کانکنوں کے بنیادی مسائل اور ان کا حل 

364

مقالہ خصوصی مزدور رہنما قموس گل خٹک نے
کنفیڈریشن کے پروگرام میں پڑھا
دنیا کے ماہر معاشیات تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے سستی بجلی پانی کے ذریعے پیدا کی جاسکتی ہے اس کے لیے بڑے ڈیم بنا کر اگر پانی کو محفوظ کیا جائے تو اس پانی کو زرعی مقاصد اور پاوربنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔کسی بھی حکومت نے پانی کو محفوظ کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کی اور نہ اس بات کو اہمیت دی کہ پانی کے بعد پھرسستی بجلی کوئلے سے پیدا کی جاسکتی ہے بلکہ ہمارے ملک میں ابھی تک کسی حکومت نے بھی اس صنعت کو بطور انڈسٹری تسلیم ہی نہیں کیا۔ معدنیات کی صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے مائنز ایکٹ غلامی کی یاد گار رہی ہے جس میں ستر سال گزرنے کے باوجود کوئی بہتر تبدیلی نہیں کی گئی۔ ابھی تک مائنز کے اندر کام کرنے کے حالات کار غلامانہ دور سے بھی بدتر ہیں، انڈر گراؤنڈ کام کرنے والے کانکن غیر انسانی ماحول میں رزق حلال کمانے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مائیننگ حادثات میں انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض علاقوں میں ان حادثات کے نتیجے میں جاں بحق کانکنوں کے لواحقین قانونی وارثوں کو موت کا معاوضہ بھی نہیں ملتا کیونکہ ملک کے صوبائی حکمران معدنیات کی لیز ایسے لوگوں کو الاٹ کرتے ہیں جو علاقائی طورپر طاقتور اور سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں زیادہ تر تعداد کاروباری ذہن نہیں رکھتے اور ٹریڈ یونین کو تسلیم کرنا باعث توہین سمجھتے ہیں۔ وہ مائننگ انڈسٹری کے مروجہ قوانین پر عملدرآمد کوکمزوری، پولیس اور غنڈوں کے ذریعے کارکنوں کو ہراساں کر کے ان سے غلاموں کے طرح کام کرانے کو اپنی شان مانتے ہیں۔ کانکنی کی صنعت میں قوانین پر عملدرآمد اور انڈر گراؤنڈ مزدوروں کے تحفظ مائنز
کی کنڈیشن کو درست رکھنے کی ذمہ داری کا ادارہ چیف مائیننگ سیکرٹریٹ عملی طورپر کاغذوں تک محدود اور مائینز مالکان کے رحم وکرم پر فرائض انجام دیتا ہے اگر اس ادارے کے ذمہ دار کبھی کاغذی کارکردگی دکھانے کے لیے کسی مائیننگ کمپنی کے مائنز کا انسپکشن کرتے ہیں تو اس کامطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ اس کے نتیجے میں موت کے کنووں جیسے مائنز کی ورکنگ کنڈیشن بہتر ہو جائے گی بلکہ کاغذی خانہ پری اور مائنز مالکان سے دوستانہ تعلقات کی تجدید کرنا مقصو د ہوتا ہے۔ اس کے لیے متعلقہ کول کمپنی کی انتظامیہ کو پہلے اطلاع دی جاتی ہے تاکہ وہ مہمان نوازی کا اچھا انتظام کرسکے۔ پاکستان میں عام طورسے معدنیات کے ذخائر علاقائی طورپر طاقتور یاسیاسی بنیادوں پر ایسے لوگوں کو الاٹ کیے جاتے ہیں جو ذہنی طورپر صنعت کاری کے طریقوں سے ناواقف انسانوں کو غلام سمجھتے ہیں۔ وہ پولیس یا غنڈوں کے ذریعے کانکنوں کو ہراساں کرکے تمام انسانی حقوق سے محروم کرنے کو اپنی شان سمجھتے ہیں۔ مگر محنت کشوں کو قانونی اور جائز حقوق کو تسلیم کرنا ان کے لیے باعث توہین ہوتی ہے۔ سپر کول مائینز لاکھڑا میں ٹریڈ یونین 2002 سے رجسٹرڈ اور CBAڈیکلیئر ہوئی 2017تک کمپنی کے ساتھ ہر سال ایگریمنٹ ہوتے رہے مگر جب اس کمپنی نے پولیس کی مدد سے چارمائن بند کرکے مزدوروں کو بے روز گار کیا اور ان کی اجرت سے 41 لاکھ روپے غیر قانونی کٹوتی کی اور CBA یونین نے اس پر ردعمل دکھایا ان غیر قانونی اقدامات کو عدالت میں چیلنج کروایا تو ایسے ممبران پر مشتمل پاکٹ یونین کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے رجسٹرار ٹریڈ یونین کو درخواست دی جو چیک آف سسٹم پر CBA کو چندہ کٹوارہے تھے۔ ہم نے اس پر اعتراض داخل کیا تو سندھ اسمبلی کے اسپیکر سے رجسٹرار کو ٹیلی فون کرایا جس پر قانونی تقاضوں کو نظر انداز کرکے یہ پاکٹ یونین رجسٹرڈ ہوگئی۔ مگر کمپنی کی یہ یونین ریفرنڈم کی درخواست دینے کے قابل نہ تھی اس لیے 2002 میں رجسٹرڈ CBA کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی گئی، یہ ہے انجمن سازی کا حق اور قانون کی بالادستی ہے جس کا حکمران راگ الاپتے ہیں۔ ا س انڈسٹری کی ترقی کے لیے طویل جدوجہد کے بعد ملکی کوئلے کا استعمال سیمنٹ فیکٹریوں میں شروع ہوا جس کی وجہ سے یہ توقع پید اہوگئی تھی کہ اب یہ انڈسٹری صرف بھٹہ خشت مالکان کے رحم وکرم پر نہیں رہے گی اور انڈسٹری کی ترقی کے ساتھ ہم مزدوروں کو زیادہ حقوق و مراعات دلوانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ لیکن سرکاری سرپرستی میں طاقتور پارٹیوں نے مال بنانے کے لیے غیر ملکی کوئلہ درآمد کرنا شروع کیا اور یہ غیر ملکی کوئلہ بھٹہ خشت میں بھی استعمال ہونا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے مائننگ انڈسٹری کو سخت دھچکا لگا ہے پھر اس سال ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے ہائی کورٹ کے فیصلے سے ملک میں تقریباً پانچ لاکھ مزدور بے روز گار مائینز اونرز کو اربوں روپے کا نقصان ہوااور CBRکو سیلز ٹیکس میں اربوں روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا۔ لاکھڑا پاور پروجیکٹ کو محمد جمیل اینڈ کمپنی روزانہ آٹھ سو ٹن کوئلہ فراہم کرتا تھا یہ پاور ہاؤس لاکھڑا کے کوئلے پر ڈیزائن کرنے کے بعد لگایا گیا تھا اور پچھلے پندرہ سال سے اس کوئلے پر چل رہا تھا اب ملکی کوئلے میں نقائص بتاکر اگست 2017سے بجلی کی قلت کے باوجود اس کو بند کیاگیا جس کے نتیجے میں ہزاروں مزدور بے روزگار ہوئے بار بار احتجاج اور درخواستوں کے باوجود کوئی نوٹس لینے کوتیار نہیں۔ ان عوامل سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں کوئلے کی انڈسٹری کو بطور صنعت تسلیم نہیں کیا جاتا اور نہ اس انڈسٹری میں کام کرنے والے محنت کشوں کو بطور شہری بنیادی انسانی حقوق حکمران دینے کو تیار ہیں۔ مجموعی طورپر پاکستان میں کوئلے کی انڈسٹری میں کام کرنے والے محنت کش عملاً ہر قسم کے حقوق سے محروم نیم غلاموں کی طرح کام کرتے ہیں اکثر مقامات پر انہیں سرکاری چھٹی اور موت کا معاوضہ بھی نہیں ملتا مگر ملکی سطح پر ہر علاقے میں مائن ورکرز فیڈریشنز کی بھرمار ہے اور بے شمار ٹریڈ یونین کانکنوں کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔ اگرآپ ان فیڈریشنز اور یونینز سے پوچھیں گے کہ آپ نے کانکنوں کے حقوق اور مراعات کے حصول کے لیے کتنے ایگریمنٹ کیے ہیں تو زیادہ تر جواب نفی میں آئے گا، اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملکی سطح پر مائینز کے کارکنوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر آواز اٹھانے کے لیے ایسی ملک گیر تنظیم ہو جو کانکنوں کو حقوق دلواسکے۔ ہم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ لاکھڑا کول فیلڈ سندھ 1969میں جب ٹریڈ یونین کی بنیادڈالی تھی تو ہمیں کہا جارہا تھا کہ مائیننگ انڈسٹری میں صحیح یونین بنانا مشکل ترین مسئلہ ہے مگر عزم ہمت دیانتداری کے ہوتے ہوئے کوئی کام مشکل نہیں۔ آج ہمارے کارکن فخر سے کہتے ہیں کہ ہمیں جو عزت کے ساتھ حقوق ملے ہیں ان کا دوسرے صوبوں میں تصور کرنا بھی فی الحال تو ممکن نہیں حالانکہ یہ حقوق بھی مثالی نہیں ہیں مگر دیگر صوبوں میں ٹریڈ یونین کی کمزوری سے ہمارے یونینز پر مسلسل دباؤ رہتا ہے یونین کے عہدیداروں کو مراعات کی لالچ دے کر پھوٹ پیدا کی جاتی ہے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ملکی سطح پر یونینوں کے اندر تنظیمی اتحاد ہی کانکنوں کو حقوق دلوانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ جس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔جہاں تک مائیننگ حادثات میں انسانی جانوں کے ضائع ہونے کا مسئلہ ہے یہ بھی ٹریڈ یونین کی کمزوری اور قانون پر عمل نہ ہونے کی وجہ ہے گوکہ ہم نے معاہدات کے تحت معاوضہ موت سات لاکھ روپے مقرر کرایا ہے مگر صرف معاوضے میں اضافے سے حادثات کم نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے مضبوط ٹریڈ یونین تنظیم کی ضرورت ہے جو سیفٹی کے قانون پر عملدرآمد کے لیے آواز اٹھاسکے۔ سب سے زیادہ خطرناک مائیننگ حادثات صوبہ بلوچستان میں ہوتے ہیں وہاں کی مائیننگ میں سیفٹی کا کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا اور نہ ان علاقائی سرداروں اور طاقتور لوگوں سے انسپکٹر آف مائینز قانون پر عمل کرواسکتا ہے۔ یہی صورت حال کم وبیش ہر صوبے میں درپیش ہے صوبہ سندھ میں بھی مائیننگ لیز زیادہ تر ایسے لوگوں کو الاٹ کی گئی ہیں جو صرف دولت اکٹھا کرنا جانتے ہیں مگریہ دولت پیدا کرنے والے ذرائع کانکنوں کو ذہنی طورپر انسان نہیں سمجھتے۔ وہ اس غم میں دبلے ہوگئے کہ ہم لاکھڑا میں یونینز کے ذریعے ہر سال ملازمین اور انڈر گراؤنڈ کارکنوں کے معاوضہ جات اور مراعات میں جو اضافے کرواتے ہیں وہ اضافے ان مائینز مالکان کو بھی دینے پڑتے ہیں جہاں ٹریڈ یونین موثر کام نہیں کرتی یا کرنہیں سکتی۔میں FES کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے حسب روایت مزدور دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے پاکستان کے مائنز سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کو اکھٹا کرکے ہمیں موقع فراہم کیا کہ ہم مشترکہ تنظیم کے قیام اور جدوجہد پر غور کرسکیں۔ اس سلسلے میں ظہور اعوان کی کوششوں اور جدوجہد قابل تحسین ہیں جو ملک کے اندر اور باہر ILO کے ذریعے دنیا بھر خصوصاً پاکستان کے مزدوروں کے لیے کررہے ہیں اور عملی طورپر نظر بھی آتا ہے۔