آہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح

                مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ( اللہ تعالیٰ غریقِ رحمت کرے ) بانئی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ایسی عظیم بہن تھیں جس کو مثال بنا نا ہر بہن کی آرزو اور تمنا ہوا کرتی تھی اور اب بھی یقیناً ہوتی ہوگی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شریک حیات کے انتقال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی پوری زندگی اپنے بھائی کے لئے وقف کردی تھی۔ زندگی وقف کرنے کے بعد زندگی کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جس میں وہ بھائی کے ساتھ شا نہ بشانہ کھڑی نظر نہیں آئی ہوں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے انتقال کے بعد اس عظیم المرتبت ہستی کے ساتھ کیا کیا ہوا، یہ بھی پاکستان کی اس شرمناک اور دردناک تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب کا انمٹ حصہ ہے۔

                قائدکے انتقال کے بعد انھوں نے احتجا جاً اس وقت کی حکومت سے یہ کہہ دیا کہ قائدکے لئے ایک مناسب ایمبولینس کا انتظام نہ ہو سکا، یہ بات ارباب اختیار کو اس درجہ گراں گزری کہ ان پر ہر قسم کی بیان بازی پر پابندی لگا دی گئی۔

                کئی برس بعد قائد اعظم کے یوم پیدائش کے موقعہ پر ان کو ”ریڈیو پاکستان“ پر بولنے کی اجازت ملی لیکن ابھی انھوں نے چند جملے ہی ادا کئے تھے اور حکومت پر تنقید کا آغاز ہی کیا تھا کہ ان کا ”مائیک“ بند کر دیا گیا اور اس طرح ان کی آواز کو قوم تک پہنچنے سے روک دیا گیا۔

                ایوب خان نے اپنے دور میں اس عظیم ہستی جس کوہم “مادر ملت” کے نام سے یاد کرتے ہیں، یا یوں کہیں کہ یاد کیا جاتا تھا اور ہر سال ان کا دن بہت عقیدت و احترام سے منایا جاتا تھا، (اللہ کہنے والوں کو بروز حشر نشان عبرت بنا دے) ان کو “انڈین ایجنٹ” قرار دے کر ایک بار پھر پابندیاں عائد کرکے آزادی اظہار کا گلا گھونٹ دیا گیا۔

                انھوں نے اپنی زندگی میں اپنے بھائی “محمد علی جناح” کی زندگی پر ایک کتاب “مائی برادر” لکھی تھی، المیہ دیکھئے کہ اس کتاب کی اشاعت پرمادر ملت کے انتقال کے 22 سال تک پابندی عائد رہی، بائیس سال بعد جب اس کو شائع کیا گیا تو چند ہی ہفتوں کے اندر اندر اس کتاب پر ہمیشہ کے لئے پابندی لگا دی گئی ۔معلوم ہے کیوں؟ ۔ اس میں لکھا گیا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح وزیر مینشن میں نہیں کھارا در میں پیدا ہوئے تھے۔

                اب بات یہ تھی کہ سرکاری نصابوں میں تو ان کی جائے پیدائش تا حال وزیر مینشن ہی درج ہے اور قوم کو یہ بات پڑھاتے پڑھاتے بیسیوں سال گزر چکے تھے اب اگر قوم کو یہ بات پتا چل تی کہ ان کو تاریخ ہی غلط پڑھائی جارہی ہے تو وہ باقی پڑھائی جانے والی تاریخ سے بھی شک میں پڑ جاتے اب خود سوچئے کہ کتاب پر ہمیشہ ہمیشہ کی پابندی لگا کر قوم کو کتنے بڑے فتنے سے بچالیاگیا۔

                اس میں لکھی یہ بات بھی بہت فتنہ پر ور تھی کہ انھوں نے قائدؒ کے حوالے سے یہ بھی لکھ دیا کہ وہ سارے بڑے بڑے لیڈر جو ان کو بیماری کی حالت میں ملنے کیلئے ”زیارت“ جاتے رہتے تھے ”قائدؒ “ نے ان سب کے متعلق مادر ملت سے کہا تھا یہ سارے لوگ جو میری تیمارداری کو آرہے ہےں یہ مجھے پوچھنے اور دیکھنے نہیں یہ معلوم کر نے آتے ہیں کہ اب میری کتنی سانسیں باقی ہیں“ ۔ اب بھلا بتاو! یہ ساری باتیں فتنہ و فساد کا باعث نہیں بنتیں، ہر جانب ایسی آگ لگ جاتی جس پر قابو پانا نا ممکن ہو جاتا اس لئے اس پر پابندی لگا کر حکومت وقت نے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔

                ایک رات اچانک اعلان ہوا کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح (اللہ غریق رحمت کرے) دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئیں، یہ ایک ایسا صدمہ تھا جس کو اللہ جانتا ہے اس وقت قوم نے کیسے برداشت کیا ۔۔لیکن ۔۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ تھا کہ اس پر ہر جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ طبعی موت نہیں ہے حتیٰ کہ ان کے جسم اور پیٹ میں زخم کے گہرے نشانات تک پائے گئے تھے، اس پر ہر جانب آگ بھڑک اٹھی، کئی مقامات پر پر تشدد واقعات ہوئے اور اس وقت کی سپریم کورٹ نے ایک درخواست بسلسلہ تحقیق ، سماعت کے لئے منظور بھی کر لی کہ وہ اس بات کا کھوج لگائے کہ ”مادر ملت“ کی موت کی حقیقی وجوہات کیا ہیں لیکن اس مقدمے کی سماعت کو روک دیا گیا اور آج تک اس عظیم المیے کا راز پردہ راز ہی میں ہے۔

                بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوجاتی، نماز جنازہ پر قوم کو تقسیم کیا گیا کہ ”فاطمہ جناح“ شیعہ تھیں یا سنی، بلکل یہی سلوک قائد اعظم کے ساتھ بھی ہوا تھا، لیکن قوم تقسیم نہیں ہوئی البتہ یہ ضرور ہوا کہ دو نماز جنازہ ہوئیں۔

                تد فین کے معاملے پر بھی حکومت نے اپنی پوری بد نیتی کا مظاہرہ کیا اور تجویز کیا گیا کہ ان کو میوہ شاہ کے قبرستان میں دفنایا جائے۔

                بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ ”میوہ شاہ“ کے قبرستان میں ایک مخصوص حصہ وہ بھی ہے جس میں پاکستان میں آباد یہودیوں کو دفن کیا جاتا ہے اور آخری یہودی اس قبرستان میں 1987 ء میں دفنا یا گیا ۔ اس سے آگے کہنے کی جسارت نہیں ہو رہی۔۔۔

