کھل جا سم سم

521

وزیر داخلہ چودھری ثناء اللہ نے معزول وزیر اعظم عمران خان نیازی کے بارے میں جو انکشافات کیے ہیں وہ ناقابل یقین ہیں، کوئی بھی شہری بے حسی کی انتہا تک وطن دشمن کیسے ہو سکتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب کو کس نے یہ موقع فراہم کیا، کس نے سہولت کاری کی، کس نے معاونت کی۔ وزیر داخلہ نے جو انکشافات کیے ہیں دراصل وہ انکشافات ہی نہیں، ڈاکٹر اسرار اور حکیم محمد سعید نے بہت پہلے قوم کو ان حقائق سے آگاہ کر دیا تھا مگر ان حقائق سے چشم پوشی کی گئی، گویا جن لوگوں نے چشم پوشی کی، عمران کان کی معاونت کی اور ان کی سہولت کاری کی وہ برابر کے مجرم ہیں، وطن عزیز کا قانون عمران خان کے لیے حرکت میں آسکتا ہے، تو ان کے سہولت کاروں اور معاونین کو کیوں اور کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان کرنے والوں کی حب الوطنی ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے پھر وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے عمران خان کی سہولت کاری اور معاونت پر آمادہ کیا، وہ کون سی مجبوری تھی جس نے نواز شریف کو نااہل قرار دے کر جلا وطنی پر مجبور کیا گیا، غور طلب بات یہ بھی ہے کہ صاحب اختیار طبقہ کو اختیارات سے تجاوز کرنے پر خاموشی کیوں اختیار کی جاتی ہے ان کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا۔
پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر پگڑیاں اچھالنے اور گریبان چاک کرنے والوں پر قانون کا اطلاق کیوں نہیں کیا جاتا، حالانکہ الزام تراشی اور کردار کشی کرنا ایک سنگین جرم ہے، ایسے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں کیوں نہیں لایا جاتا، اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض منصبی پر دیانتداری سے عملدرآمد کرے تو افراتفری کی نوبت ہی نہ آئے۔
شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ایسا ہو جہاں جھوٹ کی حکمرانی ہو مگر وطن عزیز میں جھوٹ کے بغیر ایوان اقتدار میں داخلہ ممکن ہی نہیں، گویا جھوٹ کھل جا سم سم کا وہ کلمہ ہے جو ہر دروازے کو کھول دیتا ہے، عمران خان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا اس کے باوجود عدالت عظمیٰ نے صادق اور امین قرار دیا تھا، یہ فیصلہ ایک ایسی ڈھال ثابت ہوا جس نے انہیں فوق البشر بنا دیا آج تک ثابت نہ ہو سکا کہ ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا یا نہیں، مگر عدالت نے انہیں تحفظ فراہم کرنے کے احکامات صادر کر دیے۔
عوام کی معاشی حالت اتنی پتلی ہو گئی ہے کہ پتلی دال بھی خواب بن کر رہ گئی ہے، کیونکہ ان کی قوت خرید دال سے بھی زیادہ پتلی ہو چکی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کی دہلیز پر سرنگوں ہے، مگر وہ جہنم کی طرح مزید، مزید، مزید کی صدائیں بلند کیے جارہی ہے یہ صدائیں اتنی دلخراش ہیں کہ عوام کے کانوں سے لہو رسنے لگا ہے سماعتیں لہو لہان ہو چکی ہیں، مگر حکمران اپنی بے بسی کا رونا رونے کے سوا کچھ نہیں کرتے، قرضہ لے کر معاف کرانے والوں کی ایک طویل قطار ہے جن سے قرضہ وصول کرنے کے بجائے انہیں مزید سہولتوں اور مراعات سے نوازا جارہا ہے ملکی معیشت پر نزع کا عالم طاری ہے، مگر حکمران یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ملک ڈفالٹر نہیں ہو گا حالانکہ عوام ڈیفالٹر ہو چکے ہیں، خدا جانے حکمران طبقہ یہ بات کب سمجھے گا کہ عوام ڈیفالٹ ہو جائیں تو ملکی معیشت دم توڑ دیتی ہے۔
حکمران کہتے ہیں کہ ہم کرپٹ لوگوں سے قرضہ واپس لینا چاہتے ہیں مگر جب بھی معاملے میں پیش قدمی کی جاتی ہے، عدالتوں کا حکم امتناع آڑے آجاتا ہے اور ہماری بالا دستی عدلیہ کی پیش دستی کے سامنے سرنگوں ہو جاتی ہے اس سلسلے میں باشعور افراد سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ حکومت کی بالا دستی کے سامنے ہر طاقت کو سرنگوں ہونا پڑتا ہے، بلدیاتی اور ضمنی الیکشن کرانے کا حکم عدالت عظمیٰ نے کئی بار دیا مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور 90 دن کے بعد انتخابات کا مطالبہ کیا مگر حکومت نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا۔ عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا اس نے بھی انتخابات کرانے کا حکم دیا مگر حکومت نے کوئی توجہ ہی نہ دی اس تناظر میں یہ کہنا کہ عدلیہ کا حکم امتناع کام کرنے ہی نہیں دیتا سراسر بہتان ہے، حکومت کوئی بھی ہو ہر وہ کام کرتی ہے جو اس کے مفاد میں ہو، وطن عزیز کی بدنصیبی یہی ہے کہ یہاں قانون کی پاسداری کو بائی پاس کرنے روایت بہت مستحکم ہے، حالانکہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ جس ملک کا قانون بے آبرو ہو وہ دنیا میں باوقار نہیں ہو سکتا، کیونکہ توقیر کا دار و مدار عدلیہ کی حرمت سے مشروط ہوتا ہے عدلیہ کی کمزوری اسے بے حرمت و بے توقیر بنا دیتی ہے۔