حج عاشقانہ سفر

حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے ،جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے، جیسا کہ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے۔ اس لیے جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجّْ البَیتِ مَنِ استَطَاعَ اِلَیہِ سَبِیلًا وَمَن کَفَرَ فَِانَّ اللہَ غَنِیّ عَنِ العَالَمِینَ‘‘ (سورہ آل عمران، آیت:۷۹) ترجمہ: ’’اور اللہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا ہے، یعنی اس شخص کے جو کہ طاقت رکھے وہاں تک کی سبیل کی اور جو شخص منکر ہو؛ تو اللہ تعالی تمام جہاں والوں سے غنی ہیں‘‘۔ یہ آیت کریمہ حج کی فرضیت کے حوالے سے نصّ قطعی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچوں ارکان کو ایک حدیث شریف میں بیان فرمایا ہے۔ترجمہ: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘۔(بخاری شریف، حدیث نمبر:۸)
انسانی طبیعت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ انسان اپنے وطن، اہل و عیال ، دوست و رشتہ داراور مال و دولت سے انسیت ومحبت رکھے اور ان کے قریب رہے۔ جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے؛ تو اسے اپنے وطن اور بیوی و بچے اور رشتے دار و اقارب کو چھوڑ کر اور مال و دولت خرچ کرکے جانا پڑتا ہے۔ یہ سب اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حج کے حوالے سے بہت ہی رغبت دلائی ہے،۔انسان کوکعبہ مشرفہ کے حج و زیارت پر ابھارا، مہبط وحی و رسالت کے دیدار کا شوق بھی دلایا ہے اورسب سے بڑھ کر شریعت نے حج کا اتنا اجر و ثواب متعین فرمایا ہے کہ سفر حج ایک عاشقانہ سفر بن جاتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ ۔رضی اللہ تعالی عنہ۔ بیان کرتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔‘‘ پوچھا گیا پھر کون؟ فرمایا: ’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔‘‘ پوچھا گیاپھر کون ؟ ارشاد فرمایا: ’’حج مبرور۔‘‘(بخاری شریف، حدیث نمبر:۱۵۱۹)
حج مبرور کیا ہے؟ وہ حج جس کے دوران کوئی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا ہو۔ وہ حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔ وہ حج جس میں کوئی ریا اور شہرت مقصود نہ ہو، اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو۔ وہ حج جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو ،اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے۔ وہ حج جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلہ میں دلچسپی دکھا ئے۔حج مبرور کی فضیلت پر حدیث مبارکہ جنت کی مہر ثبت کرتی ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان(گناہوں)کا کفارہ ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(بخاری شریف، حدیث:۳۷۷۱، مسلم شریف، حدیث(۹۴۳۱)۔۷۳۴)حج مبرورپچھلے سارے گناہوں کو مٹادیتا ہے ۔ابن شِماسہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب کہ وہ قریب المرگ تھے۔ وہ کافی دیر تک روئے، پھر انھوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کرلیا۔ اس پر ان کے صاحبزادے نے چند سوالات کیے۔ پھر انھوں نے (اپنے اسلام قبول کرنے کی کہانی سناتے ہوئے) فرمایا: جب اللہ نے میرے قلب کو نور ایمان سے منور کرنا چاہا؛ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اورعرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا داہنا دست مبارک پھیلائیں؛ تاکہ میں بیعت کروں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیلایا۔ پھر میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عمرو!تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا: میری ایک شرط ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری کیا شرط ہے؟ میں نے کہا: میری مغفرت کردی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام (قبول کرنا) پہلے (کے تمام گناہوں)کو مٹا دیتا ہے؟ ہجرت گزشتہ گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج پہلے(کے کیے ہوئے گناہوں)کو مٹا دیتا ہے ‘‘۔ (مسلم شریف، حدیث: ۱۲۱۔ ۲۹۱)
علامہ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کسی گناہ کے بغیر، اس کا ظاہری مطلب صغائر و کبائر (چھوٹے اور بڑے) سارے گناہوں کا معاف کیا جانا ہے‘‘ (فتح الباری۳/۲۸۳۔۳۸۳) ہر سال کی طرح امسال بھی لاکھوں مسلمان فریضہ حج کے لئے اللہ کے حضو ر جمع ہو چکے ہیں۔بچے ، بوڑھے ، کمزور ، عورت، مرد سب ہی اس عاشقانہ سفر میں اپنی مقبول حاضری کے لئے مجتمع ہیں۔اور جنت کی طلب نے انہیں دنیا سے ،گھر سے بے رغبت کر دیا ہے۔وہاں کی رونقیں ہی اس قدر دل آویز ہیں کہ کوئی بھی اپنے عشق کو چھپا نہیں سکتا ۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں