خودکشی ۔۔۔۔حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

خود کشی خود کو ہلاک کرنایا جان بوجھ کر کسی مشکل سے تنگ آکر اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے کا نام ہے۔اسلام میں خودکشی قطعاً حرام ہے۔اسلام امن و سلامتی والا مذہب ہے جو بنوع انسان سے ہر گھڑی صبر و تحمل،اعتدال ا ور توازن پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ زندگی اللہ رب العزت کی عطاکردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم اساسی اہمیت کی حامل نعمت ہے۔ انسان کا جسم اور زندگی دونوں اللہ تبارک تعالیٰ کی عطاکردہ امانتیں ہیں جس میں ذراسی بھی خیانت دنیا اور آخرت کی تباہی کا باعث ہو سکتی ہے۔ اسلام جسم و جان کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے معاشرے کے تمام افراد کو اس امر کا پابندکرتا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کو یقینی بنائے۔انسانی جان و مال کی حرمت اللہ رب العزت کے پاس کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔نبی کریم ﷺ نے دوران طواف کعبے کومخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اے کعبے! تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے،تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے،(تیری ان تمام عظمتوں کے باوجود )قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے مومن کی جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے۔‘‘(ابن ماجہ)اسلام خودکشی تو درکنارمایوسی جو خودکشی کی جانب بڑھنے والا پہلا قدم ہے اسے بھی حرام قرار دیتا ہے۔اسلام خودکشی کی کسی توجیہ کو قبول نہیں کرتاحتیٰ کہ شدید بیماری اور معذوری کی حالت میں بھی نہیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے کئی برس بیماری کی شدت میں گذارے لیکن صبر کا دامن اس یقین کے ساتھ نہیں جانے دیا کہ جس خدا نے بیمار کیا ہے وہی شفا یاب کرے گا اور اللہ نے بالاخر آپ کو شفانصیب فرمائی۔حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جو غزوے میں بڑی بہادری سے لڑرہا تھا لیکن جب زخمی ہوا تو اُس نے خودکشی کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’میرے بندے نے اپنے اوپر موت میں جلدی کی سو میں نے اُس کے لیے جنت کے دروازے بند کر دیئے‘‘ یعنی معلوم ہوا کہ نہ تو اُس کی بہادری کسی کام آئی اور نہ اس کی شجاعت ۔ خودکشی نے اس کے سارے اعمال ضائع کردیئے یہاں تک کہ اُس کا جہاد بھی ضائع ہوگیا۔ حدیث نبوی ﷺ کی روسے جس نے خود کو جس طرح ہلاک کیا وہ دوزخ میں اُسی طریقے سے مارا جائے گا۔ نبی اکرمﷺکا ارشاد مبارک ہے’’جس نے خود کو لوہے کے ٹکڑے سے مارا اُسے دوزخ میں اسی لوہے کے ٹکڑے سے مارا جائے گا‘‘اسلام اپنی تعلیمات ،افکارا ور نظریات(teachings and idealogy) کے اعتبار سے امن و سلامتی، خیر و عافیت اور حفظ و امان کا دین ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صبر کو ذہنی تناؤ کے حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ قرآن فرماتا ہے ’’اور ہم ضرور تمھیں خوف وخطر،فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے آزمائیں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں۔اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔انہیں خوشخبری دے دو۔ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایا ت ہوں گی۔(البقرہ) اس آیت میں رجوع الی اللہ اور صبر کو خودکشی کے سدباب کے طور پر پیش کیاگیا ہے۔ خودکشی کے متبادل کے طور پر صبر کی بہترین مثال ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کے اسوہ مبارکہ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ موجودہ دور میں خودکشی کے اسباب و علل کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے انسداد اور تدارک کے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مضطرب انسانیت کا مداوا ہو۔ زیر نظر مضمون میں انہی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
خودکشی روز افزوں پھیلتی ایک عالمی وباء ؛۔
آج دنیا میں انسانوں کی موت کادوسرا بڑا ذریعہ خود کشی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق خودکشی اب ایک عالمی وباء کی صورت اختیار کرچکی ہے جس پر قابو پانا فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتا۔اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سالانہ دس لاکھ لوگ خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں ہر تین سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کی کوشش کرتا ہے۔ خودکشی کی کوشش کرنے والوں میں ہر بیس میں سے ایک شخص اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ باقی انیس افراد ناکام رہتے ہیں۔ اس تناسب سے ہر چالیس سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کے سبب موت کا شکار ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ تین ہزار افراد خودکشی کے نتیجے میں لقمہ اجل ہورہے ہیں۔ ہمارے ملک میں آئے دن خود کشی کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے اور یہ رجحان ہر عمر کے طبقے میں دیکھا گیا ہے۔اعداد و شمار کی روشنی میں ہمارے ملک میں ہرایک لاکھ افراد میں سے 36افراد خودکشی کر لیتے ہیں۔ خود کشی سے بچاؤ کی عالمی تنظیم کے صدر برائین مشارا کے بموجب دنیا میں جنگوں، دہشت گردی اور تشدد کے واقعات کے باعث جتنی اموات واقع نہیں ہوئی ہیں اتنی خودکشی کے نتیجے میں دیکھنے میں آئی ہیں۔خودکشی کے ذریعے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا رجحان پندرہ سے چوبیس سال کی عمریعنی نوجوان نسل کے افراد میں زیادہ دیکھنے میں آیاہے۔ 2020 تک دنیا میں خودکشی کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد پندرہ لاکھ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیوں کی شرح ساؤتھ کوریا میں ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔ اسلامی ممالک میں خودکشی کی شرح دنیا کے باقی ممالک سے قدرے کم پائی گئی ہے۔یہ اسلام کی برکت ہے۔عالمی سطح پر خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر اقوام متحدہ نے 1990 میں خود کشی سے بچاؤ کی بین الاقوامی پالیسی کو منظور دی اور 10ستمبر 2003 کو پہلی مرتبہ خود کشی سے بچاؤ کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سے اس دن کودنیا بھر میں لوگ اپنے گھروں کی کھڑکیوں کے پاس ایک عدد موم بتی جلا کر خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کو یا د کرنے کے علاوہ خودسوزی کرتے ہوئے بچنے والوں افراد کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔
نوجوانوں میں فروغ پاتا خودکشی کا تشویشناک رجحان؛۔
نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔طلبہ اور نوجوانوں میں منفی خیالات ا و رجحانات کا نمو پانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یقیناًہمارے تعلیمی اور سماجی نظام میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔کوئی ایسی بات یا فکر ہے جو ہماری نوجوان نسل کو خودکشی جیسے انتہائی ا قدام پر مجبور کر رہی ہے۔خودکشی کی خبروں خاص طور پر نوجوان نسل کی جانوں کے اتلاف کی خبریں ذہن دل کو آئے دن ملول کر رہی ہیں۔نوجوان نسل ہمارے ملک کا بیش قیمت اثاثہ ہے ۔ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔خودکشی کی بے شمار وجوہات میں سماجی دباؤ ،ڈپریشن ،خوداعتمادی کا فقدان،غربت ،عشق و محبت میں ناکامی وغیرہ شامل ہیں ان وجوہات میں سب سے زیادہ تشویش کا پہلو تعلیمی دباؤ کی وجہ سے رونما ہونے والی اموات (خودکشیاں) ہیں۔ ریسرچ میگزین Lancet کے مطابق ہمارے ملک کے نوجوانوں کی موت کا دوسرا بڑا سبب خودکشی ہے۔ لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن میں طبی نفسیات کے پروفیسر وکرم پاٹل کے مطابق ساری دنیا کے مقابلے میں ہندوستان میں پڑھے لکھے اور امیر نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔ لینسٹ کے مطابق جنوبی ہندوستان میں خودکشی کا رجحان سارے ملک کے مقابلے میں بہت تیزی سے سرایت کرتا جارہا ہے۔جنوبی ہند کے خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے پندرہ تا تیس برس کے نوجوانوں میں خودکشی کا پریشان کن رجحان زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔مغربی ممالک میں خودکشی کا رجحان زیادہ تر عمر رسیدہ بزرگ افراد ،غریب اور کم تعلیم یافتہ شہریوں میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے برخلاف ہندوستان میں خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر امیر اوراعلی تعلیم یافتہ گھرانوں کے نوجوان پائے گئے ہیں ۔یہ بات ماہرین نفسیات کے لئے الجھن، بے چینی اور تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔کئی بچے والدین اور اساتذہ کی جانب سے لادے گئے تعلیمی دباؤ کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کربیٹھتے ہیں۔دنیا میں ہر انسان کم از کم ایک بار ڈپریشن کا شکار ضرور ہوتا ہے۔یہ منفی رجحان ذیل میں پیش کردہ وجوہات کی یا پھر کسی اور صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔بعض موقعوں پر ڈپریشن اتنی شدت اختیار کرجاتا ہے کہ اس سے باہر نکل پانا لوگوں کے لئے سخت مشکل ہوتا ہے۔ایسے حالات میں ناامیدی کا شکار نوجوان مسائل سے نجات پانے کے لئے اپنی زندگی کا چراغ بجھا دیتے ہیں۔ہر خودکشی کے پیچھے کوئی وجہ اور کوئی قاتل خواہ والدین کی صورت،اساتذہ ،خاندان یا معاشرے کے کسی فرد کی شکل میں یا پھرمعاشرتی ،معاشی،تعلیمی،مذہبی،سیاسی پالسیوں کی شکل میں ضرور چھپا ہوا ہے ۔بقول شاعر
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا!
خودکشی کا شکار ملک کی نوجوان نسل ایک جائزہ ؛۔
پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمارکے مطابق سال 2014 سے 2016 کے درمیان ملک بھر میں 26600 طلبہ نے خودکشی کی۔ سال 2016 میں 9474 طلبہ نے، سال 2015 میں 8934 طلبہ نے اور سال 2014 میں 8068 طلبہ نے خودکشی کی۔ 2016 میں طلبہ کی خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات 1350مہاراشٹر میں واقع ہوئے جبکہ مغربی بنگال میں1147 ،ٹملناڈو میں 981 اور مدھیہ پردیش میں 838 واقعات رونما ہوئے۔2015 میں خودکشی کے مہاراشٹر میں 1230، ٹملناڈو میں 955، چھتیس گڑھ میں 730 اور مغربی بنگال میں 676واقعات رونما ہوئے۔