لڑکا پیاز ہی تو کھاتا ہے

لڑکی والے لڑکے پر”لٹو” ہوگئے۔۔۔۔ وہ کیا کہتے ہیں،گوری رنگت کالی چمڑی سب بیکار کی باتیں ہیں،جو من کو بھاجائے وہ ہی موہنی صورت والی ہے۔بس ۔۔۔۔ لڑکی والوں کو لڑکا بہت ہی “بری” طرح پسند آگیا۔بات پکی کرنے کے لئے گھر پہنچ گئے، لڑکے والے کچھ زیادہ ہی صاف گو تھے، بات آگے بڑھی تو لڑکے کی “اماں” بولیں:ہمارے لڑکے میں عیب تو کوئی نہیں بس “پیاز” کھا تا ہے۔

لڑکی والے تو پہلے ہی لٹو ہوئے ہوئے تھے بولے بھلا یہ کیا عیب ہوا، پیاز تو سب ہی کھاتے ہیں۔

وہ پیاز جب کھاتا ہے جب “کباب” کھاتا ہے۔ لڑکے والوں نے بات اور آگے بڑھائی۔

واہ وا، بہت اچھا ذوق ہے، لڑکی والوں کی “بانچھیں” اور کھل گئیں۔

وہ کباب جب کھاتا ہے جب”شراب پیتا ہے” لڑکے والوں نے گفتگو کو ا ور آگے دھکیلا

فرسٹریشن، فرسٹریشن۔ مایوسیوں نے ذہنی سکون برباد کرکے رکھ دیا ہے، زندگی میں ٹھہراؤآئے گا تو سب “نارمل” ہو جائے گا، لڑکی والے بولے

وہ شراب جب پیتا ہے جب “شباب” ساتھ ہو،  اس سے قبل کہ لڑکی والے اس بات پر تبصرہ کرتے،کہنے لگے کہ شباب  اس وقت ساتھ ہوتا ہے جب وہ  ڈاکا ڈالتا  ہے اور وہ ہی کیا اس کا پورے کا پوراخاندان یہی کام کرتا ہے۔مہنگائی، بے روزگاری اور قابلیت و اہلیت کو اہمیت نہیں دی جائے گی تو ایسا تو ہونا ہی ہے، لڑکی والوں نے بہت فلسفیانہ جواب دیا۔

پاکستان کا ایک ایک بچہ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کے ہر گھر کی یہی کہانی ہے۔ سب یہاں بنجارے ہیں۔ وہ جس سے بھی محبت کرتے ہیں تو وہ بھی سمندروں کے پانیوں سے گہری اور ہمالہ کی چوٹیوں سے بھی بلند ہوتی ہے اوراگر نفرت کرتے تو وہ بھی ساری گہرائیوں سے گہری اور بلندی میں آسمان سے بھی بلند تر۔ کہتے ہیں کہ دشمن کی مسکراہٹ بھی زہر لگتی ہے اور دوستوں کے بچھائے ہوئے کانٹے بھی کلیاں اور پھول لگتے ہیں۔

پاکستان کے معاشرے میں وہ کونسا شعبہ ہے جس میں سارے کے سارے فرشتے ہوں یا سب کے سب شیطان۔ جتنی بھی معاشرے میں اخلاقی، معاشرتی، مذہبی اور قومی خوبیاں اور خامیاں ہیں وہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں بیک وقت ملیں گی۔ ان خوبیوں اور خامیوں کی نہ تو کسی خاندان میں ،محلوں میں، قبیلوں میں، شہروں میں، صوبوں میں اور قومی بنیاد پر کسی قسم کی کوئی کمی نظر آئے گی اور نہ ہی اضافہ۔ سب کے سب شعبے خوبیوں اور خامیوں کے حامل نظر آئیں گے۔

سیاسی پارٹیاں ہوں یا مذہبی جماعتیں، سرکاری محکمے ہوں یا نیم سرکاری اور پرائیویٹ ادارے، سب میں نہ تو سب اچھے، بے غرض اور نیک شریف لوگوں کی کوئی کمی ہوگی اور نہ ہی بدکردار، غرض مند اور مفاد پرستوں کی۔

اس زمین پر رہنے والا یا والے، کوئی بھی ہوں وہ بشری کمزوریوں  سے آزاد نہیں اوربدلتے مفادات کے ساتھ اپنی وفاداریاں بدل جاتے ہیں۔ جب تک اس قسم کے عناصر ان گروہوں میں ہوتے ہیں جن سے میرے اختلافات ہیں وہ مجھے زہر لگتے ہیں لیکن جب وہ ہر مخالف پارٹیوں اور گروہوں سے اٹھ کر ان لوگوں میں شامل ہوجاتے ہیں جن کو میں پسند کرتا ہوں تو وہ تمام تر بڑے بڑے ناسور رکھنے کے باوجود میرے دل میں اس طرح اتر جاتے ہیں کہ ان کے وہ سڑے ہوئے پیپ بہاتے زخم اور ناسوروں سے رسنے والا مادہ بھی خوشبو دیتا نظر آتا ہے۔

پاکستان میں اس حقیقت کو جاننا اور عوامی رجحان دیکھ کر میری باتوں کی تصدیق کرنا اور بھی آسان ہے۔ وہ تمام افراد جن کے جسم ہر قسم کی برائیوں کے زخموں چور چور ہی کیوں نہ ہوں، جب تک وہ مخالف جماعتوں میں ہوتے ہیں میری نفرت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہوتی ہے لیکن اگر وہ اپنی تمام تر غلاظتوں کے ساتھ مخالفین کا ساتھ چھوڑ کر مجھ سے آ ملتے ہیں تو پھر ان سے زیادہ نیک، شریف اور حسین کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ سنہ 2018 میں تو حد ہی ہوگئی۔ الیکشن سے قبل کا منظر تو عجیب تھا ہی، اس کے بعد کا منظر بھی دنیا کا آٹھواں عجوبہ بن کر رہ گیا۔ الیکشن سے قبل وہ تمام مفاد پرست افراد جن کے دامن میں کرپشن اور سنگین جرائم کے بڑے بڑے دھبے تھے اور معاشرے کے ناسوروں میں گنے جاتے تھے جب وہ اپنی اپنی جماعتوں کو چھوڑ چھوڑ کر ایسی جماعتوں میں جانے لگے جن کو جوائن کر لینے سے ان کے سڑے ہوئے کرداروں کو مشک و عنبر کی خوشبو نصیب ہوجانے کے مژدے ملنے تھے، شامل ہونے لگے تو ایسی پارٹیوں کے متوالوں اور مجنونوں کے نظروں میں ان سا نیک اور پارسا پوری دنیا میں ڈھونڈے نہیں مل سکتا تھا۔ یہی نہیں ہوا بلکہ ببانگ دہل یہ کہا گیا کہ ہمیں “الیکٹرورل” ہر صورت میں چاہئیں اس لئے کہ ہمارا سیاست میں آنے کا کوئی اور مقصد ہو یا نہ ہو، الیکشن جیتنا ہمارا مقصد اولین ہے۔ اس اولین مقصد کے حصول کیلئے اگر وہ سڑے بھسے لوگ جو دوسری پارٹیوں سے نکل کر ہمیں جتا سکتے ہوں تو وہ بھی قبول۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی تو وہ افراد ہیں جو ہر پارٹی کی جیت کیلئے در کار ہوتے ہیں۔ جب ایسے ہی افراد مخالفین کی جیت کیلئے درکار ہوں اور وہ پارٹی جیت کی “مجبوری” سمجھ کر انھیں قبول کرنے پر مجبور ہو تو پھر وہ پارٹی اور وہ تمام “الیکٹرورل” قابل مذمت کیوں ہوتے ہیں۔

الیکشن کے نتائج کے بعد کے مناظر بھی بہت غلاظت بھرے اور خالص تجارتی نظر آئے۔ وہ پارٹیاں جو کسی کی نظر میں ملک دشمن،  بھتہ خور، غدار اور لائق دار تھیں اور ایک ایک دو دو چار چار سیٹیں لئے ہوئی تھیں وہ سب کی سب ملک دوستی کے اوج ثریا کی حامل نظر آنے لگیں اور مخالفین و موافقین یوں شیر شکر ہو گئے جس کی مثال دنیا کی گھٹیا ترین تاریخ میں نہ تو پہلے موجود تھی اور نہ ہی آنے والے مستقبل میں ایسا ہونے کا امکان ہے۔

پورے پاکستان میں ایسے مناظر 2018 سے قبل نہ تو دیکھنے میں آئے اور نہ اس سے قبل سننے کو ملے۔ بھلا لانڈریاں بھی کبھی ہوا کرتی تھیں؟۔ وہ بھی سیاسی کارکنوں کو دھو دھلاکر نیک اور شریف بنانے والی لانڈریاں؟۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ اس قسم کے الزامات عام طور پر مخالف جماعتوں کی جانب سے لگائے جایا کرتے تھے لیکن پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا اسے “بڑی سرکار” کی جانب سے بھی سند یافتہ لانڈریاں قرار دیا گیا۔ بندوں کو ہزاروں کی تعداد میں پکڑو اور دھوبیوں کے حوالے کردو۔ جو لانڈری گیا پوتر ہو گیا اور سارے پاپ معاف ہو گئے۔ جس نے ایسا کرنے سے انکار کیا وہ اللہ کے پاس پہنچا دیا جاتا رہا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی سابق میئر نے اپنے منھ سے یہ اقرار بھی کیا کہ وہ سرکاری “دھوبی” ہے اور وہ آسمان سے اس لئے اتارا گیا ہے کہ لوگوں کے گناہ دھوکر ان کو جنتی بنائے۔

لوگ اپنی تمام تر غلاظتوں کے ساتھ اپنے اپنے مفادات یا باالفاظ دیگر “ہدایات” کے ساتھ مخصوص پارٹیوں میں شامل ہو کر دھلتے اور پاک صاف ہوتے رہے اور سب سے مزے کی بات یہ ہوئی کہ پارٹیوں کے چاہنے والے ان کو اولیائے کرام سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ قرار دینے لگے۔

اب آپ لاکھ لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے ماضی بعید اور ماضی قریب کے لاکھ سنگین جرائم گنوائیں لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ان کے خلاف کسی بات کو تسلیم کریں۔ وہی سارے اعمال جو مخالفین کی صفوں میں شامل ہونے کے باوصف ان کو زہر لگتے تھے وہ سارے کے سارے الزامات ان کو “مخالفین” کی ہرزا سرائی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں دکھائی دیتے۔

المختصر! آپ کسی بھی سیاسی، دینی سیاسی یا خالص دینی جماعتوں کی کتنی ہی کمزوریاں، عیب اور برائیاں سامنے لے آئیں، ان کے کتنے ہی سنگین جرائم کا ثبوت لوگوں کے سامنے رکھیں۔ فوجی حکمرانوں کی جمہوریت پسندی اور سول حکمرانوں کی آمرانہ اور وڈیرانہ طرز فکر و عمل  کا نقشہ کھینچیں۔ ظلم و ستم کی داستانوں پر داستانیں رات دن سنائیں۔ گمراہیوں کو سامنے لائیں ۔۔۔ مگر ۔۔ جو جس سے وابستہ ہے اسی سے وابستہ رہے گا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ یہی کہے گا کہ کیاہے “لڑ کا پیاز  ہی تو کھاتا ہے”۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں