوام کے تحفظ کی تنخواہ اور مراعات لیتا ہوں اگر کوئی آپ سے موٹر سائیکل چھین کر بھاگ جائے تو اس کی قیمت مجھ سے وصول کریں ۔اس کے ذمہ دار کو پکڑ کر سزادلوانا میرا کام ہے میں نے گھر یلو خواتین کو اس پولیس افسر کو غیر موجودگی میں دعائیں دیتے سنا ہے ۔حالانکہ عام طورپر ہمارے ملک کے عوام پولیس سے بدگمان ہوتے ہیں یہ بھی آنکھوں سے دیکھا کہ جب اس ایس ایس پی کا حیدرآباد سے تبادلہ کیا گیا تو جرائم پیشہ گروہوں نے مٹھائیاں تقسیم کی اور حیدرآباد واپس آکر اپنی کاروائیاں شروع کی ۔ گوکہ سندھ پولیس میںسب سے زیادہ شہرت یافتہ دیانتدار افسر ہمیشہ رہے ہیں اور آج بھی کئی
افسراعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں مگر وہ حکمرانون کیلئے استعمال نہیں ہوسکتے اس لئے صوبائی حکومت کی من مانی کاروائیوں میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں اے ڈی خواجہ ، ثناء اللہ عباسی اور دیگر قابل ذکر ہیں ۔جن پر ملک کے عوام فخر کرسکتے ہیں ۔اگر ضلع حیدرآباد میں ایک پولیس افسر عوام کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے تو پھر آج پورے صوبے میں کھلے عام بھتہ خور کرپٹ افراد اور دیگر جرائم میں ملوث گروہ کیوں مجرمانہ کاروائیاں کرتے ہیں ؟ پچھلے دنوں سندھ میں پولیس اور رینجرز پر جو مجرمانہ حملے ہوئے اور سٹاک اییکسچینج پر جو قابل مذمت حملہ کیا گیا جس کی ذمہ داری میڈیا کے مطابق بی ایل اے نے قبول کی جنہیں بلوچستان میں ریاست کے خلاف کاروائیوں میں بھی ملوث بتایا جاتا ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے بی ۔ایل ۔اے کی تنظیم کھلے عام بلوچستان میں کول کمپنیوں میں کام کرنیوالے محنت کشوں کو اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں لاتعداد غریب مزدوروں کو تاوان کی مظلوبہ رقم نہ ملنے پر شہید کرچکی ہے اور حکومتی تحفظ نہ ملنے کی وجہ سے مجبور ہوکر کول کمپنیوں کے مالکان اس تنظیم کو پروڈکشن پر فی ٹن باقاعدگی سے بھتہ ادا کرتے ہیں یہ کوئی پوشیدہ نہیں کھلے عام کوئلے کا کام چلانے
کیلئے سسٹم کی شکل اختیار کرچکا ہے اور اس کے اثرات سندھ میں لاکھڑا کول فیلڈ ضلع جام شورو پر کئی سال پہلے پڑنا شروع ہوئے لیکن متعلقہ پولیس نے مقامی سیاستدانوں کے دباؤ پر ان بھتہ خوروں او رلینڈ مافیا کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جس کے نتیجے میں لاکھڑا کول فیلڈ میںاب بالکل بی ایل اے کے طرز پر جرائم پیشہ گروہ سرگرم عمل ہیں ۔ کوئلہ مقررہ مقدار سے دوٹن زیادہ گاڑیوں میں لوڈ کروانا مخصوص افراد کے ٹرکوں میں روایتی طورپر بیلچوں سے کوئلہ بھرنے کی بجائے ڈائریکٹ مائن سے بوری کے ذریعہ ٹرکوں میں جبری لوڈ کرنا۔ تیل چوری کرنامائینوں کے اندر تحفظ کیلئے لگانے والے گٹو (لکڑی) کو زبردستی گھر لیجاکرایندھن کے طورپر استعمال کرنا ۔ کول کمپنیوں کو نئے مائن لگانے پر بلیک میل کرنا اور پڑوس کے دعویٰ پر بغیر کام کے چوکیدار کے برابر بھتہ مانگنا اس وقت چھوٹی کول کمپنی سے 48یا 50لوگ جبری بھتہ وصول کرتے ہیں اور ہر بھتہ خور گھر کے لئے پورا ٹینکر پانی کا مطالبہ کرتا ہے اگر ان کی ناجائزبات نہ مانی جائے تو چند افراد اسلحہ کے زورپر کمپنی کا کام بند کردیتے ہیں اورمتعلقہ پولیس میں شکایت کرنے سے کوئی فائدہ نہیںہوتا اسلئے یہ بھتہ خور جو چاہتے کول کمپنی کے مالکان سے منوانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔اگر اس گروہ سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد چوری کرتے ہوئے بھی پکڑا جائے تو کام بند کرانے کے خوف سے کمپنی اس کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کرسکتی ۔ یہ علاقہ غیر میں نہیں ضلع جام شورو کے علاقے لاکھڑا کول فیلڈ میں کھلے عام ہورہاہے ہر مہینے ایسے افراد کسی نہ کسی کمپنی کو جبری بند کراتے ہیں جب CBAیونین کام بند ہونے پر اعتراض کرتی ہے تو بعض مقامی سیاسی افراد اس کو لسانی رنگ دیکر ان جرائم پیشہ افراد کی حمایت کرتے ہیں 7جون 2020کو احمد کول کمپنی اور پریمئر کول کمپنی دونوں کو بھتہ خوروں نے بزور اسلحہ بند کرادیا جس میں
کام کرنے والے دوسو کارکن ابھی تک بے کار بیٹھے ہیں البتہ اس بار لاکھڑا کی تاریخ میں پہلی بار جرائم پیشہ افراد کے خلاف FIRدرج ہوئی ہے ۔ شائد یہ موجودہ ایس ایس پی کی وجہ سے ہواہوگا؟لیکن جب پولیس نے ان بھتہ خوروں کے خلاف کاروائی شروع کی تو ان افراد نے پولیس پر حملہ کرکے ان سے ایک کلاشنکوف چھین لیا اور پولیس والوں کو زخمی کیا جس کی پولیس نے الگFIR درج کررکھی ہے لیکن بعدمیں شائد سیاسی دباؤ پر اس سنگین معاملے کو ٹھنڈا کیا جارہاہے کسی کے معرفت کلاشنکوف واپس کردی گئی ہے اس صورتحال میں کو ل کمپنیوں کے مالکان اپنے کاروبار کو جاری نہیں رکھ سکیںگے اور نہ اس ماحول میں روزگار کی خاطر آنیوالے کارکن کوئی خطرہ مول لینے کو تیار ہیں ۔جہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہ ہو وہاں صنعتی ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا لاکھڑا کول فیلڈ میں جرائم پیشہ افرادبالکل بلوچستان کے بی ایل اے کے نقش وقدم پر کاروائی کررہے ہیں ۔ لیکن ان کو یقین ہے کہ انہیں حکومتی نمائندوںاور مقامی بااثر افراد کی حمایت حاصل رہے گی جبکہ ووٹ تو انتخابات میں کوئلے کے مزدور بھی مقامی سیاستدانوں کو دیتے آرہے ہیں ۔ لیکن انہیں شائد کانکنوں کے ووٹ میں اور ان بھتہ خوروں کے ووٹ میں بہت بڑا فرق نظر آتا ہے ۔ ہاں جہاں حکوت کو یا ان کے اہم رہنماؤں کو فائدہ نظر آئے وہاں پی ایم ڈی سی اور ایل سی ڈی سی کے سینکڑوں مقامی ملازمین کو یہ دونوں کمپنیاں بند کروا کر ملازمتوں سے برطرف کردیاگیا ۔ یہ لوگ بھی تو حکمران پارٹی کے ووٹر ز تھے ۔ ان کا خیال کیوں نہیں آیا ۔ یہ دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔ لاکھڑا کول فیلڈ میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس کو بجھانے کیلئے اگر فائر برگیڈ کا انتظام نہ کیا گیا تو یہ مائیننگ انڈسٹری کو جلاکر راکھ میں تبدیل کردے گی ۔پھر یہ مرض لاعلاج ہوگا۔ حکومت سندھ اور پولیس کے اعلیٰ حکام اس کا نوٹس لیکر صرف بھتہ خوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے مائیننگ انڈسٹری کو بچائے ۔