بعض گوشوں سے ایسی بھی خبریں گردش کررہی ہیں کہ ہندوستان میں ہرگھنٹے میں ایک طالب علم خودکشی کرتا ہے جس کے لئے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آر بی) کے2015کے اعداد و شمار کا بھی تجزیہ کیا گیا۔ اگر میں یہ کہوں تو کوئی کذب بیانی نہیں ہوگی کہ ہمارے ملک میں پچھلے کئی سالوں سے طلبہ کی خودکشی کے واقعات رکنے کانام نہیں لے رہے ہیں۔میڈیکل جرنل لانسیٹ کی 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق، 15 سے 29 سال کے درمیان کے نابالغ اور نوجوانوں میں خودکشی کی اونچی شرح والے چند سر فہرست ممالک کی لسٹ میں ہندوستان بھی شامل ہے۔سماجی ماہرین و جہد کاروں کے مطابق نوجوانوں میں خودکشی کے واقعات میں اضافے کا سبب عالمگیریت کی وجہ سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل، مشترکہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، والدین کی عدم توجہ، جذباتی سہاروں سے محرومی وغیرہ ہیں۔معاشی مسائل بھی عام افراد میں مایوسی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔علمائے دین اور دانشوروں کے مطابق دین سے دوری اور افلاس کی وجہ سے خودکشی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔طلبہ میں بڑھتاہوا خو دکشی کا تناسب معاشرے میں تربیت کے فقدان کی غمازی کرتاہے۔،جبکہ دوسری وجہ تعلیم میں سخت مقابلہ بھی ہے۔
خودکشی کی وجوہات، ایک طائرانہ جائزہ ؛۔
خودکشی کے ذریعے ہوئی اموات کی جائزہ رپورٹس کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ دنیا کے تقریباًہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں سماجی ناہمواری اور عدم توازن موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہورہے ہیں اور یہی ذہنی کیفیت بسا اوقات خود کشی جیسے حتمی اقدام پر افراد کو مجبور کر تی ہے اور جس کا منطقی انجام خودکشی جیسے بہت بھیانک روپ میں سامنے آتا ہے۔تحقیقات سے خودکشی کی مزید وجوہات سامنے آئیں ہیں۔یہ ایک چونکادینے والی حقیقت ہے کہ خودکشی کے ہر واقعے کی اپنی ایک کہانی اور وجہ ہے۔ تاہم اہم وجوہات میں ذہنی و نفسیا تی امراض، غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ ذنی، بے عزتی کا خوف، منفی مقابلے کا رجحان، لامتنا ہی خواہشات وغیرہ شامل ہیں۔خودکشی ایک پیچیدہ سماجی مسئلہ ہے جس کے سد باب میں دنیا کے بہت سارے ترقی یافتہ معاشرے آج بھی ناکام ہیں۔ تاہم شعور بیدری اور آگہی کے ذریعے اس رجحان کو کم کیا جاسکتاہے۔خود کشی کے عوامل کا عام جرائم کی تفتیش کی طرح پتالگانا ممکن نہیں ہے۔کیونکہ یہ عمل ایک فرد کی سوچ پر مبنی ہوتا ہے اور کسی شخص کی سوچ پر پہرہ نہیں لگا یا جاسکتا۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اہم تبدیلیوں کے ذریعے معاشرے کی مجموعی سوچ کو تبدیل کرتے ہوئے خود کشی کے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے اور اس سمت حکومت اور انسانی حقوق کے لئے برسرکار انجمنوں کو پیش قدمی کرنا چاہئے۔انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 50 فیصد نوجوان غربت، بیروزگاری اور اقتصادی مشکلات کے سبب خودکشی کر تے ہیں۔ جبکہ ماہرین نفسیات کے مطابق 80 فیصد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرلیتے ہیں۔ مینٹل ہیلتھ ڈلی نے خودکشی کے متعدد اسباب میں خا ص طور پر پندرہ وجوہات کا ذکر کیا ہے جو خودکشی کا محرک بنتے ہیں۔