موسم بہار اور کورونا وائرس

1076

یہ مارچ کا مہینہ ہے جسے موسم بہار سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یوں تو بہار کی چاپ فروری کے آخری عشرے ہی سے سنائی دینے لگتی ہے۔ دن کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے، دھوپ میں قدرے شدت آجاتی ہے، رُت بدلنے لگتی ہے اور درختوں پر نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں لیکن صاحبو! اب کی دفعہ فروری کیا مارچ آگیا اور مارچ بھی تیزی سے گزر رہا ہے لیکن سردی ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے اور بارشیں ہیں کہ اودھم مچائے ہوئے ہیں۔ چار دن نہیں گزرتے کہ بادل اُمڈ آتے ہیں اور ٹوٹ کر برسنے لگتے ہیں۔ پہاڑوں پر برفباری کا سلسلہ بھی نہیں رُکا۔ مری میں برفباری کا سیزن خوب رش لے رہا ہے۔ ایسے میں بہار کا موسم کسمسا رہا ہے لیکن قدرت کے آگے اس کی کچھ چل نہیں پارہی۔ ہاں جن شہروں میں بارشیں نہیں ہورہیں اور سردی نے بھی رختِ سفر باندھ لیا ہے وہاں بہار کا جشن برپا ہے۔ بہاریہ مشاعرے اور ادبی میلے منعقد ہورہے ہیں۔ پھولوں کی نمائش کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ موسم بہار کے پھولوں میں خوشبو نہیں ہوتی بس رنگوں کا ایک میلہ ہوتا ہے جو دلوں کو لبھاتا اور آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
تو یہی معاملہ بہار کے رنگا رنگ پھولوں کا ہے۔ ان کے رنگ دیکھنے والوں سے باتیں کرتے ہیں اور ان کی باتوں کی خوشبو پورے ماحول کو معطر کردیتی ہے۔ موسم بہار شاعری کا موسم ہے۔ اقبال نے کہا ہے:
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مرغ چمن
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
غالبؔ بھی موسم بہار میں چمن کا رُخ کرتے تھے تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے تھے:
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر میرے نالے غزل خواں ہوگئیں
افتخار عارف ہمارے عہد کے شاعر ہیں اس لیے وہ عہد حاضر کے کرب کو موسم بہار میں یوں سموتے ہیں۔
عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو، بہار بھی آئے
اس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی
خیر یہ تو شاعروں کی باتیں ہیں، تلخی حالات نے موسم بہار کی رونق چھین لی ہے۔ یہ موسم ایک ایسے وقت میں وارد ہوا ہے جب ہلاکت خیز کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چین کے بعد ہمارا برادر مسلمان ملک ایران اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی اس وائرس سے متاثر کئی افراد کا سراغ لگایا گیا ہے لیکن الحمدللہ صورتِ حال قابو میں ہے۔ میڈیا اگرچہ خوف پھیلارہا ہے لیکن عوام بڑی حد تک اس خوف سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ سرکاری و نجی دفاتر کھلے ہوئے ہیں، بازاروں میں لوگوں کا رش لگا ہوا ہے، البتہ محکمہ تعلیم نے سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں جبری تعطیل کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ کورونا وائرس اسکولوں پر حملہ آور ہوگیا ہے اور بچے اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ یہ سراسر خوف ہے جو محکمہ تعلیم کی طرف سے پھیلایا گیا ہے۔ درست حکمت عملی یہ تھی کہ تعلیمی ادارے کھلے رہتے اور طلبہ و طالبات میں کورونا وائرس سے آگاہی کی تحریک چلائی جاتی اور انہیں وبائی امراض کے بارے میں ایجوکیٹ کیاجاتا۔ اِن ایام میں پی ایس ایل کے میچ بھی تو ہورہے ہیں۔ ملتان، راولپنڈی، لاہور ہر جگہ لوگوں کی بڑی تعداد نے یہ میچ دیکھے ہیں، اب کراچی میں بھی کرکٹ کا یہ میلہ لگا ہے لیکن سندھ میں تعلیمی اداروں پر کورونا وائرس کا خوف مسلط کردیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں امتحانات کا شیڈول بھی متاثر ہوگا اور بچوں کی پڑھائی بھی ڈسٹرک ہوگی۔ ہم اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
ہاں تو بات موسم بہار کی ہورہی تھی۔ اس موسم کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے اب کی دفعہ اس مختصر دورانیے پر بھی سردی اور بارشوں نے قبضہ جما رکھا ہے۔ بارشوں سے ہلاکتیں بھی ہورہی ہیں۔ البتہ گندم کی فصل پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ بارش سے گندم کا دانہ موٹا اور لذیز ہوجاتا ہے اور فی ایکڑ پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے۔ البتہ فصل پک جائے اور کٹائی کے دن قریب آجائیں تو بارش کسان کو وارا نہیں کھاتی وہ آسمان کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھتا اور اپنے رب سے بارش نہ برسانے کی دعا کرتا ہے۔ دو تین ماہ پہلے پاکستان میں گندم اور آٹے کا کال پڑ گیا تھا اور پی ٹی آئی کے سفاک وزرا عوام کو روٹی کم کھانے یا ایک وقت کھانے کا مشورہ دے رہے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ کال مصنوعی تھا اور ان لوگوں نے پیدا کیا تھا جو حکومت کے چہیتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کی میز پر موجود ہے وہ آئے روز یہ اعلان بھی کرتے رہتے ہیں کہ آٹا اور چینی کے بحران کے ذمے داروں کو نہیں چھوڑیں گے لیکن یہ اعلان بھی ایسا ہی ہے جیسے وہ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ملک لوٹنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ حالاں کہ یہ سب لوگ ایک ایک کرکے چھوٹتے جارہے ہیں اور خان صاحب ان سے ایک پیسہ بھی وصول نہیں کرسکے۔ خیر چھوڑیے اس قصے کو ہمیں تو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ
اب کے بھی بہار کے دن یونہی گزر گئے
سردی اور بارشیں رخصت ہوں گی تو پتا چلے گا کہ موسم بہار بھی دبے پائوں گزر گیا ہے اور گرمی سر پہ آن پہنچی ہے۔ گرمی بہت سی قباحتیں اور آزمائشیں بھی اپنے ساتھ لائے گی اور بے اختیار منیر نیازی یاد آئیں گے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا