ہم ٹھیر ے رہے ، عمر آگے بڑھتی چلی گئی

نسلوں میں فرق ہمیشہ سے ہی معاشرے کے بحران کا بڑاسبب رہا ہے ۔ دنیا نے ہر شعبے میں ترقی کی حد وں کو چھو لیا ہے لیکن نسلی فرق ایک ایسا دیرینہ مسئلہ ہے کہ جس سے نجات کا ابتک کوئی باقاعدہ حل نہیں نکالا جا سکا ہے اور نا ہی اس فرق کو پاٹنے کیلئے کوئی پل تعمیر کیا جاسکا ہے۔ یوں تو ہر معاشرے سے تعلق رکھنے والے افراد اس مسئلے سے اپنے اپنے طور سے نمٹنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، جن میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں اس مسئلے سے کوئی سروکار نہیں ہے اور شائد وہ اس موضوع پر بات کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ جس کی اہم ترین وجہ دنیا میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل ہیں جوکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔کسی نے کیا خوب اخذ کیا کہ انسان ایک ایسا منصوبہ ساز ہے جو اپنی ساری منصوبہ سازی میں موت کو شامل ہی نہیں کرتااور موت ایک ایسی پکڑ ہے جو ہلکی سی آہٹ کے بغیر ہی ساتھ لے جاتی ہے اس بات سے سوا کہ ساتھ لیجانے والے کے ذمہ کیا کیا کام اس کے خاندان والوں یا اس کے دفتر والوں نے لگائے ہوئے ہیں، موت کو کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ منصوبہ ساز نے اسے خاطر میں ہی نہیں رکھا ہواہوتا۔
خواتین تو بدنام ہیں ورنہ ہر فرد ہی اپنی عمر کی حقیقت کو پوشیدہ رکھنے کیلئے تگ و دو میں مصروف رہتا ہے ۔دراصل انسان کی گزرتی ہوئی عمر اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ وہ اپنے اختیارات مع تجربات گزرتے وقت کے ساتھ اگلی نسل کو منتقل کرتاہوا چلے تاکہ کسی اچانک بوجھ تلے دب کر وہ کسی مشکل سے دوچار نا ہوجائے، یہ عمل بہت حد تک نسلی فرق مٹانے میں بھی قلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔اب جس طرح سے جبری یا اچانک سے اختیارکی منتقلی عمل میں آتی ہے تومختار بھی ان اختیارات پر ایسے جھپٹتا ہے کہ کہیں یہ بھاگ نہ جائیں یا کوئی اورقبضے کی کوشش نہ کرے(محلاتی سازشوں سے تو سب ہی واقف ہیں اور عنقریب تازہ سازشوں کا شاخسانہ بھی منظر عام پر آنے والا ہے)۔ اس عمل سے جن نقصانات کا سامنا معاشرے کو کرنا پڑتا ہے وہ اب ناقابل تلافی ہوچکے ہیں۔ جس میں سر فہرست چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے ۔
اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ وقت بڑا بے رحم ہے اور اس بے زبان کو بے رحم کہنے کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ دیکھو کیا ہوا وہ کیسا تھا اور کیسا ہو کر رہ گیا ہے ۔ اب ذرا بتائیں کہ اس میں وقت کی بے رحمی کا کیا عمل دخل ہے وقت تو وہی ہے جو کسی ایسے کیلئے بھی جو بہت بدحالی سے خوشحالی کی طرف آگیا ہو اور ویسے ہی گزرتا جا رہا ہے ۔ انسان ہمیشہ سے اپنی ناقص حکمت عملی اور کم علمی کا ذمہ دار کسی نا کسی کو ٹہراتا چلا جا رہا ہے ۔ ایک اندازے کیمطابق اگر حالات اور وقت سے بھر پور مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو ہم اپنی جوانی اور نوجوانی سے باہر نہیں نکلتے۔ یہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہ سمجھنے میں ، دکھنے میں اور ہونے میں بہت واضح فرق ہوتا ہے ۔ اگر ایک چالیس سال کی عمر کا آدمی بیس سال پہلے ہی کھڑا رہ جائے تو اس میں اس کا ہی قصور ہے اور اسے اس قصور کی سزا بھگتنی پڑ سکتی ہے اگر وہ کوئی ایسا جسمانی کام سرانجام دے جس کے لئے بیس سال والے جسم کی ساخت درکار ہو۔