ان محرکات میں ذہنی بیماریاں(عموماً ان کا تعلقات نفسیاتی امراض سے ہی ہوتا ہے)،غیر خوش گوار تجربات جیسے ایذا رسانی ڈرانا دھمکانا وغیرہ،غیر ہموار شخصیت اور شخصیت سے وابستہ مسائل،نشیلی ادویات (ڈرگس) کا استعمال،غذائیت سے مربوط مسائل،بے روزگاری،اکیلاپن،رشتے اور تعلقات سے جڑے مسائل،جنیاتی توارثی امراض ،غیر ضروری فلسفیانہ نکتہ نگاہ،فلسفیانہ خواہشات کی عدم تکمیل،وجود کا بحران،جان لیوا امراض،دائمی جسمانی اورذہنی درد و تکلیف ،معاشی مسائل ڈاکٹرس کی جانب سے تجویزکردہ ادویات کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ متعدد ذیلی وجوہات جنسی و جسمانی تشدد ،گھریلو تشدد، خانہ جنگی اور جنگ کی وجہ رونما ہونے والے اثرات بھی خودکشی کے اسباب میں شامل ہیں۔
خودکشی کا انسداد اور تدارک ،چند تجاویز ؛۔
منفی رجحانات سے نبردآزمائی کے لئے نئی نسل کی اوائل عمری سے ذہنی تربیت کی اشد ضرور ت ہے۔ذہنی طور پر نوجوان نسل کو مضبوط بنانے کے لئے والدین اور اساتذہ آگے آئیں۔بچوں کو زندگی کے نشیب و فراز،سرد و گرم، تلخ و ترش حالات کا علم فراہم کریں۔ بچوں کو مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور انہیں حل کرنے کا ہنر سکھائیں۔بچوں پر کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالنے کے بجائے ان میں امید ،حوصلہ اور ہمت کو جاگزیں کریں۔والدین اور اساتذہ بچوں کے مسائل اور ان کی ذہنی حالت کا صحیح ادراک کریں۔ان کے ذہنوں میں محنت اور جستجو کی اہمیت کو اجاگر کریں۔بتائیں کہ مسلسل محنت و جستجو سے مشکل سے مشکل اور ناممکن سے ناممکن کام کو آسان ا ور ممکن بنایا جاسکتا ہے۔موت کبھی مسائل کا حل نہیں ہوسکتی۔یہ ایک بزدلانہ اور حرام فعل ہے۔بچوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کریں کہ وہ مشکلات اور مسائل سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے ان کا سامنا کریں۔مشکلات و مسائل سے فرار اختیار کرنا اور اپنی جان گنوا بیٹھنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اپنی زندگی سے مسائل و مشکلات کو فرار ہونے پر مجبور کردینا بڑی بات ہوہے۔نوجوانوں کو جب اپنے والدین ،خاندان ،ملک و معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار پیش کرناہو ایسے وقت اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر موت کو گلے لگانا انتہائی بزدلی کا کام ہے۔اساتذہ اور والدین طلبہ اور نوجوانوں کی ذہن سازی کو اولیت دیں اور بتائیں کہ ہر مشکل سے باہر نکلنے کا راستہ موجود ہے لیکن نوجوانوں کو وہ راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین ،اساتذہ اور سماجی ذمہ داران نئی نسل کو ناامیدی ،ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کو کم کرنے ا وراس سے نجات پانے کیطریقوں کی تعلیم و تربیت فراہم کریں۔ ،اذیت ناک واقعات ،تکلیف دہ تجربات سے باہر نکلنے کا حوصلہ اور طریقے ،معاشی ،معاشرتی اور سماجی دباؤ کو کنٹرول کرنے کے گُر سکھائیں ۔خودکشی کے واقعات پر مکمل قابو پانا یقیناًناممکن ہے لیکن اس میں کمی ضروری لائی جاسکتی ہے۔شعور و آگہی ،کونسلنگ او ررہنمائی خودکشی پر قابو پانے میں اہم کردار انجام دے سکتی ہے۔شعور و آگہی کو مہمیز کرنے والے پروگرامس کا اسکولس و کالجز میں باقاعدگی سے انعقاد عمل میں لایا جائے۔ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال سے آج کا انسان تنہائی پسند ہوتا جارہاہے۔ اکثر تنہائی و اکیلے پن کی وجہ سے انسان خودکشی کی جانب خاموش پیش قدمی کرتا ہے۔ اسی لئے ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال اور اس کے مضر اثرات سے نوجوان نسل کو آگاہ کیا جائے۔جدید ٹیکنالوجی کے باعث کھیل کے میدان ویران اور دیگر تفریحی سرگرمیاں ماند پڑتی جارہی ہیں۔نوجوان نسل کو گھٹن اور اضطراب سے باہر نکالنے کے لئے کھیل کو د اور اسپورٹس کے شعبوں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کھیل کو د تفریح اور ورزش کے ذریعے زندگی کی مسرتوں کا لطف حاصلکرسکیں۔
ہمارا معاشرہ متعدد نفسیاتی مسائل میں الجھا ہوا ہے لیکن ہمارے پاس کلینکل نفسیات(Clinical Psychology)اور دماغی و نفسیاتی معالجین کا فقدان پایا جاتا ہے۔آج کے اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی آدمی ذہنی اور نفسیاتی امراض پر لب کشائی سے گریز پاہے۔ذہنی اور نفسیاتی مسائل او رامراض کے متعلق لوگوں میں پائے جانے والے ناکردہ احساس ملامت ،شرمندگی اوندامت کو دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں کبھی خاموشی مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اضافے کا سبب بنی ہے۔خودکشی ایک بزدلانہ فعل سماجی جرم اور دینی طور پر ایک عظیم گناہ ہییہ بات نوجوان نسل میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔طلبہ دکھاؤ ے کی تعلیم سے خود کو اور والدین کو دھوکا نہ دیں۔دلجمعی سے تعلیم حاصل کریں۔اپنی لیاقت کے بر خلاف فیلڈ کا ہرگز انتخاب نہ کریں۔اپنی لیاقت کے برخلاف اگروہ فیلڈ کا انتخاب کریں گے تو یقینی طور پر ان کی رفتار دیگر طلبہ سے سست ہوگی اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجائیں گے۔اسی لئے طلبہ اپنی انفرادیت کو ملحوظ رکھیں اور بھیڑ چال سے بہر صورت محفوظ رہیں۔ ذہنی تناؤ اورناامید ی سے بچاؤ کے لئے ایسی فیلڈ اور میدان کا انتخاب کریں جہاں انھیں اپنی رفتار پر اعتماد ہو۔ اپنی سوچ کو بدلتے ہوئے نوجوان ایسے راستوں کا انتخاب کریں جولاکھوں کے جم غفیرمیں بھی انھیں صیح سمت اور منزل کی جانب لے جاتے ہوں۔ مثبت اور صحیح سمت کا تعین ہی کامیابی کا پہلازینہ ہے۔ہر فرد کی ذات میں کمزوری اور طاقت یکساں پائی جاتی ہے۔ دنیا کی کامیابی صرف طاقت میں پنہاں ہے۔جو شخص اپنی پوشیدہ طاقت اور صلاحیت کو پہچان لیتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔دنیا اس کی عظمت کے گن گانے لگتی ہے۔خودکشی مایوسی اوردینی تعلیم سے دوری کا نتیجہ ہے۔اسلام ہمیں سادہ اور تصنع سے پاک زندگی بسر کرنے کا حکم دیتا ہے اور تلقین کرتا ہے کہ تادم زیست صبر و استقلال کا دامن کبھی نہ چھوڑئیں۔ نوجوان نسل کے ایمانی سطح کے جائزے سے معلوم ہوگا کہ اللہ کی ذات پر انھیں کامل بھروسہ نہیں رہا جس کی وجہ سے وہ خودکشی جیسے حرام فعل کے مرتکب ہورہے ہیں۔ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو دینی تعلیم کی بھی خاص ضرورت ہے ۔ اساتذہ،علمائے،آئمہ ،صلحاء اور والدین نوجوانوں میں اللہ سے محبت و یقین کی کیفیت کو پروان چڑھائیں۔نئی نسل کی قرآن و سنت کی روشنی میں تعلیم و تربیت اور ذہن سازی کریں۔نوجوانوں کی قیمتی جانوں کے اتلاف سے بچنے کے لئے تعلیمی اداروں کو کارکرد اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ شعوربیداری اور ذہن سازی نوجوان نسلمیں پھیلیناامیدی حرماں نصیبی اور اضطرابی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ترقیوں کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں