خبردار! ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ کریں

خبردار! ”ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ کریں“۔ یہ چند حرفی اعلان ان سب سیاسی پنڈتوں، سیاسی مداریوں کے لیے ہے جو دہائیوں سے کرسی اقتدار پر رہ چکے ہیں، لیکن علاقے کی پس ماندگی ختم کر سکے، نہ ہی کوئی اعلی پائے کا ترقیاتی کام کروا پائے۔ اگر کہیں کنواں نکلوایا، گلی پختہ کروائی، روڈ پر کنکریٹ ڈال دی یا ٹرانسفارمر لگوا دیا تو حضور! اپنی ذمہ داری یا قوم کی بھلائی کے لیے تو نہیں کیا ناں! ووٹ کے لیے کیا اور ووٹ لیا۔ کام کروایا بھی تو صرف وہاں جہاں سے خبر تھی ووٹ ملے گا، یا ووٹ لیا۔ رہی بات علاقائی سطح پر کام کی تو جو کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ میرا ووٹ عرصہ دراز سے آپ کی جھولی میں گرتا رہا لیکن میرے علاقے کے لیے کیا کیا؟ پانی اب بھی تیسرے محلے کے گھر سے لاتے ہیں کہ اپنا کنواں بھی جواب دے چکا۔

ٹیوب ویل منظور شدہ ہے لیکن اس کے حصے کا ووٹ گزشتہ برسوں لے گئے تھے آپ اور یہ میری ساتویں نسل کے لیے بنے گا۔ مرکزی سڑک، میرے گھر کی طرف والی ایسی صحیح سلامت و کشادہ ہے کہ کھا پی کر سوار ہوں گاڑی میں، تو دس منٹ کے اندر اندر ہضم ہو جائے۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار روڈ آپ اور آپ جیسی دیگر ہستیوں کی نظر کرم کا منتظر اور ووٹروں کا منہ چڑاتے ہوئے کہتا ہے: ”اور دو ووٹ انہیں“۔ بجلی کی صورت احوال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

یاد رہے میں خیبر پختون خوا کے دور دراز کے قصبے مانسہرہ سے زرا دور ہوں۔ جہاں کے باسیوں کو صرف نعرے لگانے ہی کی سہولت میسر ہے۔ پانی شہری اپنی بنائی بورنگ یا کنویں سے حاصل کرتے ہیں؛ جب کہ دیہی آبادی کی عورتیں اب بھی سر پر مٹکے اٹھا کر بھر بھر لاتی ہیں۔ پہاڑی علاقوں پر رہنے والی آبادی کا سارا ووٹ کھا کر بھی انہیں سہولیات سے دور رکھا ہوا ہے۔

سڑک! جی جی وہ بھی میسر ہے۔ گھنٹا دو دو گھنٹا بے چارے پیدل سفر کرتے ہیں کہ روڈ کی سہولت صرف شہری آبادی کو میسر ہے۔ روڈ اتنے کشادہ کہ دو گاڑیاں ہی مشکل سے گزرتی ہیں۔ چھوٹے سے شہر میں گھنٹا بھر ٹریفک جام رہتا ہے کہ لنک روڈ تو کوئی ہے نہیں اور ٹریفک کی بہتری روڈ کی کشادگی کے لیے کچھ کیا ہی نہیں۔ کسی دور کے علاقے میں احسان کرتے ہوئے سیاسی نمایندے نے روڈ نکلوایا بھی تو ایسا کہ گدھے اور خچر بھی منہ بنا کر مشکل سے چڑھیں، چہ جائیکہ انسان! اور نمایندے بے شرمی کی سرخی آنکھوں میں لائے وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں اقتدار کی چڑیا پکڑنے۔

اسپتال وہی سالوں پرانے جن میں عملہ، ادوایات اور سہولیات اب بھی مشکل سے پوری ہوتی ہیں۔ علاج معالجے کے لیے ایبٹ آباد جانا پڑتا ہے کہ یہاں معیاری علاج تو درکنار معیاری اسپتال بھی نہیں۔ تعلیم کے لیے بھی لوگ بڑے شہروں کو جاتے ہیں کہ یہاں ایسا کوئی بندوبست نہیں۔ لڑکوں کا ایک کالج تو ہے جہاں بارہویں کے بعد کی کلاسیں ہیں جب کہ لڑکیوں کے لیے وہ بھی نہیں۔ لڑکیاں بارہ جماعتیں پڑھ لیں اس کے بعد یا تو گھر بیٹھ کر جھاڑو پوچا کریں یا پھر گھر والے اجازت دیں تو دورکے شہر جا کر ہاسٹل میں رہ کر تعلیم مکمل کریں اور جو لوگ ہاسٹل کا خرچ برداشت نہ کر سکیں وہ اپنی بچیوں کو گھر پر ہی بٹھائیں۔