پاکستانی سیاست کا حال بھی مذکورہ بالا سطور میں کی گئی بحث سے کچھ مختلف نہیں ہے ،ترقی یافتہ دنیا نے بدلتے ہوئے وقت اور حالات کیساتھ تبدلیاں کیں ، اپنے آپ کو تمام امور کیساتھ ہم آہنگ کیابلکہ امور میں تبدیلیاں کیں اور اپنے ساتھ اپنی عمر کو بھی لیکر چلتے رہے جس کی وجہ سے ان کے پاس ماضی کا کوئی بوجھ نہیں رہا۔ اس کے برعکس ہم خود تو اپنی اپنی جگہ کھڑے رہ گئے اور ہماری عمریں کہیں بہت آگے چلی گئیں۔ ہمارے یہاں آج بھی بہت سارے پچاس سال یا شائد اس سے بھی زائد پرانے کام بہت خوشی خوشی کئے جا رہے ہیں، جن میں سرکاری اداروں میں اندراج کیلئے رکھے ہوئے رجسٹر اس بات کی کھلی دلیل ہے، میز کرسیاں دیکھ لیں اور ان کے ساتھ رکھے ہوئے کوڑے دان نما تھوک دان ، بغیر کیپیسٹر تبدیل ہوئے چھتوں سے لٹکتے پنکھے ، بڑی بڑی گاڑیوں کو قانون کے رکھوالوں کے بغیر یہ جانے کہ گاڑی میں کوئی ہے بھی یا نہیں سیلوٹ پر سیلوٹ ، جاگیردار ، وڈیرے اور سردار آج بھی اپنی پگڑیوں کو اونچا رکھنے کیلئے غریب کا خون بے دریغ بہا رہے ہیں اور ان کی عزتوں کو دن کے اجالوں میں پامال کررہے ہیں ان کی نسلیں پڑھ لکھ کر بھی اپنے آباؤ اجداد کے بنائے گئے اصولوں کے پھندوں میں قید ہیں ۔
ہم قید میں رہنے کے شوقین ہیں ، ہم ایسے لوگوں کی قید میں ہیں جو ہماری سوچوں پر غاصب ہیں جو ہماری اس نفسیات سے بہت اچھی طرح واقف ہیں جس کی وجہ سے ہم قید ی بن کر رہنا پسند کرتے ہیں کوئی ہماری زندگیوں میں سے کسی بھی قسم کی کوئی چھوٹی موٹی سی بھی ذمہ داری لے لے ہم اس کی غیر اعلانیہ غلامی اختیار کرلینگے۔ سماجی میڈیا نے ہمارے جذبات کو پھیلانے یا عام کرنے کی ذمہ داری لے رکھی ہے اب ہم اس سماجی میڈیا کے غلام بنے بیٹھے ہیں کسی نے کیا خوب کہا کہ اگر تحریک پاکستان کے وقت سماجی میڈیا ہوتا تو ساری کی ساری تحریک سماجی میڈیا پر ہی چلتی۔ ٹیلی میڈیا نے ہمیں بدلتے ہوئے وقت اور حالات سے آگاہ رکھنے کی ذمہ داری اٹھالی ہے تو ہم ہر گھنٹے بعد اسکے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں ہم نے اس کی بھی غلامی کا طوق گردن میں ڈالا ہوا ہے ہمیں خود سے کچھ جانچنے یا پرکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اب انتظار اس بات کا کیا جا رہا ہے کہ وہ وقت عنقریب آیا چاہتا ہے کہ جب سیاسی اور مذہبی جلسے جلوس سماجی اور ٹیلی میڈیا پر ہی ہوا کرینگے۔
موضوع کی طرف آتے ہیں اور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم جب تک خود کو عمر کیساتھ لے کر نہیں چلیں گے تو یہ معاشرتی امتیاز ہمیشہ ساتھ چلے گا ہم ترقی نہیں کرسکیں گے ہم آنے والی نسلوں کو بھی غلامی کا ہی درس دیتے جائینگے۔ ہمیں حقیقت کا سامنا کرنا چاہئے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حقیقت اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ حقیقت ہوتی ہے اس نے ایک دن سامنے آنا ہی ہوتا ہے تو پھر کیوں نا حقیقت کو ساتھ لیکر آگے بڑھیں اور ایک روشن مستقبل کی داغ بیل ڈالیں ۔ اس جملے کیساتھ اس مضمون کا خاتمہ کرونگا کہ آنے والے انتخابات میں ہر قسم کی غلامی کا طوق ہو یا غلاف ہو اتار کر پھینک دیں اور عمر کیساتھ ہمقدم ہوکر آگے بڑھیں۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں