ترجیحات کا تعین کون کرے گا؟

778

مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان 27رمضان المبارک کو معرض وجود میں آیا اور 75سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا الحمدللہ دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا ایک حصہ 1971 ہم سے جدا ہوگیا۔ اس کے بعد بھی کئی ایسے مواقع آئے کہ گمان ہوا ملک کے مزید حصے بخرے ہونے والے ہیں اور خدانخواستہ ملک ٹوٹنے والا ہے۔ کئی مرتبہ ناپاک عزائم رکھنے والوں نے اپنے بیرونی آقائوں کے کہنے پر اس کو عملی جامہ پہنانے کی بھی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملک سے محبت کرنے والوں کی تعداد بہت بڑی ہے اور کم ظرف و تخریب کار ذہن رکھنے والے مٹھی بھر بھی نہیں۔ چونکہ بیرونی عناصر سے ان کو فنڈنگ سے لے کر مشورے گاہے گاہے ملتے رہتے ہیں اور ہماری حکومت، حزب مخالف پارٹیاں ان کو اپنی کمزوریوں اور آپس کی چپقلش و عدم اعتماد کی فضا سے یہ موقع فراہم کرتی ہیں یہ ہی نہیں بلکہ اب یہ بات یقین سے کہہ ہی نہیں سکتے اور قوم کو اعتماد ہی نہیں کہ جو لوگ حکومت میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ ملک و قوم سے مخلص ہیں یا وہ بھی طاقت ور ممالک سے املا لینے کے قائل ہیں؟۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پھر تو جمہوریت کے نام پر جمود کی کیفیت زیادہ طاری ہے۔ ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے جس میں مہنگائی، لاقانونیت، اقربا پروری، رشوت خوری، سودی نظام اور معاشرے کو تباہی کی طرف لے جانے والے اپنی چالوں سے باز نہیں آرہے اور حالات ملک و قوم کے لیے گمبھیر بنتے جارہے ہیں تو اس کا سد باب کیونکر اور کیسے ممکن ہوگا؟۔ اس کے لیے ترجیحات کا تعین کرنا ضروری ہے۔ سوال یہ ہے ترجیحات کا تعین کرنا کس کا کام ہے؟ سب سے پہلے اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو ملک کی مفاد میں سوچنا ہوگا اور ہر وہ کام جو ریاست کو کمزور کرتا ہے یا حکومت اور عوام میں دراڑ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے اس سے اجتناب کرنا ہوگا۔ بحیثیت مسلمان ملک اور خود ان کا مسلمان ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ملک کی اساس کو دائو پر نہ لگائیں بلکہ شب قدر میں بننے والے ملک کو خدائے بزرگ و برتر کی مقدس کتاب جو اس ماہ رمضان کریم میں نازل ہوئی، اس کے احکامات کو ملک میں آئین و قانون و عدلیہ و دیگر معاشرے کی اکائیوں میں نافذ کرنے کا عزم کریں اور اپنی ترجیحات میں اسے سرفہرست رکھیں۔ گزشتہ 40 سال میں جو بگاڑ قوم میں پیدا ہوگیا ہے اسے ٹھیک کرنے کے لیے تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ شریعت الٰہی کو معیشت، معاشرے، تعلیم جیسے شعبوں پر فوری لاگو کرنا ہوگا تاکہ قوم سکون سے زندگی گزار سکے۔ سادگی کو اپنا کر قوم کو بھی اس کی ترغیب دینا ہوگی تاکہ معاشرے میں پیدا ہونے والی بے چینی کو دور کیا جاسکے جو دولت کی عدم مساوات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ مسلم معاشرے کا رنگ ڈھنگ جو شریعت نے وضع کیا ہے اس کو بھی متعارف کرانا اس کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ مرد و زن کے لباس کو جو اس وقت معاشرے میں بغیر کسی سوچ و بچار کے اپنایا ہوا ہے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اور ترجیحات کی فہرست میں اس کو بھی نمایاں رکھا جائے۔ رات رات بھر نوجوانوں کی بازاروں، فٹ پاتھوں میں شب گزاری اور وقت کے ضیاع کا عدم احساس بھی برکات سے عاری معاشرے کی تشکیل کا باعث ہے۔
دوپہر 12بجے کے بعد کاروبار کا کھلنا خود زوال کا ایک بڑا سبب ہے۔ جب زوال کے وقت کاروبار شروع ہوگا تو زوال آنا یقینی ہے۔ ان اوقات کار کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز ماحولیات کو تباہ کیا جارہا ہے جس سے اسپتال آباد ہوتے جارہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نکاسی آب و دیگر عوامل سے نجات سمیت پینے کے صاف پانی، باغات، پارک، بچوں و نوجوانوں کے کھیلنے کے لیے میدان اور بچیوں کو چادر اور چار دیواری کے اندر کھیلوں کے مواقع فراہم کرنا بھی ترجیحات کا حصہ ہو۔ سودی نظام و رشوت خوری کو فوری ختم کرکے معاشرے کو روحانی و دنیاوی فوائد کے لیے سازگار بنایا جائے جو ترجیحات میں سرفہرست ہو۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ غدر کی طرف جانے والا ملک دنیا میں وہ مقام حاصل کرلے گا جس کو قائم کرنے کے لیے مہاجروں نے لازوال قربانیاں پیش کی تھیں اور اس کے نتیجے میں مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کرہ ارض پر نمودار ہوا تھا۔