’’حق گوئی راہ نجات ہے‘‘

علماء انبیاء کے وارث ،اور علم و عمل کے سرچشمے مانے جاتے ہیں ۔ علماء سے مراد علم و عمل کی جامع ہستیاں ہیں، یہی وہ حضرات ہیں جن پر وثوق کے ساتھ اعتماد کیا جاتا ہے۔ اور ہر مصیبت کے ازالے کے لئے بطور خاص ان سے رجوع کیا جاتا ہے۔ جہاں پر دنیاوی اسباب بے بس نظر آتے ہیں ،وہاں دینی و دنیاوی فلاح و بہبود میں ان کا اعلیٰ مقام ہے۔ ان کا ایک صحیح جملہ ہزاروں لوگوں کی جان بچاسکتا ہے ،اور ایک غلط جملہ ہزاروں لوگوں کو مصائب و آلام میں گرفتار کراسکتا ہے۔ علماء کی حق گوئی اگرچہ وقتی طور پر کسی فرد یا جماعت کو بری لگ سکتی ہے، لیکن اس کا انجام ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ حق بات کہتے ہیں ،اورحق کا ساتھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے ۔ علماء کی اہمیت کی وجہ سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کو انبیاء کا وارث بتایا ہے۔ تاریخ کے اوراق علماء کی خدمات سے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن بعض مواقع ایسے بھی تاریخ میں آئے ہیں کہ علماء کی حق گوئی سے صرفِ نظر نے پوری قوم کو ہلاکت میں ڈال دیا ۔ ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتروادیا ہے، اور ہزاروں عورتوں کو بیوہ کرادیا ، لا تعداد بچوں کو یتیم بنادیا۔ قرآن و حدیث میں اہلِ کتاب اور بطورِ خاص بنی اسرائیل کے واقعات متعدد مواقع میں بیان کئے گئے ہیں ،جن سے ظاہرہوتا ہے کہ علماء کی حق گوئی عوام و خواص کے لئے نجات کا سبب ہے۔ جب کہ ان کا حق سے صرف نظر کرنا عوام و خواص کے لئے ہلاکت کا سبب ہے۔
رائج معاشرے نے حق گوئی خاص طور پر علماء کرام کی باتوں کا جس طریقے سے استحصال کیا ہے ،وہ لائق متروک ہے۔ایسے عوامل شامل زندگی ہو گئے ہیں جن سے شرک کی بو آتی ہے۔ایسی بھبکیاں علماء پر کسی جاتی ہیں جن کا علم سے تو کیا جہالت تک سے دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔اور اس کام میں عام و خواص سب شامل ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ معاشرہ دین بیزار ہوگیا ۔مسلمان دین سے دور ہوتا چلا گیا ۔اور علماء کی قدر دلوں سے اتر گئی۔حق گو انسان کی تمام عالم مذاہب میں تحسین کی جاتی ہے ۔اس کی باتوں کو راہ نجات جانا جاتا ہے ۔اور اس پر عمل کرنے کو قابل رشک گردانا جاتا ہے۔جن قوموں نے اپنے علماء کی نا قدری کی وہ عبرت کا نشان بنیں ۔ان پر مصائب وآلام ڈھائے گئے،اور انہیں علماء کی ناقدری کی سزائیں ملیں۔اس لئے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔اورکسی عالم دین کو جھوٹا کہنا ،بد زبان کہنا ، اس کی برائیاں کرنا ،اس کی عیب جوئی کرنا،کسی نا کسی زمرے میں امر نبوی سے منہ موڑنا ٹہرے گا۔اس میں علماء کرام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کواخلاقِ نبوی ﷺ سے آراستہ و پیراستہ کریں ۔کوئی بھی ایسا عمل جو معاشرے کی آنکھ کو چبھتا ہو ،ہر گز نہ کریں،بل کہ اسے ترک کردیں۔عام سی بات ہوگئی ہے کہ کسی ایک کی خطا کا ذمہ کلی طور پر سب سے منسوب کردیا جاتا ہے،جو کہ سراسرغیر منصفانہ اقدام ہے۔اسی وجہ سے مسلمان نوجوان کے دلوں میں علماء ومدارس کی اہمیت ناہونے ے برابر ہوتی جارہی ہے۔اور جب عقیدہ و مذہب میں انہیں رہنما کی ضرورت پڑتی ہے ،وہ کسی بھی مستند عالم دین کی آغوش میں جانے کی بجائے ،جاہل ،مکار کے ہتھے چڑھ کر دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھتا ہے۔کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا؟ یہ دوریاں کیوں کرپیدا ہوگئیں ؟ انہیں کس منصوبے کے تحت علماء و عو ام کے درمیان لا کھڑا کیا گیا ؟ اسی دوری کا نتیجہ ہے کہ علماء کی عزت کرنے والے خال خال ہی ملتے ہیں،اور علماء و مدارس سے شکوٰہ کناں لا تعداد ہیں۔علماء سے اور حق گوانسان سے معاشرے کا وطیرہ کسی طور بھی یہود مدینہ سے کم نہیں۔
کتب تفاسیر و سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدالانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت مدینہ کے بعد قریش کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کے لئے یہودِ مدینہ کے دو عالم کعب بن اشرف اور حییّ بن اخطب مکۃ المکرمہ قریش کے پاس آئے۔اور ان کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے اکسایا اور یہود کے ذریعہ سے قریش کا تعاون کرنے کا وعدہ کیا۔ اہل مکہ نے کعب بن اشرف سے کہا کہ تم ایک دھوکہ دینے والی قوم ہو اگر تم واقعی اپنے قول میں سچے ہو تو ہمارے ان دوبتوں ’’جبت‘‘ اور’’ طاغوت‘‘ کے سامنے سجدہ کرو۔ چنانچہ اس نے قریش کو مطمئن کرنے کے لئے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد کعب نے قریش سے کہا کہ تیس آدمی تم میں سے اور تیس ہم میں سے سامنے آئیں تاکہ رب کعبہ کے ساتھ اس چیز کا عہد کریں کہ ہم سب مل کر محمد ﷺکے خلاف جنگ کریں گے۔ کعب کی اس تجویز کو قریش نے پسند کیا ،اوراس طرح سے انھوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ قائم کردیا۔ اس کے بعد ابوسفیان سردارِ قریش نے کعب سے کہا کہ تم اہل علم ہو تمہارے پاس اللہ کی کتاب تورات ہے، لیکن ہم بالکل جاہل ہیں ۔اس لئے تم ہمارے متعلق بتاؤ کہ ہم حق پر چلنے والے ہیں یا محمد ﷺ؟کعب نے پوچھا کہ تمہارا دین کیا ہے؟ ابوسفیان نے کہا ہم حجاج کے لئے اپنے اونٹوں کو ذبح کرتے ہیں، ان کا دودھ پلاتے ہیں ،مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں، اپنے اقرباء کے تعلقات کو قائم رکھتے ہیں، اور بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف محمد ﷺنے اپنے آبائی دین کو چھوڑ دیا ہے ،وہ اپنوں سے علیحدہ ہوچکا ہے، اوراس نے ہمارے قدیم دین کے خلاف اپنا ایک نیا دین پیش کیا ہے۔ ان باتوں کو سن کر کعب بن اشرف نے کہا کہ تم لوگ حق پر ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم (معاذ اللہ) گمراہ ہوچکا ہے۔ اس کے آگے کعب بن اشرف کا انجام کتب احادیث میں موجود ہے۔
سچائی اپنے تمام صفات صاحب صدق اللسان میں ظاہر کرتی ہے۔حق گو انسان آخرت میں تو سرخرو ہوگا،دنیا بھی اسے ہر شعبہ زندگی میں قابلِ تحسین نگاہوں سے دیکھتی ہے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں