اس ادارے کی قدر کیجیے ۔۔۔۔

225

ابوالحسن ندویؒ

آپ حضرات اس ادارے کی قدر کیجیے، اس وقت ہمارے تمام مدارس میں نصاب تعلیم کے ساتھ، نصاب تعلیم پر میں اس وقت کچھ نہیں کہوں گا، جس کے جیسے تجربے ہوں، حالات ہوں، زمانہ شناسی، اور اس کے خطرات کو سمجھنا اور اس لٹریچر کا مطالعہ کرنا، خواہ اس وقت کے ذرائع ابلاغ سے ملتا ہو، اور چاہے وہ کتب خانوں کے اندر محفوظ ہوں، ان سے واقف ہوں، ان کے ذریعے سے مخالف اسلام طاقتوں کے ارادوں اور منصوبوں کا سمجھنا، ان کو اپنے اندر پیدا کرنا یہ ہمارے تمام مدارس میں ہو، اور یہ بھی حقیقت میں نصاب کا ایک جزو ہے، اور جزوی ہی نہیں بلکہ پورے نصاب پر اس فکر کو، اس عزم کو حاوی ہونا چاہیے۔
خدا کا شکر ہے کہ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ چیز یہاں اس ادارے کے لیے کوئی نئی نہیں، اور میں اس کی دعوت نہیں دے رہا ہوں، بلکہ اس طرز پر سوچا جا رہا ہے اور سوچا جا چکا ہے، اور یہ چیز ذہن میں ہے، اللہ تعالیٰ اس کو کامیاب کرے، آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس معہد کو ایک اضافہ اور ایک مدد ورسد سمجھا جائے، اس کے اندر رقابت کا جذبہ، نیز نبرد آزمائی یا مقابلہ آرائی، اس کا بالکل ذہن نہیں ہونا چاہیے، ہمیں تمام قدیم مدارس کا احترام کرنا چاہیے، ان کے بانیوں کا ممنون ہونا چاہیے، ان کے لیے دعائے خیر کرنی چاہیے، ایصال ثواب کرنا چاہیے، ان کے لیے دل میں بڑے احترام کا مقام رکھنا چاہیے، بہت صفائی سے کہتا ہوں کہ خیال بھی نہ آئے کہ ہم مظاہر علوم یا دارالعلوم کے مقابلے میں ایک درس گاہ قائم کر رہے ہیں، اور وہ وقت آئے گا کہ جب یہ درس گاہ اس خطے پر حاوی ہو جائے گی، یہ نیت کی خرابی ہے، اخلاص کی کمی ہے، اور اس کے ساتھ اللہ کی مدد نہیں ہے، آپ ان کا اعتراف کریں، اعتراف ہی نہیں احترام کریں، اور ان کو جتنا تعاون آپ دے سکتے ہوں دیں، اور ان کو یہ محسوس کرائیں کہ یہ امتداد ہے درحقیقت، استحصال نہیں، ان مدارس کے بانیوں کے ارادوں اور عزائم کا یہ ایک امتداد ہے کہ وہ اب یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پہلے مظاہر علوم اور دارالعلوم کی عمارت وہاں تک تھی، اب وہ یہاں تک پہنچ گئی ہے، یہ بھی انہیں کا ایک رواق ہے، ایک دارالاقامہ ہے، ان کا ایک کتب خانہ ہے یا ان کا ایک فکری گوشہ ہے، یہی دارالعلوم و مظاہر علوم کو محسوس ہونا چاہیے۔
اس کی بالکل گنجائش نہیں ہے کہ مدارس کا ٹکراؤ ہو، بلکہ مجھے تو زبان میرا ساتھ نہیں دیتی، کسی مدرسے کا تقسیم ہو جا نا یا اس کے دو حصے ہو جانا کسی طرح گوارا نہیں، اور اس کی دل پر ایسی چوٹ ہے جسے میرا اللہ ہی جانتا ہے، میں اس کی گنجائش نہیں سمجھتا کہ کسی قسم کا استحصال ہو یا کسی قسم کی صف آرائی اور تجزیہ ہو، بلکہ سب کا ایک مقصد ہو، ایک میدان عمل ہو، کام کے اعتبار سے یقیناً تھوڑا بہت فرق ہوگا، لیکن کسی قسم کی محاذ آرائی یا مسابقت کہ ہم ان سے زیادہ وسائل حاصل کرلیں، اور لوگوں کو متوجہ کرلیں، یہ سب نیت کی خرابی کی بات ہے، ہاں دین کی خدمت میں پورا تعاون ہو، باہمی اعتماد، احترام اور ایک دوسرے کی رفاقت ہو، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق مرحمت فرمائے، اور اس ادارے سے کام لے جو اس وقت کا اہم تقاضا ہے، اور جو اسلام کی اس وقت ضرورت ہے، مسلمانوں کی ضرورت ہے، اور دعا ہے کہ یہ ادارہ خالص ایجابی، تعمیری، دعوتی کام کرے۔ آمین