سید منور حسن سب کو سوگوار کر گئے

1011

سید مودودیؒ کے پیغام پر لبیک کہنے والے ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین کے علمبردار سید منور حسن سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان، سابق ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ جماعت اسلامی کے فکری رہنما، مضبوط اعصاب اور پختہ موقف کے علمبردار سید منور حسن اب ہم میں نہیں۔ ہر ذی نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے اور سید صاحب بھی اس کے مصداق اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ ان کی زندگی کو دیکھتے ہوئے بڑے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے حضور مقبول زندگی لے کر گئے ہیں اور ان شاء اللہ ان کے درجات بلند ہوتے جائیں گے انہوں نے تہجد کی نماز بھی کبھی نہیں چھوڑی۔ سید منور حسن کا زمانۂ طالب علمی بھی سرگرم گزرا اور سیاسی زندگی بھی سخت ترین حالات مارشل لائوں اور کشمکش میں گزری۔ اگر ان کی تقریر کی بات کی جائے تو کہا جاتا تھا کہ نثر میں شاعری ہو رہی ہے۔ اگر موقف کی بات کی جائے تو چٹان سے زیادہ مضبوط اور پیش بینی کی صلاحیت جو مستقبل میں درست ثابت ہوتی چلی گئی کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ 1977ء کی تحریک کے جوان منور حسن ہوں یا جنرل پرویز کے دور کے تجربہ کار منور حسن پوری زندگی میں کوئی یوٹرن نہیں۔ جب سید صاحب نے امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مرنے والوں کو شہید قرار دینے کا سوال اٹھایا اور افغانستان میں جاری انسداد دہشت گردی کی جنگ کو امریکی جنگ قرار دیا تو فوجی ترجمان سمیت تمام بکائو میڈیا ان کے پیچھے پڑ گیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ انسداد دہشت گردی کے نام پر جنگ کو اب پاکستانی حکمرانوں نے خود امریکی جنگ قرار دے کر اس سے لاتعلقی ظاہر کی۔ یہاں تک کہ جن لاپتا افراد کے بارے میں سید منور حسن کھل کر سوال کرتے تھے، سوات اور وزیرستان میں صحافیوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور حالات کا مشاہدہ کرنے کا مطالبہ بھی وہی کرتے رہے۔ سید منور حسن تقریباً 16 برس جماعت اسلامی کے قیم رہے۔ اس سے قبل جماعت اسلامی کراچی کے امیر اور دیگر مناصب پر فائز رہے۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی دہشت گردی کے دور میں امیر جماعت بھی رہے لیکن جو حق بات ادارہ نور حق میں کہتے وہی نائن زیرو جا کر بھی کہتے اور جو بات ٹی وی چینل پر کہتے وہی جی ایچ کیو جا کر بھی کہتے تھے۔ سید منور حسن اسلامک ریسرچ اکیڈمی سے زمانۂ طالب علمی میں وابستہ ہو گئے تھے اس اکیڈمی میں ان کی نگرانی میں تقریباً 70 کتب کی اشاعت ہوئی۔ سید منور حسن پر سابق امیر قاضی حسین احمد کا اعتماد اس قدر تھا کہ ایک مرتبہ انہیں اپنا قیم بنایا تو جتنی مرتبہ بھی وہ امیر بنے سید منور حسن ہی کو اپنا قیم بنایا۔ سید منور حسن نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو حق پر ڈٹ جانے کا سلیقہ سکھایا۔ جماعت اسلامی کو تقریباً 40 برس بعد اس کا انتخابی نشان ترازو ان ہی کے دور میں واپس ملا۔ اس نشان کو دوسری جماعت بھی لینے کی امیدوار تھی لیکن سید منور حسن کا عزم تھا کہ اسے واپس لیا جائے۔ یہی نشان سید مودودیؒ نے جماعت کو دیا تھا۔ سید منور حسن نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل اس خطے سے امریکا کا چلے جانا ہے۔ اور اس کے حوالے سے انہوں نے گو امریکا گو مہم چلائی تھی۔ اس بارے میں بھی آج پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت اسی نتیجے پر پہنچی ہے کہ خطے سے امریکا کے نکل جانے کے بعد ہی یہاں امن وامان ہوگا اور پاکستان و افغانستان کے مسائل حل ہوں گے۔ سید منور حسن مظلوموں کی دادرسی کے لیے بھی ہر جگہ پہنچتے تھے۔ پاکستان کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ہمدرد اور اس کی رہائی کے لیے جنرل پرویز، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ حکومتوں سے ڈٹ کر مطالبہ کرتے تھے۔ سید منور حسن نے اختلاف کو ہمیشہ اخلاقی دائرے میں رکھا۔ سیاست کے میدان میں ان کا خوف اس قدر تھا کہ 1977ء میں 89 ہزار ووٹوں کی سبقت کی دھاک نے ایجنسیوں اور مقتدر طبقے کو ان کے اسمبلی میں پہنچ جانے کے خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ جب وہ ایم کیو ایم کے مقابلے میں جیت رہے تھے تب ہی دھاندلی کرکے انہیں ہرا دیا گیا کیونکہ ایسی طاقتور آواز کو اسمبلی بھی مل جاتی تو پھر اس ملک کی شکل بدل سکتی تھی۔ یوں تو جماعت اسلامی کے تمام ہی رہنمائوں کے بارے میں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی پوری زندگی میں کرپشن اور بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں ہوتا لیکن سید منور حسن نے جو فقیرانہ زندگی گزاری اور جس قدر شفاف لباس زیب تن کرتے تھے اس سے کہیں زیادہ ان کا کردار اور زندگی شفاف تھی۔ سید منور حسن کو بھی سب کی طرح اس دنیا سے جانا تھا وہ چلے گئے ان سے ہمیں اور تحریک اسلامی کو جو سیکھنا تھا شاید ہم اسے نہیں سیکھ سکے۔ وہ نہیں رہے ان کی زندگی ان کے واقعات اور مختلف مواقع پر ان کا رویہ اور موقف ہمارے سامنے ہے اسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پر فتن دور میں بڑے لوگ اٹھ جاتے ہیں اور یکے بعد دیگرے بڑے لوگ اس دنیا سے جا رہے ہیں۔ سید صاحب بھی چلے گئے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے ان کا خاندان صرف بیوی، بیٹا، بیٹی نہیں بلکہ کراچی سے لے کر دنیا کے کونے کونے تک پھیلے ہوئے تحریک اسلامی کے کارکن ہیں۔ سب دکھی ہیں سب افسردہ ہیں سب دعاگو ہیں اے اللہ سید صاحب کو اپنے سایۂ عاطفت میں لے لے۔(آمین)