خود کشی خود کو ہلاک کرنایا جان بوجھ کر کسی مشکل سے تنگ آکر اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے کا نام ہے۔اسلام میں خودکشی قطعاً حرام ہے۔اسلام امن و سلامتی والا مذہب ہے جو بنوع انسان سے ہر گھڑی صبر و تحمل،اعتدال ا ور توازن پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ زندگی اللہ رب العزت کی عطاکردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم اساسی اہمیت کی حامل نعمت ہے۔ انسان کا جسم اور زندگی دونوں اللہ تبارک تعالیٰ کی عطاکردہ امانتیں ہیں جس میں ذراسی بھی خیانت دنیا اور آخرت کی تباہی کا باعث ہو سکتی ہے۔ اسلام جسم و جان کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے معاشرے کے تمام افراد کو اس امر کا پابندکرتا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کو یقینی بنائے۔انسانی جان و مال کی حرمت اللہ رب العزت کے پاس کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔نبی کریم ﷺ نے دوران طواف کعبے کومخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اے کعبے! تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے،تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے،(تیری ان تمام عظمتوں کے باوجود )قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے مومن کی جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے۔‘‘(ابن ماجہ)اسلام خودکشی تو درکنارمایوسی جو خودکشی کی جانب بڑھنے والا پہلا قدم ہے اسے بھی حرام قرار دیتا ہے۔اسلام خودکشی کی کسی توجیہ کو قبول نہیں کرتاحتیٰ کہ شدید بیماری اور معذوری کی حالت میں بھی نہیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے کئی برس بیماری کی شدت میں گذارے لیکن صبر کا دامن اس یقین کے ساتھ نہیں جانے دیا کہ جس خدا نے بیمار کیا ہے وہی شفا یاب کرے گا اور اللہ نے بالاخر آپ کو شفانصیب فرمائی۔حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جو غزوے میں بڑی بہادری سے لڑرہا تھا لیکن جب زخمی ہوا تو اُس نے خودکشی کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’میرے بندے نے اپنے اوپر موت میں جلدی کی سو میں نے اُس کے لیے جنت کے دروازے بند کر دیئے‘‘ یعنی معلوم ہوا کہ نہ تو اُس کی بہادری کسی کام آئی اور نہ اس کی شجاعت ۔ خودکشی نے اس کے سارے اعمال ضائع کردیئے یہاں تک کہ اُس کا جہاد بھی ضائع ہوگیا۔ حدیث نبوی ﷺ کی روسے جس نے خود کو جس طرح ہلاک کیا وہ دوزخ میں اُسی طریقے سے مارا جائے گا۔ نبی اکرمﷺکا ارشاد مبارک ہے’’جس نے خود کو لوہے کے ٹکڑے سے مارا اُسے دوزخ میں اسی لوہے کے ٹکڑے سے مارا جائے گا‘‘اسلام اپنی تعلیمات ،افکارا ور نظریات(teachings and idealogy) کے اعتبار سے امن و سلامتی، خیر و عافیت اور حفظ و امان کا دین ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صبر کو ذہنی تناؤ کے حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ قرآن فرماتا ہے ’’اور ہم ضرور تمھیں خوف وخطر،فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے آزمائیں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں۔اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔انہیں خوشخبری دے دو۔ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایا ت ہوں گی۔(البقرہ) اس آیت میں رجوع الی اللہ اور صبر کو خودکشی کے سدباب کے طور پر پیش کیاگیا ہے۔ خودکشی کے متبادل کے طور پر صبر کی بہترین مثال ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کے اسوہ مبارکہ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ موجودہ دور میں خودکشی کے اسباب و علل کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے انسداد اور تدارک کے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مضطرب انسانیت کا مداوا ہو۔ زیر نظر مضمون میں انہی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
خودکشی روز افزوں پھیلتی ایک عالمی وباء ؛۔
آج دنیا میں انسانوں کی موت کادوسرا بڑا ذریعہ خود کشی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق خودکشی اب ایک عالمی وباء کی صورت اختیار کرچکی ہے جس پر قابو پانا فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتا۔اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سالانہ دس لاکھ لوگ خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں ہر تین سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کی کوشش کرتا ہے۔ خودکشی کی کوشش کرنے والوں میں ہر بیس میں سے ایک شخص اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ باقی انیس افراد ناکام رہتے ہیں۔ اس تناسب سے ہر چالیس سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کے سبب موت کا شکار ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ تین ہزار افراد خودکشی کے نتیجے میں لقمہ اجل ہورہے ہیں۔ ہمارے ملک میں آئے دن خود کشی کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے اور یہ رجحان ہر عمر کے طبقے میں دیکھا گیا ہے۔اعداد و شمار کی روشنی میں ہمارے ملک میں ہرایک لاکھ افراد میں سے 36افراد خودکشی کر لیتے ہیں۔ خود کشی سے بچاؤ کی عالمی تنظیم کے صدر برائین مشارا کے بموجب دنیا میں جنگوں، دہشت گردی اور تشدد کے واقعات کے باعث جتنی اموات واقع نہیں ہوئی ہیں اتنی خودکشی کے نتیجے میں دیکھنے میں آئی ہیں۔خودکشی کے ذریعے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا رجحان پندرہ سے چوبیس سال کی عمریعنی نوجوان نسل کے افراد میں زیادہ دیکھنے میں آیاہے۔ 2020 تک دنیا میں خودکشی کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد پندرہ لاکھ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیوں کی شرح ساؤتھ کوریا میں ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔ اسلامی ممالک میں خودکشی کی شرح دنیا کے باقی ممالک سے قدرے کم پائی گئی ہے۔یہ اسلام کی برکت ہے۔عالمی سطح پر خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر اقوام متحدہ نے 1990 میں خود کشی سے بچاؤ کی بین الاقوامی پالیسی کو منظور دی اور 10ستمبر 2003 کو پہلی مرتبہ خود کشی سے بچاؤ کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سے اس دن کودنیا بھر میں لوگ اپنے گھروں کی کھڑکیوں کے پاس ایک عدد موم بتی جلا کر خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کو یا د کرنے کے علاوہ خودسوزی کرتے ہوئے بچنے والوں افراد کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔
نوجوانوں میں فروغ پاتا خودکشی کا تشویشناک رجحان؛۔
نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔طلبہ اور نوجوانوں میں منفی خیالات ا و رجحانات کا نمو پانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یقیناًہمارے تعلیمی اور سماجی نظام میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔کوئی ایسی بات یا فکر ہے جو ہماری نوجوان نسل کو خودکشی جیسے انتہائی ا قدام پر مجبور کر رہی ہے۔خودکشی کی خبروں خاص طور پر نوجوان نسل کی جانوں کے اتلاف کی خبریں ذہن دل کو آئے دن ملول کر رہی ہیں۔نوجوان نسل ہمارے ملک کا بیش قیمت اثاثہ ہے ۔ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔خودکشی کی بے شمار وجوہات میں سماجی دباؤ ،ڈپریشن ،خوداعتمادی کا فقدان،غربت ،عشق و محبت میں ناکامی وغیرہ شامل ہیں ان وجوہات میں سب سے زیادہ تشویش کا پہلو تعلیمی دباؤ کی وجہ سے رونما ہونے والی اموات (خودکشیاں) ہیں۔ ریسرچ میگزین Lancet کے مطابق ہمارے ملک کے نوجوانوں کی موت کا دوسرا بڑا سبب خودکشی ہے۔ لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن میں طبی نفسیات کے پروفیسر وکرم پاٹل کے مطابق ساری دنیا کے مقابلے میں ہندوستان میں پڑھے لکھے اور امیر نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔ لینسٹ کے مطابق جنوبی ہندوستان میں خودکشی کا رجحان سارے ملک کے مقابلے میں بہت تیزی سے سرایت کرتا جارہا ہے۔جنوبی ہند کے خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے پندرہ تا تیس برس کے نوجوانوں میں خودکشی کا پریشان کن رجحان زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔مغربی ممالک میں خودکشی کا رجحان زیادہ تر عمر رسیدہ بزرگ افراد ،غریب اور کم تعلیم یافتہ شہریوں میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے برخلاف ہندوستان میں خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر امیر اوراعلی تعلیم یافتہ گھرانوں کے نوجوان پائے گئے ہیں ۔یہ بات ماہرین نفسیات کے لئے الجھن، بے چینی اور تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔کئی بچے والدین اور اساتذہ کی جانب سے لادے گئے تعلیمی دباؤ کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کربیٹھتے ہیں۔دنیا میں ہر انسان کم از کم ایک بار ڈپریشن کا شکار ضرور ہوتا ہے۔یہ منفی رجحان ذیل میں پیش کردہ وجوہات کی یا پھر کسی اور صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔بعض موقعوں پر ڈپریشن اتنی شدت اختیار کرجاتا ہے کہ اس سے باہر نکل پانا لوگوں کے لئے سخت مشکل ہوتا ہے۔ایسے حالات میں ناامیدی کا شکار نوجوان مسائل سے نجات پانے کے لئے اپنی زندگی کا چراغ بجھا دیتے ہیں۔ہر خودکشی کے پیچھے کوئی وجہ اور کوئی قاتل خواہ والدین کی صورت،اساتذہ ،خاندان یا معاشرے کے کسی فرد کی شکل میں یا پھرمعاشرتی ،معاشی،تعلیمی،مذہبی،سیاسی پالسیوں کی شکل میں ضرور چھپا ہوا ہے ۔بقول شاعر
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا!
خودکشی کا شکار ملک کی نوجوان نسل ایک جائزہ ؛۔
پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمارکے مطابق سال 2014 سے 2016 کے درمیان ملک بھر میں 26600 طلبہ نے خودکشی کی۔ سال 2016 میں 9474 طلبہ نے، سال 2015 میں 8934 طلبہ نے اور سال 2014 میں 8068 طلبہ نے خودکشی کی۔ 2016 میں طلبہ کی خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات 1350مہاراشٹر میں واقع ہوئے جبکہ مغربی بنگال میں1147 ،ٹملناڈو میں 981 اور مدھیہ پردیش میں 838 واقعات رونما ہوئے۔2015 میں خودکشی کے مہاراشٹر میں 1230، ٹملناڈو میں 955، چھتیس گڑھ میں 730 اور مغربی بنگال میں 676واقعات رونما ہوئے۔بعض گوشوں سے ایسی بھی خبریں گردش کررہی ہیں کہ ہندوستان میں ہرگھنٹے میں ایک طالب علم خودکشی کرتا ہے جس کے لئے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آر بی) کے2015کے اعداد و شمار کا بھی تجزیہ کیا گیا۔ اگر میں یہ کہوں تو کوئی کذب بیانی نہیں ہوگی کہ ہمارے ملک میں پچھلے کئی سالوں سے طلبہ کی خودکشی کے واقعات رکنے کانام نہیں لے رہے ہیں۔میڈیکل جرنل لانسیٹ کی 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق، 15 سے 29 سال کے درمیان کے نابالغ اور نوجوانوں میں خودکشی کی اونچی شرح والے چند سر فہرست ممالک کی لسٹ میں ہندوستان بھی شامل ہے۔سماجی ماہرین و جہد کاروں کے مطابق نوجوانوں میں خودکشی کے واقعات میں اضافے کا سبب عالمگیریت کی وجہ سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل، مشترکہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، والدین کی عدم توجہ، جذباتی سہاروں سے محرومی وغیرہ ہیں۔معاشی مسائل بھی عام افراد میں مایوسی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔علمائے دین اور دانشوروں کے مطابق دین سے دوری اور افلاس کی وجہ سے خودکشی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔طلبہ میں بڑھتاہوا خو دکشی کا تناسب معاشرے میں تربیت کے فقدان کی غمازی کرتاہے۔،جبکہ دوسری وجہ تعلیم میں سخت مقابلہ بھی ہے۔
خودکشی کی وجوہات، ایک طائرانہ جائزہ ؛۔
خودکشی کے ذریعے ہوئی اموات کی جائزہ رپورٹس کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ دنیا کے تقریباًہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں سماجی ناہمواری اور عدم توازن موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہورہے ہیں اور یہی ذہنی کیفیت بسا اوقات خود کشی جیسے حتمی اقدام پر افراد کو مجبور کر تی ہے اور جس کا منطقی انجام خودکشی جیسے بہت بھیانک روپ میں سامنے آتا ہے۔تحقیقات سے خودکشی کی مزید وجوہات سامنے آئیں ہیں۔یہ ایک چونکادینے والی حقیقت ہے کہ خودکشی کے ہر واقعے کی اپنی ایک کہانی اور وجہ ہے۔ تاہم اہم وجوہات میں ذہنی و نفسیا تی امراض، غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ ذنی، بے عزتی کا خوف، منفی مقابلے کا رجحان، لامتنا ہی خواہشات وغیرہ شامل ہیں۔خودکشی ایک پیچیدہ سماجی مسئلہ ہے جس کے سد باب میں دنیا کے بہت سارے ترقی یافتہ معاشرے آج بھی ناکام ہیں۔ تاہم شعور بیدری اور آگہی کے ذریعے اس رجحان کو کم کیا جاسکتاہے۔خود کشی کے عوامل کا عام جرائم کی تفتیش کی طرح پتالگانا ممکن نہیں ہے۔کیونکہ یہ عمل ایک فرد کی سوچ پر مبنی ہوتا ہے اور کسی شخص کی سوچ پر پہرہ نہیں لگا یا جاسکتا۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اہم تبدیلیوں کے ذریعے معاشرے کی مجموعی سوچ کو تبدیل کرتے ہوئے خود کشی کے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے اور اس سمت حکومت اور انسانی حقوق کے لئے برسرکار انجمنوں کو پیش قدمی کرنا چاہئے۔انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 50 فیصد نوجوان غربت، بیروزگاری اور اقتصادی مشکلات کے سبب خودکشی کر تے ہیں۔ جبکہ ماہرین نفسیات کے مطابق 80 فیصد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرلیتے ہیں۔ مینٹل ہیلتھ ڈلی نے خودکشی کے متعدد اسباب میں خا ص طور پر پندرہ وجوہات کا ذکر کیا ہے جو خودکشی کا محرک بنتے ہیں۔ان محرکات میں ذہنی بیماریاں(عموماً ان کا تعلقات نفسیاتی امراض سے ہی ہوتا ہے)،غیر خوش گوار تجربات جیسے ایذا رسانی ڈرانا دھمکانا وغیرہ،غیر ہموار شخصیت اور شخصیت سے وابستہ مسائل،نشیلی ادویات (ڈرگس) کا استعمال،غذائیت سے مربوط مسائل،بے روزگاری،اکیلاپن،رشتے اور تعلقات سے جڑے مسائل،جنیاتی توارثی امراض ،غیر ضروری فلسفیانہ نکتہ نگاہ،فلسفیانہ خواہشات کی عدم تکمیل،وجود کا بحران،جان لیوا امراض،دائمی جسمانی اورذہنی درد و تکلیف ،معاشی مسائل ڈاکٹرس کی جانب سے تجویزکردہ ادویات کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ متعدد ذیلی وجوہات جنسی و جسمانی تشدد ،گھریلو تشدد، خانہ جنگی اور جنگ کی وجہ رونما ہونے والے اثرات بھی خودکشی کے اسباب میں شامل ہیں۔
خودکشی کا انسداد اور تدارک ،چند تجاویز ؛۔
منفی رجحانات سے نبردآزمائی کے لئے نئی نسل کی اوائل عمری سے ذہنی تربیت کی اشد ضرور ت ہے۔ذہنی طور پر نوجوان نسل کو مضبوط بنانے کے لئے والدین اور اساتذہ آگے آئیں۔بچوں کو زندگی کے نشیب و فراز،سرد و گرم، تلخ و ترش حالات کا علم فراہم کریں۔ بچوں کو مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور انہیں حل کرنے کا ہنر سکھائیں۔بچوں پر کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالنے کے بجائے ان میں امید ،حوصلہ اور ہمت کو جاگزیں کریں۔والدین اور اساتذہ بچوں کے مسائل اور ان کی ذہنی حالت کا صحیح ادراک کریں۔ان کے ذہنوں میں محنت اور جستجو کی اہمیت کو اجاگر کریں۔بتائیں کہ مسلسل محنت و جستجو سے مشکل سے مشکل اور ناممکن سے ناممکن کام کو آسان ا ور ممکن بنایا جاسکتا ہے۔موت کبھی مسائل کا حل نہیں ہوسکتی۔یہ ایک بزدلانہ اور حرام فعل ہے۔بچوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کریں کہ وہ مشکلات اور مسائل سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے ان کا سامنا کریں۔مشکلات و مسائل سے فرار اختیار کرنا اور اپنی جان گنوا بیٹھنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اپنی زندگی سے مسائل و مشکلات کو فرار ہونے پر مجبور کردینا بڑی بات ہوہے۔نوجوانوں کو جب اپنے والدین ،خاندان ،ملک و معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار پیش کرناہو ایسے وقت اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر موت کو گلے لگانا انتہائی بزدلی کا کام ہے۔اساتذہ اور والدین طلبہ اور نوجوانوں کی ذہن سازی کو اولیت دیں اور بتائیں کہ ہر مشکل سے باہر نکلنے کا راستہ موجود ہے لیکن نوجوانوں کو وہ راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین ،اساتذہ اور سماجی ذمہ داران نئی نسل کو ناامیدی ،ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کو کم کرنے ا وراس سے نجات پانے کیطریقوں کی تعلیم و تربیت فراہم کریں۔ ،اذیت ناک واقعات ،تکلیف دہ تجربات سے باہر نکلنے کا حوصلہ اور طریقے ،معاشی ،معاشرتی اور سماجی دباؤ کو کنٹرول کرنے کے گُر سکھائیں ۔خودکشی کے واقعات پر مکمل قابو پانا یقیناًناممکن ہے لیکن اس میں کمی ضروری لائی جاسکتی ہے۔شعور و آگہی ،کونسلنگ او ررہنمائی خودکشی پر قابو پانے میں اہم کردار انجام دے سکتی ہے۔شعور و آگہی کو مہمیز کرنے والے پروگرامس کا اسکولس و کالجز میں باقاعدگی سے انعقاد عمل میں لایا جائے۔ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال سے آج کا انسان تنہائی پسند ہوتا جارہاہے۔ اکثر تنہائی و اکیلے پن کی وجہ سے انسان خودکشی کی جانب خاموش پیش قدمی کرتا ہے۔ اسی لئے ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال اور اس کے مضر اثرات سے نوجوان نسل کو آگاہ کیا جائے۔جدید ٹیکنالوجی کے باعث کھیل کے میدان ویران اور دیگر تفریحی سرگرمیاں ماند پڑتی جارہی ہیں۔نوجوان نسل کو گھٹن اور اضطراب سے باہر نکالنے کے لئے کھیل کو د اور اسپورٹس کے شعبوں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کھیل کو د تفریح اور ورزش کے ذریعے زندگی کی مسرتوں کا لطف حاصلکرسکیں۔
ہمارا معاشرہ متعدد نفسیاتی مسائل میں الجھا ہوا ہے لیکن ہمارے پاس کلینکل نفسیات(Clinical Psychology)اور دماغی و نفسیاتی معالجین کا فقدان پایا جاتا ہے۔آج کے اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی آدمی ذہنی اور نفسیاتی امراض پر لب کشائی سے گریز پاہے۔ذہنی اور نفسیاتی مسائل او رامراض کے متعلق لوگوں میں پائے جانے والے ناکردہ احساس ملامت ،شرمندگی اوندامت کو دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں کبھی خاموشی مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اضافے کا سبب بنی ہے۔خودکشی ایک بزدلانہ فعل سماجی جرم اور دینی طور پر ایک عظیم گناہ ہییہ بات نوجوان نسل میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔طلبہ دکھاؤ ے کی تعلیم سے خود کو اور والدین کو دھوکا نہ دیں۔دلجمعی سے تعلیم حاصل کریں۔اپنی لیاقت کے بر خلاف فیلڈ کا ہرگز انتخاب نہ کریں۔اپنی لیاقت کے برخلاف اگروہ فیلڈ کا انتخاب کریں گے تو یقینی طور پر ان کی رفتار دیگر طلبہ سے سست ہوگی اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجائیں گے۔اسی لئے طلبہ اپنی انفرادیت کو ملحوظ رکھیں اور بھیڑ چال سے بہر صورت محفوظ رہیں۔ ذہنی تناؤ اورناامید ی سے بچاؤ کے لئے ایسی فیلڈ اور میدان کا انتخاب کریں جہاں انھیں اپنی رفتار پر اعتماد ہو۔ اپنی سوچ کو بدلتے ہوئے نوجوان ایسے راستوں کا انتخاب کریں جولاکھوں کے جم غفیرمیں بھی انھیں صیح سمت اور منزل کی جانب لے جاتے ہوں۔ مثبت اور صحیح سمت کا تعین ہی کامیابی کا پہلازینہ ہے۔ہر فرد کی ذات میں کمزوری اور طاقت یکساں پائی جاتی ہے۔ دنیا کی کامیابی صرف طاقت میں پنہاں ہے۔جو شخص اپنی پوشیدہ طاقت اور صلاحیت کو پہچان لیتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔دنیا اس کی عظمت کے گن گانے لگتی ہے۔خودکشی مایوسی اوردینی تعلیم سے دوری کا نتیجہ ہے۔اسلام ہمیں سادہ اور تصنع سے پاک زندگی بسر کرنے کا حکم دیتا ہے اور تلقین کرتا ہے کہ تادم زیست صبر و استقلال کا دامن کبھی نہ چھوڑئیں۔ نوجوان نسل کے ایمانی سطح کے جائزے سے معلوم ہوگا کہ اللہ کی ذات پر انھیں کامل بھروسہ نہیں رہا جس کی وجہ سے وہ خودکشی جیسے حرام فعل کے مرتکب ہورہے ہیں۔ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو دینی تعلیم کی بھی خاص ضرورت ہے ۔ اساتذہ،علمائے،آئمہ ،صلحاء اور والدین نوجوانوں میں اللہ سے محبت و یقین کی کیفیت کو پروان چڑھائیں۔نئی نسل کی قرآن و سنت کی روشنی میں تعلیم و تربیت اور ذہن سازی کریں۔نوجوانوں کی قیمتی جانوں کے اتلاف سے بچنے کے لئے تعلیمی اداروں کو کارکرد اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ شعوربیداری اور ذہن سازی نوجوان نسلمیں پھیلیناامیدی حرماں نصیبی اور اضطرابی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ترقیوں کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...