جب سے سندھ سوشل سیکورٹی میں وہاں کے آفسران نے ہمت کرتے ہوئے ادارے کی لوٹ مار اور تباہی کے ذمہ داروں کے خلاف جن کی وجہ سے صرف اس مالی سال میں اب تک ادارہ ایک ارب سے زائد خسارے میں جاچکا ہے۔ان عناصر کی ناصرف نشاندہی کی بلکہ سیسی کی گورنگ باڈی میں جعلی طریقہ سے مزدروں اور آجروں کے نمائندہ بن کر آنے والے ممبران کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں باقاعدہ پٹیشن بھی جمع کروائی ۔ اس کے بعد بجائے اس کے کہ عدالت میں اپنا مقدمہ لڑا جاتا ان مخصوص افسران جو تمام دھونس دھمکیوں کے باوجود مختلف انکوائریوں اور آڈٹ پیرائے میں ادارے میں کرپشن کی مسلسل نشاندہی کررہے تھے انہیں اور ان کی نمائندہ جماعت سیسی آفیسر ایسوسی کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا گیا تھا۔ پہلے مرحلہ میں آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر و جنرل سیکرٹری سمیت تمام عہدیداران کے تبادلے کر دیے گئے جس میں سے کچھ کو کراچی سے اندرون سندھ بھی ٹرانسفر کردیا گیا تھا۔ جب سیسی کے آفسران اس کے باوجود اپنے اصولی موقف سے دستبردار نہ ہوئے کہ کرپشن میں ملوث افسران اور نیب زدہ افسران کو ان کی پوسٹنگ سے ہٹا کر ان تمام کرپشن کی انکوائریوں کو نیب یا انٹی کرپشن کو دی جائے اور جنہوں نے لاکھوں روپے کا غبن کیا ہے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جائیں۔ لیکن سیسی کی موجودہ انتظامیہ نے اس کے بجائے آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر بلند اقبال سمیت کئی عہدیداران کو غیرقانونی طور پر ملازمت سے ہی برخاست کردیا۔ وہ تو شکر ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور وہ حکومت سندھ اور بالخصوص محکمہ محنت اور سوشل سیکورٹی کے موجودہ حالات سے واقف ہیں اسے لیے سندھ ہائی کورٹ نے 2 جولائی اور11 جولائی کو افسران کی غیرقانونی طور پر ملازمت سے نکالے جانے کی احکامات کو منسوخ کرتے ہوئے آفیسر ایسوسی ایشن کے صدر بلنداقبال سمیت کئی افسران کو ملازمت پر بحال کردیا ہے۔ البتہ ادارے میں ہونے والے اربوں روپے کی خسارہ اور کروڑوں روپے کی کرپشن کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے۔