                یہ بات اہل پاکستان یقیناً نہایت شدت سے محسوس کرتے ہونگے کہ پاکستان آہستہ آہستہ اپنے بانیوں کو فراموش کرتا جا رہا ہے۔ اب ان کی حیثیت ان فنکاروں کے برا بر بھی نہیں جو ڈراموں یا فلموں میں اداکاری کرتے ہیں، گانے گاتے ہیں یا صدا کار ہیں۔ ان کی بھی برسیاں کافی بڑے پیمانے پر منالی جاتی ہیں اور بعض اوقات سارا سارا دن پاکستان کے تقریباً ہر چینل پر ان کی یاد منائی جاتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش یا یوم وفات کچھ یوں منایا جاتا ہے جیسے بادل ناخواستہ کسی کی مزاج پرسی کر لی جائے۔ وہ شخصیت جو ایک طویل عرصے تک مادر ملت کہلائی جاتی رہیں ان کا تو اب دور دور تک نام و نشان ہی نظر نہیں آتا۔ شاید ایسا ٹھیک ہی ہو رہا ہے۔ ہمیں ان تمام ہستیوں کو فراموش کر ہی دینا چاہیے اس لئے کہ یہ پاکستان اب ان کا پاکستان ہے ہی کب۔ میرے قائد کا پاکستان تو بہت ہی بڑا تھا۔ مغرب سے مشرق تک پھیلا ہوا۔ یہ وہ پاکستان تھا جس کی اساس دوقومی نظریہ تھا۔ اس کو لاکھوں فرزندان توحید کا لہو دے کر بنایا گیا تھا۔ اس نعرہ توحید کی بہت کڑی سزا سکھوں اور ہندووں نے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں کو دی تھی۔ اب یہ قائد والا پاکستان رہا ہی نہیں کیونکہ اس کے دولخت ہونے کی بنیاد نفرت، تعصب، رنگ اور نسل پر رکھی گئی۔ نظریہ تو اسی دن فوت ہوگیا تھا جب یہ دولخت ہوا۔ جب نظریہ ہی فوت ہوگیا تو پھر یہ قائد کا پاکستان رہا ہی کب۔ نہ اپنے جسم کے لحاظ سے اور نہ اپنی روح کے حساب سے۔ اب تو نظریے کو یہاں کے مذہبی، سیاسی اور عسکری حلقے یہاں کے مسلمانوں کیلئے لولی پاپ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ کبھی سیاسی جوڑ توڑ کیلئے، کبھی نئے اتحاد بنانے کیلئے، کبھی جذبہ جہاد کو ابھارکر عوام کو گاجر مولی کی طرح کٹوا دینے کیلئے اور کبھی ہر عام و خاص کو بیوقوف بنانے کیلئے۔ اب نظریہ ذریعہ ہے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کا جس کو سب سے پہلے ماضی کے مشرقی پاکستان میں استعمال کیا۔ پاکستان کو عوام کے سامنے ”دین“ بنا کر پیش کیا گیا۔ پاکستان سے محبت رکھنے والے دھوکا کھا گئے اور اس دھوکے کی سزا تاحال بھگت رہے ہیں لیکن جنھوں نے انھیں ”پاکستان“ بنایا تھا وہ ان کی آہ و بکا تک سننے کیلئے تیار نہیں۔ پھر ان کو یہ لولی پاپ مختلف تحریکوں کو ابھارنے کیلئے متعدد بار تھمایا گیا اور وہ اسے چوسنے کیلئے بخوشی آمادہ ہوئے۔ افغان وار میں بھی یہی لولی پاپ دیا گیا اور ہزارہا شہادتیں ہوئیں اور ایک مرتبہ پھر”کتاب“ میدان میں لائی جارہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب اس کو کس رنگ میں پیش کیا جائے گا۔ مختصر یہ کہ وہ نظریہ جو پاکستان کی اساس بنا وہ اب محض مقصد براری کے علاوہ اور کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ سچ تو یہ ہے اب یہ پاکستان قائد اعظم کا نہیں قائد عوام کا پاکستان رہ گیا ہے جس کی بنیادوں میں نفرت اور تعصب کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جب بھی اس کی بنیادیں ہلتی ہیں تو ”ہم اِدھر اور تم اُدھر“ کا نعرہ سنائی دیتا ہے۔ جب پاکستان قائد اور بانیان پاکستان کا پاکستان رہا ہی نہیں تو پھر محسنین پاکستان کا ذکر بھی کرنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے، شاید اسی لئے اب پاکستانیوں کے دلوں سے ان سب کی یادیں، باتیں، جدوجہد کی داستانیں، ان کی قربانیاں سب کچھ کھرچ کھرچ کر نکالا جا رہا تاکہ آنے والی نسل کو یہ معلوم ہی نہ ہو سکے کہ پاکستان بنانے والے، ان کے رہبرورہنما اور فرزندان توحید کون تھے اور پاکستان کو آگ ا ور خون کے دریا عبور کرکے جس طرح بنایا گیاتھا۔

                یہ ہے وہ سلوک جن ہستیوں کا دن ہم بڑی شان و شوکت کے ساتھ منایا کرتے تھے اور ان کو ”بابائے قوم اور مادرملت “ بھی کہا کرتے تھے۔ جس خطہ کے ارباب اختیار کا اپنے محسنوں ”بابائے قوم اور مادرملت“ کے ساتھ یہ سلوک رہا ہو ان کے آگے ” کراچی کی اکثریتی پارٹی، اس کے قائدین اور اعلیٰ قیادت“ مکھی و مچھر کے برابر بھی نہیں ہوسکتی ۔ کچھ قوتوں کو کراچی میں کراچی کی قیادت چاہیے ہی نہیں خواہ وہ جماعت اسلامی کی ہو یا پی پی پی کی۔ تاریخ کچھ ایسی ہی کہانی سناتی رہی ہے اور اس کا تسلسل تا دم تحریر جاری ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں