نقطہ نظر

333

پاکستان پوسٹ کی کارکردگی
پاکستان پوسٹ اپنی سروسز کے حوالے سے پرنٹ میڈیا اور بینرز کے حوالے سے بہت بڑے بڑے دعوے کررہا ہے ان دعوئوں کی اصل اور زمینی حقیقت کیا اور کیسی ہے میرے ساتھ بیتے ایک واقعے سے بخوبی لگائی جاسکتی ہے۔ مورخہ 19 دسمبر بروز جمعرات بوقت 12:26 AM پر کراچی سٹی GPO (74000) سے ایک پیکٹ بذریعہ UMS (ارجنٹ میل سروس) سے فلیٹ FX-135 لیبر اسکوائر سائٹ کراچی بھجوایا جاتا ہے (یاد رہے کہ سٹی جی پی او سے پیکٹ بجھوانے والی جگہ کا فاصلہ بمشکل بیس کلو میٹر کے قریب بنتا ہے) اس پیکٹ کا رسید پر درج بار کوڈ نمبر UMS,77931878 ہے۔ یہ پیکٹ مرسل البر کو پورے 9 دن بعد یعنی مورخہ 28 دسمبر بوقت 2:55 PM پر ڈلیور کیا گیا۔ یہ وہ سروس ہے جس میں دعویٰ ہے کہ آرٹیکل صارف تک چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پہنچایا جاتا ہے۔ امانت، دیانت اور ضمانت کے دعویدار ادارے کی یہ کارکردگی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ج یہ حال ہے تو چھوٹے شہروں کا حال محتاج بیان نہیں۔ یہ واقعہ اگر دنیا کے کسی مہذب ملک میں پیش آیا ہوتا تو متعلقہ وزیر استعفا دے چکا ہوتا، ادارہ صارف سے نہ صرف معذرت کرتا بلکہ صارف کی تالیف قلب کے لیے ایک معقول رقم ہرجانے کے طور پر ادا بھی کرتا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں معذرت اور ہرجانے کا تصور ہی نہیں ہے اور نہ ہی عدلیہ کی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر ملتی ہے کہ عدلیہ نے پاکستان پوسٹ، پاکستان ریلوے، سوئی سدرن گیس، کے الیکٹرک اور پی ٹی سی ایل کی کسی کوتاہی ، غفلت یا صارف کے ساتھ کسی زیادتی پر کسی ادارے پر بھاری جرمانہ عائد کیا ہو۔ یہی وہ المیہ ہے کہ ستر سال سے یہ ادارے صارفین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔
قمر محی الدین، میٹھادر کراچی
کراچی میں صفائی کی جائے
کراچی میں بہت زیادہ ابتر صورت حال ہے، سڑکیں جو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی تھیں مزید گہرے گڑھے پڑ گئے ہیں جس کی وجہ سے مسافروں کو شدید اذیت کا سامنا ہے۔ اُبلتے گٹر اور کچرے کے ڈھیر کی وجہ سے ڈینگی جیسی بیماریوںنے وبائی صورت اختیار کرلی تھی۔ مہربانی فرما کر سڑکوں کی مرت کا کام فوری شروع کیا جائے اور کچرے کی صفائی جنگی بنیادوں پر کی جائے۔
فاطمہ مسلم