سلائی کڑھائی سکھانی ہے تو گھر پر ہی کہ ایسا کوئی ادارہ بھی نہیں جہاں بچیاں یہ سب سیکھ سکیں۔ کالج کی مزید کلاسوں کے لیے جگہ مختص ہے اور افتتاح کا اعلان بھی ہوتا ہی رہتا ہے۔ لیکن اطمینان رکھیں یہ لولی پاپ ہے آنے والی نسلوں کے لیے بن ہی جائے گا۔

اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ نہیں میاں! کام کروائے ہیں تم جھوٹ کہتے ہو یا تم پراپگنڈا کرتے ہو۔ ہمارے ہاں تو کام کروایا۔ تو جناب! یاد رکھیں: ہم نے جو دیکھا، وہ لکھا؛ جو حقائق تھے تسلیم کیے، حقیقت سے نظریں چرانا نہیں سیکھا۔ کسی کے علاقے میں کیسا ہے؟ سروکار نہیں، اپنے ہاں تو مسائل کا انبار ہے۔ سہولیات نام کی چڑیا کہیں دور بسیرا کیے ہوئے ہے۔ اب بھی کسی کو سمجھ نہیں آتا اور بہت فکر کھائے جا رہی ہے، سیاسی مداریوں کی؛ بہت شوق ہے، تو آجائے میں دکھانے کو تیار ہوں وہ سب جو ہم لکھتے ہیں۔ جب دو گھنٹے کَھلی چڑھائی چڑھیں گے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ جب ہانپتے کانپتے واپس لوٹیں گے، ہاتھ میں پانی کا گیلن لیے، تو بجلی بھی نہ ہو گی، اگر ہوگی تو اتنی کہ پنکھے کے پر نہایت اطمینان سے گنے جا سکیں گے۔ جب بھوک لگے گی تو گیس؟ نہیں جناب! لکڑیاں جلائیں گے، پھونکیں مار کے آگ بھڑکائیں گے۔ تب کچھ بنے گا اور کھا کر ڈکاریں گے اور خوش ہوں گے کہ ہاں! میرے علاقے میں ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔ بہت ہوئے ہیں۔

قارئین! ووٹ دینا چوں کہ از حد ضروری ہے کہ ایک ووٹ کی بہت قیمت ہے۔ اسی سے فیصلہ ہونا ہے کہ کون طلوع ہو گا اور کون غروب ہو گا۔ یہ وقت آنکھیں بند کر کے بیٹھنے کا نہیں بلکہ سوچنے کا ہے کہ کون سا چہرہ ایسا ہے جو ملک کا، علاقے کا مستقبل سنوارے گا۔ دہائیوں سے اقتدار و اختیار پر کنڈلی مارے بیٹھے مداری، پانچ سال تک ملک کو طبلہ بنا کر بجاتے ہیں۔ اب کوئی ایسا چہرہ لایا جائے جو الیکشن کا چاند نہ ہو بلکہ ہماری ہی طرح کا انسان ہو۔ جسے ہمارے مسائل کی خبر ہو۔ جس کا رہن سہن ہمارے ساتھ ہو۔ جو علاقے کے مسائل سے واقفیت رکھتا ہو۔

پانچ سیکنڈ کے عمل کو نتیجہ خیز بنائیں وگرنہ اس پانچ سیکنڈ کے عمل کا خمیازہ پانچ سال تک بھگتنا پڑے گا۔ اور آپ کا منتخب کردہ امیدوار الیکشن کا چاند بن کر گلی محلے میں تو گھومے گا لیکن اقتدار کی قیمتی چڑیا کو پکڑتے ہی غروب ہوجائے گا اور پھر تب ہی طلوع ہو گا جب 2023ء کے انتخابات کا اعلان ہو گا۔ اس سے پہلے کہ ہماری خوش فہمیوں کے غباروں سے ہوا نکال دی جائے ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو علاقے میں ترقیاتی کام کروائے۔ جو ہمارے مستقبل کے لیے فکر مند ہو۔ جو علاقے کی پس ماندگی ختم کر دے۔ جو آپ ہی میں سے ہو۔ جو ہر سمے آپ کی خدمت، مسائل کے حل کے لیے موجود رہے۔ جو بلا تقریق قوم کی خدمت کرے نہ کہ یہ کہے ووٹ تو مجھے دیا نہیں کام کاہے کرواوں؟

یاد رکھیئے وہ چہرہ کسی بھی پارٹی، جماعت سے ہو سکتا ہے۔ بس زرا دھیان رکھیے گا کہ کون مستحق ہے آپ کے ووٹ کا۔ جو مستحق نہیں اور دھوکا دہی سے کام لیتا ہے اسے کہہ دیجیے: خبردار! ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ کریں۔ ڈھول کی تھاپ پر تبدیلی کے دعوے داروں اور مذہب کا چورن بیچنے والوں سے بھی معذرت کیجئے۔ خدا کرے اندھی تقلید کی ماری یہ قوم ملک کے مستقبل کے بارے سوچ کر فیصلہ کرے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں