پاکستان اسٹیل میں واجبات اور تنخواہیں دی جائیں‘ ظفر خان

561

نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے نائب صدر اور پاکستان اسٹیل کے سینئر مزدور رہنما ظفر خان نے کہا ہے کہ پاکستان اسٹیل جو ملک کا سب سے بڑا صنعتی کمپلیکس اور عظیم قومی اثاثہ ہے مگر اس ادارے اور ملازمین کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ سابقہ ادوار حکومت میں کرپشن اور بدانتظامی کے ذریعے اسے تباہ کیا گیا اور پھر گیس بندش کے ذریعے ادارے کی پروڈکشن اور پلانٹ کو مکمل بند کردیا گیا۔ موجودہ دور حکومت کی تبدیلی کے بعد ملازمین اور ملک کے عوام کو قوی اُمید تھی کہ پاکستان اسٹیل کو فی الفور بحال کیا جائے گا کیونکہ موجودہ وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخزانہ و پی ٹی آئی کے اہم رہنما اسد عمر نے پاکستان اسٹیل کے ملازمین سے وعدہ کیا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد اس ادارے کو ہر قیمت پر بحال کیا جائے گا۔ مگر آج ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اب تک ادارے کی بحالی کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل نہیں دیا گیا اور نہ ہی ایسے اقدامات سامنے آئے کہ جس سے ادارے کی بحالی کی کوئی اُمید پیدا ہوسکے۔ کبھی نجکاری کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے، کبھی نجکاری کی لسٹ سے نکالا اور پھر ڈالا جاتا ہے۔ کبھی لیز پر دینے اور کبھی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بات کی جاتی ہے اور کبھی سرکاری سطح پر ہی بحال کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان اسٹیل کی بحالی سے متعلق کسی واضح پالیسی کے بجائے حکومت خود کنفیوژن کا شکار ہے۔ نہ ہی بااختیار بورڈ آف ڈائریکٹر تشکیل دیا جاسکا ہے اور نہ ہی کوئی ادارے کا کُل وقتی سربراہ مقرر کیا گیا ہے، نہ ہی ادارے کو لوٹنے اور تباہ و برباد کرنے والوں کا کوئی احتساب کیا گیا اور نہ ہی ادارے کو چلانے اور ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی کے لیے کسی پیکیج کا اب تک فیصلہ کیا جاسکا ہے۔ جبکہ عدالت عالیہ کی جانب سے ان واجبات کی ادائیگی کا فیصلہ دیا جاچکا ہے اور اس پر عملدرآمد نہ ہونے کی بنا پر وزارت صنعت و پیداوار کے اکائونٹس بھی منجمد کیے جاچکے ہیں۔ ساتھ ہی یہ پہلا موقع ہے کہ حاضر سروس ملازمین کو عیدالاضحی اور عاشورہ جیسے مقدس ایام پر بھی سیلری سے محروم رکھا گیا۔ جس پر ملازمین پاکستان اسٹیل کی جانب سے بھرپور احتجاج بھی کیا گیا۔ حتیٰ کہ پی ٹی آئی کی سی بی اے کی جانب سے بھی حکومت پر شدید تنقید کی گئی اور ملیر پریس کلب پر بھوک ہڑتال بھی کی گئی۔ مگر IMF سے امپورٹڈ مشیر خزانہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ جبکہ فرٹیلائزر پاور اور ٹیکسٹائل سیکٹر کے گیس بل کے حوالے سے 308 ارب روپے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے معاف کردیے گئے اور میڈیا و عوام کے دبائو پر یہ فیصلہ واپس لیا گیا۔ مگر پاکستان اسٹیل جیسے پبلک سیکٹر کے اہم ادارے کے گیس بل کے 16 ارب کے واجبات جس میں اصل رقم سے زئد سرچارج کی رقم شامل ہے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ یہ وہ حالات ہیں جن کی بنا پر خسارہ بڑھتا جارہا ہے اور آپ کے ایک سالہ دور حکومت میں 40 ارب روپے سے زائد خسارے میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ نہ عارضی CEO اور بورڈ ممبران کے ذریعے ادارے کو بحال کیا جاسکتا ہے نہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے موثر و مربوط فیصلوں کی ضرورت ہے۔ جس میں SRO,s میں تبدیلی سے لے کر موجودہ مشیر پیداوار تک کے حوالے سے فیصلوں کی ضرورت ہے۔ آپ نے پاکستان اسٹیل پر اجلاس کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ادارے کے اسٹیک ہولڈرز کو بھی آن بورڈ لیا جائے اور ان کی تجاویز اور گزارشات کو بھی سنا جائے تا کہ ادارے کی فوری بحالی کے لیے موثر اقدامات ہوسکیں۔