دنیا کے 7 قدیم نقشے

2352

آج سے ہزاروں برس قبل مسافر جب دور دراز کے سفر پر نکلتے تھے تو ستاروں کی مدد سے راستوں کا تعین کرتے تھے لیکن جسطرح انسان نے کئی شعبوں میں ترقی کی منازل طے کیں اسی طرح سفر کے دوران معاون آلات و علم کو بھی مزید آسان بنایا گیا اور دنیا کے دور دراز خطوں کی نشاندہی کرکے انہیں کاغذ پر مرتب کرلیا گیا جس سے مسافروں اور حکومتوں کو دنیا کی جغرافیہ اور اُس کی حدود کا علم بہتر طور پر حاصل ہوگیا۔ ذیل میں چند قدیم عالمی نقشوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔

1) بابُل(عراق) کا عالمی نقشہ

 قدیم ترین دنیا کا نقشہ بابل (آج کے عراق) میں 600 قبل مسیح کے قریب چکنی مٹی کی تختیوں پر نقش کیا گیا تھا۔ یہ تختیاں جن پر ستارے کی شکل میں عالمی نقشہ بنایا گیا محض پانچ بہ تین انچ کی پیمائش رکھتی ہیں۔

اس نقشے میں دنیا کو ایک چپٹی ہموار سطح کی شکل میں دکھایا گیا ہے جس کو سمندر چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ بابل اور دریائے فرات کو تکونی جوڑے کی شکل میں نقشے کے وسط میں دکھایا گیا ہے۔ دلچسپ بات اس نقشے کی یہ ہے کہ نقشے سے باہر  کچھ جزیروں کو دکھایا گیا ہے جن کو “پرندوں کی پرواز سے پرے” اور “ایسی جگہ جہاں سورج نہیں دیکھا جاسکتا” نام دیا گیا ہے۔

2) ٹولیمی کی جغرافیسن 150 عیسوی میں یونانی اسکالر گزرا ہے جس کا نام کلاڈیس ٹولیمیس تھا، اس نے “جغرافیہ” نام کی آٹھ جلدوں کی ایک کتاب تیار کی جس میں ریاضی کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پہلے سے موجود نقشوں میں ترمیم کی گئی مگر اس کتاب میں چند قابل ذکر غلطیاں ہیں جیسے کہ بحر ہند کو سمندر کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

اس میں 8،000 سے زائد مختلف مقامات کے ساتھ ساتھ آئس لینڈ اور کوریا جیسے دور دراز ممالک کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے کلاڈیس ٹولیمیس کے یہ نقشے جو کہ 8 جلدوں پر مشتمل تھے، معدوم ہوچکے ہیں اور اُن کا کھوج ابھی تک لگایا نہیں جاسکا ہے۔

 

3) پیٹنجر نقشہ

یہ اس دور کا نقشہ ہے جب تمام سڑکیں سلطنت روم سے ملتی تھیں۔ پیٹنجر کا اصل نقشہ تو غالباً چوتھی صدی عیسوی کے قریب مکمل ہوا تھا لیکن آج جو نسخہ موجود ہے وہ 13 ویں صدی کی نقل ہے۔ اس کا نام جرمن اسکالر کونراڈ پیٹنجر کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے 1500 کی دہائی کے اوائل میں اس کی ملکیت حاصل کی تھی۔

یہ نقشہ سلطنت روم کے نقل و حمل کے نیٹ ورک کو سمجھنے میں  کافی معاون ثابت ہوتا تھا۔ عجیب و غریب شکل کا یہ نقشہ 22 فٹ لمبا اور ایک فٹ چوڑا ہے اور اس میں 60،000 میل سے زائد کی حامل رومن سڑکیں دکھائی گئی ہیں جو مغربی یورپ سے مشرق وسطی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک اضافی حصے میں ہندوستان، سری لنکا اور ایشیاء کے متعدد حصوں کو بھی دکھایا گیا ہے۔

نقشے میں 500 سے زائد شہروں کے مقامات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 3،500 دیگر دلچسپ مقامات جیسے اسٹیشنز ، مندر ، جنگلات ، دریا اور یہاں تک کہ حمام بھی شامل ہیں۔

4) تابولا روجریانا نقشہ

بارہویں صدی عیسوی کی بات ہے کہ نارمن بادشاہ راجر دوئم کے دربار میں مشہور مسلمان اسکالر الادریسی کو بلایا گیا اور اُن کو جغرافیہ کے موضوع پر ایک کتاب تیار کرنے کو کہا گیا جس کے نتیجے میں الادریسی نے “تابولا روجریانا” تصنیف کی۔

اس کتاب میں متعدد علاقائی نقشوں کے ساتھ ساتھ اس وقت کی معروف دنیا کو بھی تفصیلاً دکھایا گیا تھا جس میں پورا یوریشیا اور افریقہ کا ایک بڑا حصہ شامل تھا۔

یہ نقشہ الادریسی نے اپنے سفر کے دوران مسافروں کے ساتھ بات چیت اور اُن کے سفر کے احوال کی بنیاد پر مرتب کیا تھا۔ انہوں نے اس نقشے میں مختلف علاقوں کی آب و ہوا، سیاسی حالات اور ثقافت کو بھی شامل کیا۔ ٹیبلولا روجریانا کئی صدیوں تک دنیا کے درست نقشوں کی فہرست میں رہا۔

5) چین کا “دا منگ ہن یی ٹو” نقشہ

اول وقتوں میں تیار کئیے گئے عالمی نقشے جن میں سے چند زمانے کی گردشِ ایام سے محفوظ رہ گئے اُن میں “ایک چین کے دا منگ ہن یی ٹو” بھی ہے۔

یہ ایک ریشم کے کپڑے پر 1389 عیسوی میں بنایا گیا تھا۔ نقشے میں جاپان سے اٹلانٹک تک پورا یوریشین براعظم دکھایا گیا ہے۔ بحر اوقیانوس، پہاڑی سلسلے، ندیاں اور انتظامی مراکز کو تفصیلی طور پر واضح کیا گیا ہے جبکہ چین کو نقشے کا مرکز بنایا گیا ہے۔ جاپان اور کوریا کو ہندوستان سے کہیں زیادہ وسیع دکھایا گیا ہے اور افریقی براعظم کو نسبتاً چھوٹے جزیرے کے طور پر واضح کیا گیا ہے جس کے درمیان ایک جھیل دکھائی دیتی ہے۔

6) کینٹینو مسطح مدورسن 1502 میں ، ایک اطالوی نواب نے البرٹو کینٹینو نامی ایک ایجنٹ کو پرتگال اور اُس کے زیرِ حکومت میں دریافت کئیے گئے علاقوں کا نقشہ تیار کرنے کا کمشنر مقرر کیا۔ کینٹینو اپنے مشن میں غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔

اس کے تیار کردہ نقشے میں نہ صرف افریقہ ، ہندوستان اور یورپ کو بہترین طریقے سے تفصیلاً پیش کیا گیا بلکہ یہ جنوبی امریکہ میں پرتگال حکومت کے زیرِ دست علاقوں اور ساحلی حدود کے خط کو ظاہر کرنے والا ابتدائی نقشوں میں سے ایک تھا۔ نقشے میں برازیل کے شمال میں کیوبا، ہسپانیولا اور مشرقی امریکہ کے ساحل کا حصہ بھی دکھائی دیتا ہے۔

7) والڈسیمیلر کا عالمی نقشہ

جرمن نقشہ نگار مارٹن والڈسمیلر نے سن 1507 میں اس نقشے کو تیار کیا۔ اس نقشے کی خاص بات یہ ہے اس نقشے کو امریکا کا پیدائشی سرٹیفیکٹ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نقشہ امریکی برِاعظموں کو نام دینے میں معاون ثابت ہوا۔ والڈسمیلر اور ان کے ساتھی متھیاس رنگمین نے اطالوی بحری جہازران امیریگو ویسپوچی کے اعزاز میں، جس نے سب سے پہلے براعظموں کا الگ نظریہ پیش کیا، ان نئے مغربی نصف کرہ علاقوں کو “امریکہ” کا نام دیا۔ اس نقشے کی ایک اور دلچشپ بات یہ ہے کہ یہ اب تک کا سب سے مہنگا عالمی نقشہ ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔ 2003 میں، لائبریری آف کانگریس نے 10 ملین ڈالر میں اس نقشے کی محفوظ نقل خریدی تھی۔