ریاست اور استوانِ ریاست

            گزشتہ دوتین برس سے ایک جملہ بہت زیادہ سنائی دینے لگا ہے ہے ، ریاست کے خلاف کوئی بیان تقریر یا کسی قسم کی کوئی ایسی کاروائی جس سے ریاست کی ساکھ متاثر ہو، اس کی سرحدیں کمزوریا اس کا وقار مجروح ہوتا ہو، ایسی کسی بھی کاروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

            اس جملے کا مطلب سمجھ لینے سے قبل اس بات کو بھی سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ ریاست کے بنیادی عناصر کون کون سے ہیں یا جن کے بغیر ہم کسی ریاست کے وجود کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔

            ریاست کے لئے سب سے پہلی شرط ہے خطہ زمین کا ہونا ہے۔ ایسا خطہ زمین جس کو مکمل آزادی و خود مختاری حاصل ہو، دوسری شرط خود مختار حکومت ۔ایسی حکومت اور حکمران جن پر عوام مکمل اعتماد رکھتے ہوں اور وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتی ہو، تیسرا ستون مقننہ، چوتھا ستون عدلیہ اور پانچوان اہم ترین ستون دفاع ہے۔ یہ وہ ستون ہیں جن میں سے کسی ایک کو بھی کمزور کردیا جائے یا خارج کر دیا جائے تو ریاست کا وجود صرف خطرے میں ہی نہیں پڑجاتا بلکہ وہ ریاست اپنا وجود کسی وقت بھی کھو سکتی ہے۔

            اب ذرا غور کیجئے کہ جس ریاست میں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہ ہو تو ریاست کا نظام چلایا جا سکتا ہے؟ یا ریاست کے وجود میں آنے کے بعد سب سے اہم اور بنیادی ستون ہی کو بار بار ہلایا جاتارہے تو کیا ریاست اپنی بنیادوں پر کھڑی رہ سکتی ہے؟۔ مقننہ کی بغیر کیا ریاست کو فلاحی ریاست بنانا ممکن ہے؟ بغیر عدل و انصاف ریاست میں امن و امان قائم رکھا جاسکتا ہے اور کیا دفاع یعنی اچھی فوج کے بغیر لوگوں میں احساس تحفظ کو پیدا کیا جا سکتا ہے؟۔

            بد قسمتی سے ہمارے ملک میں جب جب بھی یہ بات سننے میں آتی ہے وہ اس وقت سننے میں آتی ہے جب عدلیہ اور اس کے فیصلوں کوتنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہو یا فوج  کے کسی ادارے یا براہ راست افواج پاکستان کو برا کہا جارہا ہو یا ان کے کسی جانب دارانہ اقدام کو نشانہ تنقید بنایا جا رہا ہو۔

            میں قانون کا طالب علم تو نہیں لیکن آج کل جو بات میڈیا کے ذریعہ کانوں تک پہنچتی ہے وہ یوں ہے جیسے قانون میں اتنا ہی لکھا ہوا ہے کہ ” جو شخص یا گروہ یا پارٹی افواج پاکستان اور عدلیہ کے متعلق کسی قسم کی ایسی بات جس سے اس کی ساکھ یا وقار مجروح ہوتاہو ، قابل گرفت بھی ہے، غداری کے مترادف بھی ہے اور آرٹیکل 6 کا اطلاق بھی صرف اسی پر ہوگا۔

            اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی ہر حرکت جو ریاست یا ریاستی اداروں کو کمزور کرتی ہو تو اس کو نقصان پہچانے والی ہر قوت کے خلاف ایسا ہی قدم اٹھا نا چاہیے لیکن اس کو صرف دو اداروں تک ہی محدود رکھ دینا کسی طور بھی درست نہیں۔

            ہمارے ملک میں کروڑوں عوام اپنی رائے سے اپنے نمائندوں کا چناوکرتے ہیں، کیا کروڑوں عوام کی رائے کا احترام یہ ہے کہ ان کی رائے سے منتخب حکومت یا ان کے نمائندوں کو گالیاں دی جائیں اور ان کے مینڈیٹ کو جعلی قرار دینے کی سازشیں کی جائیں؟ ۔ منتخب حکومتوں کو توڑدیا جائے یا پھر ان پر اتنا دباؤبڑھایا جائے کہ وہ ناک رگڑنے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے؟۔

            گزشتہ چند ماہ قبل اور اب بھی اکثر ہر حکومتی میٹنگز میں دفاعی اداروں کے سربراہان کی بھرپور شرکت اور پوری دنیا میں اس اس پیغام کو عام کرنا کہ اصل حکومت عوای نمائندوں کی نہیں ہے، کا ذمہ دار کون ہے؟ اور کیا اس سے ریاست کا وقار بڑھ رہا ہے یا ریاست کمزور ہو رہی ہے۔

            حکومت کو، حکومتی سربراہوں کو ہر ہر سطح پر گالیاں تک دے دینا، ان کو نااہل سمجھنا بھی اور کہنا بھی، ان کے خلاف جلوس نکالنا، جلسے کرنا، حکومتی ایوانوں کا گھیراؤکرنا، کئی کئی ماہ دھرنے دینا ، اعلان بغاوت کرنا، کیا یہ سب ریاست کو اور اس کے وقار کو مضبوط کرنے والی باتیں ہیں؟،کیا جب جب یہ ساری باتیں کی جاتی ہیں تو دفاعی اداروں کی جانب سے کوئی ایسا بیان آتا ہے کہ ریاست کو کمزور کرنے والی باتوں کا سختی سے نوٹس لیا جائے گا؟، یہی نہیں جب ایک پارٹی کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ایمپائیر کی انگلی کسی بھی وقت اٹھ سکتی ہے تودفائی اداروں کی جانب سے نہ تو اس بات کی وضاحت طلب کی گئی کہ کہنے والوں کا اشارہ کس کی جانب ہے اور نہ ہی یہ وضاحت کی گئی کہ اس قسم کی بیہودہ گوئی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

            آج کل میڈیا کو پابند کیا جارہا ہے کہ وہ کوئی ایسی تقریر یا پروگرام نشرنہیں کریں جس سے بغاوت کی بو آتی ہو، نفرت کی فضا پروان چرھتی ہو، عصبیت کا خطرہ ہو، لوگوں میں بے چینی جنم لیتی ہویا جس سے ریاست یا ریاستی ادارے (افواج پاکستان اور عدلیہ) کمزور ہوتے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کی تمدنی زندگی کے بعد سے تا حال دنیا میں جہاں جہاں بغاوتیں کی جاتیں ہیں وہ صرف اور صرف حکومتِ وقت کے خلاف کی جاتی ہیں یا بغاوت ہوتی ہی حکومت اور حکمرانوں کے خلاف ہے۔ آج تک کسی بھی مملکت یا ریاست میں حکومت کے علاوہ کسی بھی ادارے کی جانب اٹھایا جانے والا قدم یا عوام کے رد عمل کو بغاوت کا نام نہیں دیا گیا لیکن ہمارے ملک میں حکومت کے خلاف اٹھایا جانے والا کوئی قدم بھی بغاوت قرار دینا تو دور کی بات، اسے مستحسن سمجھا جاتا ہے اور اس کی تائید باقی وہ سارے ادارے کر رہے ہوتے ہیں جن کو حکومت کے تحت چلایا جاتا ہے۔ یہ کیسی ریاست ہے جہاں حکومت کے خلاف اٹھائی جانے والی کوئی بھی آواز نہ تو بغاوت قرار دی جاتی ہے اور نہ ہی آواز اٹھانے والے کے خلاف بغاوت کا کوئی مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ نہ اس کی تحریر پر کوئی پابندی لگائی جاتی ہے اور نہ ہی تقریر اور تصویر پر۔ جبکہ حکومت کے علاوہ کسی اور ادارے کے خلاف اٹھائی جانے والی آوازوں کو بغاوت سمجھ کر ان کو اٹھالیا جاتا ہے اور کسی بھی عدالت میں پیش کرنے کی بجائے اسے دوسرے جہان کی سیر کرادی جاتی ہے۔ وہ سیاسی و مذہبی جماعتیں جن کا بس نہیں چلتا کہ وہ ترکی کے ”اردگان“ کے آگے سجدہ ریز ہو جائیں، ترکی میں فوج کے خلاف اٹھائے جانے والے قدم کو مستحسن قرار دیتے نہیں تھکتیں وہی ساری کی ساری پاکستان میں ”چوں“ کرنے کو بھی بغاوت قرار دینے میں لمحہ نہیں لگاتیں۔

            کچھ عرصہ قبل قادری صاحب کے منھ سے کتنے پھول جھڑا کرتے تھے، پاکستان کے ”فریب زدہ“ لوگوں نے پورے پاکستان میں ٹنوں کے حساب سے وہ پھول فروخت کئے، سارے اداروں کو خوب خوب گالیاں پٹخاری گئیں، اسلام آباد میں لشکر کشی کی، غیرملکی ہوائی جہاز ہائی جیک کیا، اسلام آباد میں پولیس والوں سے ماڈل ٹاؤن لاہور کا بدلہ لیا اور ان سب کارناموں کو میڈیا کئی کئی ماہ دکھاتا رہا۔

            پی ٹی آئی کے سربراہ کا سارے تماشوں میں ساری باتیں ریاست سے پیارو محبت کا اظہار ہی تھیں، سول نافرمانی کے اعلان سے لے کر حکومت گرانے اورایمپائیر کی انگلی اٹھنے تک کا سارا ڈرامہ ریاست کو مضبوط کرنے کے لئے ہی تھا، کیا میڈیا کو مجبور کیا گیا کہ ان سب باتوں کو نشر نہ کیا جائے؟۔

            المیہ یہی ہے کہ ہمارے ملک میں جو بھی کچھ ہو رہا ہے اس میں تاثر یہی جارہا ہے کہ یہ سب کچھ اس ملک کے خاص طبقے کے لئے ہو رہا ہے، لوگ ملک کی دولت بوریاں بھر بھر کے لے جارہے ہیں، کوئی پرواہ نہیں، قطر، مسقط ، ابوظہبی اور دوبئی میں زمینیں اور جائیدادیں بنا رہے ہیں، اچھا کر رہے ہیں ، کیونکہ یہ سب ’دھرتی کے بیٹے“ ہیں، بیٹے ہی تو والی وارث ہوتے ہیں۔

            حکومت کو برا کہو، بلکہ اس کو تبا ہ بر باد کر دو، صدر اور وزیر اعظم کو کوسو، پارلیمنٹ کو جعلی کہہ دو یہاں تک کے ”مارشل لا“ کو نافذ کرکے ملک کے آئین کی دھجیاں ہی کیوں نہ اڑادو، یہ سارے اعمال نہ تو ریاست کو کمزور کرتے ہیں اور نہ ہی قابل مواخذہ ہیں، لیکن دو ادارے اتنے مقدس ہیں کہ اگر ان کے متعلق کچھ کہہ دیا تو ریاست تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ کوئی ان سے یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ “جنرل اروڑہ” کے آگے ہتھیار کیوں ڈالے جبکہ ہر سپاہی کا یہ عہد ہوتا ہے کہ وہ ملک کے دفاع کے لئے جان بھی قربان کر دے گا؟۔

            کیا دنیا میں پاکستان کے علاوہ کوئی اور ملک بھی ہے جس کی کوئی حکومت ایسی نہیں بنی ہو جو مستحکم قرار دی جاسکتی ہو؟۔ حد تو یہ ہے کہ فوجی حکومتیں تک غیر مستحکم اور کمزور ثابت ہوئیں اور ان کے خلاف شدید رد عمل سامنے آتے رہے۔ یہ ردعمل خود فوج کے فوجی حکمرانوں کے خلاف بھی آئے اور عوام کی جانب سے بھی شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ ایوب خان کوکسی سویلین نے نہیں ایک جرنیل نے ہی ہٹا یاتھا۔ پرویز مشرف بھی وردی اتارتے ہی اپنی ساری قوت کھو بیٹھا اور اس کو اقتدار سے ہٹانے میں بھی حاضر ڈیوٹی اور ریٹائرڈ جنرلوں کا ہاتھ شامل رہا۔ ضیا الحق شاید اس لئے بچ رہے کہ وہ ایک حادثے کی نذر ہوئے اور آنے والوں نے الیکشن کراکے اپنی جان چھڑائی۔ پاکستان کی تاریخ تا حال اسی لوٹ پھیر کا شکار ہے لیکن اس سے سبق سیکھنے اور عبرت حاصل کرنے کیلئے نہ تو قوم تیار ہے اور نہ ہی اقتدار کے حریص۔

            ایسی باتیں کرنا اور ایسے سوالات سخت ترین غداری کے مترادف ہیں، کہنا تو کہنا، سوچنا بھی کھال کھچوانے اور زبان کٹوانے کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟، کیا ملک میں کسی میں اتنی جرات ہے جو ایسا سوال اٹھا سکے اور ان سوالات کے اٹھانے کے بعد ان ہاتھوں کو روک کر سکے جو سوالات اٹھائے جانے پر اس حد تک برہم ہوجاتے ہیں کہ ان سے سانس لینے کا حق تک چھین لیتے ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں