روزہ خاص اللہ کے لیے  

ایک حدیث قدسی کے یہ الفاظ  بخاری و مسلم سمیت  متعدد کتب احادیث میں وارد ہوئے ہیں کہ ’’الصَّوم ُ لی وَاَنا اَجزی بہ‘‘ یعنی ’روزہ  خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا ‘!اور اعراب کے ذرا سے فرق کے ساتھ اس کا ایک ترجمہ یہ بھی  بعض کتب احادیث  میں ملتا ہے کہ ’روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا ہوں ‘!

ڈاکٹر اسرار احمد (مرحوم )نے اپنے ایک رسالے ’عظمت صوم ‘ میں لکھا ہے کہ بلا شبہ یوں تو نماز ،زکوٰۃ اور حج وغیرہ سبھی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور ان کی جزا بھی ،ظاہر ہے کہ بس وہی دے سکتا ہے اور دے گا لیکن روزے کا تعلق چونکہ جسم سے زیادہ روح  سے ہے اور روزہ چونکہ جسم سے زیادہ روح کی تقویت اور تغذیہ کا ذریعہ  ہے اور روح کو باری تعالی ٰ کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے  اور اسے  ایک خصوصی نسبت حاصل  ہے جو جسم انسانی کو  حاصل نہیں ۔

 حضرت آدم ؑ کے خاکی پتلے کو زندگی عطا کرنے کے لیے باری تعالی ٰ  نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ جب اس میں   ۔۔نفختُ فیہ من روحی۔اپنی روح میں سے پھونک دوں  (سورہ حجر ۲۹،اور سورہ صٓ۷۲) تو تم سب سجدے میں گر جانا ۔۔‘  اس لیے روزے کی جزا وہ بطور خاص بنی آدم کو عطا فرمائے گا ۔یا یوں کہہ لیں کہ چونکہ روزے کا حاصل ہی ۔خالص ۔تقرب الی اللہ ۔ہے تو گویا اللہ سبحانہ تعالیٰ خود ہی بہ نفس نفیس اُس کی جزا ہے ۔

ارواح انسانی کی تخلیق حضرت آدم ؑ کے خاکی جسم کی تخلیق سے بہت پہلے ہو چکی تھی اور ترمذی کی  ایک حدیث میں ہے کہ ’’صحابہ ؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ ﷺ کو نبوت کب ملی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس وقت جب آدم ؑ روح اور جسم کے درمیان تھے (یعنی ان  کے خاکی پتلے میں روح نہیں پھونکی گئی تھی ) ۔

ظاہر ہے کہ انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے ۔جس میں روح  کو اَوَّلیت اور فوقِیَت حاصل ہے کہ اس کی تخلیق خاکی جسم سے بہت پہلے ہو چکی تھی ۔یہ ا رو اح ہیں  جن سے عالم ِارواح میں  ۔اَلَستُ بِرَبِّکُم ؟قالوا بَلیٰ۔!کا عہد  لے کر اِتمام ِحجت کیا جا چکا ہے ۔

اور رمضان المبارک کے روزے صرف جسم کو بھوکا پیاسا رکھنے اور گناہوں سے بچانے کا نام نہیں وہ فی الواقع روح کو اپنی اصل یعنی اللہ سبحانہ تعالیٰ سے قریب سے قریب تر کرنے کا ذریعہ ہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جس نے روزے رکھے رمضان میں ایمان اور احتساب کے ساتھ ،بخش دیے گئے اُس کے تمام سابقہ گناہ ۔اور جس نے (راتوں کو ) قیام کیا رمضان میں ایمان اور احتساب کے ساتھ ،بخش دیے گئے اس کے سبھی سابقہ گناہ ۔‘‘(بخاری و مسلم ) اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’روزہ اور قرآن بندہ مؤمن کے حق میں سفارش کریں گے ۔روزہ کہے گا کہ اے رَب ٍ۱ میں نے اسے روکے رکھا دن میں کھانے اور خواہشات سے ۔پس اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے روکے رکھا اسے رات کو نیند سے پس اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما ۔تو دونوں کی سفارش قبول کر لی جائےگی (بیہقی ۔شعب ا لایمان )‘‘

ماہ رمضان المبارک میں دن کے روزے اور رات کے قیام کی حکمت یہ ہے کہ ایک طرف تو روزہ انسان کے جسم کو بھوک اور پیاس وغیرہ کے ذریعے اتنا کمزور کرے کہ انسان کی روح کے پاؤں میں پڑی ہوئی  گناہوں کی بیڑیاں ہلکی ہوجائیں اور شیطنت کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی اور سسکتی اور کراہتی ہوئی روح کو سانس لینے کا موقع ملے۔ ۔اور دوسری طرف رات کے قیام میں قرآن کی تلاوت اُس  کی تقویت اور تغذیہ کا سبب بنے ۔۔تاکہ جسم و روح کے مرکب انسان کی سمجھ میں یہ راز  آجائے کہ اس کی بھوک کو سیری اور پیاس کو آسودگی عطا کرنے کا ذریعہ اور اُس کے تمام دکھوں کا شافی علاج اور ہر طرح کے درد کا درماں ۔بس ۔یہی قرآن ہے ! اور دوسری  طرف روح ِانسانی اَز سرِ نَو قوی اور توانا ہو کر اپنے مرکز ۔اللہ ۔تک مائل پرواز ہو سکے  ۔۔!

اسی لیے جہاں قرآن میں روزے کی غرض و غایت ایک طرف ۔۔لَعَلَّکُم تتقون ۔۔بیان ہوئی ہے ۔۔تاکہ تم متقی ۔اللہ سے ڈرنے والے ۔پرہیزگار بن جاؤ تو دوسری طرف ۔۔لعلکم تشکرون ۔۔اور لعلہم یر شدون ۔۔بھی کہ بندے پر نعمت قرآن کی عظمت کا انکشاف ہواور وہ دعا و مناجات کے ذریعے پوری شدت و قوت اور کمالِ ذوق و شوق کے ساتھ اپنے مالک کی طرف متوجہ ہو جائے ۔

ہماری روح  ’امر ِ ربی ۔۔تو ہے ہی جلوہ ربانی بھی ہے ۔روح انسانی کا تعلق اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ بالکل وہی ہےجو سورج کی ایک کرن کا سورج سے ہے کہ لاکھوں کروڑوں میل دور آجانے کے باوجوداپنے ۔منبع ۔سے منقطع اور اپنے جداگانہ وجود کے باوصف اپنی اصل سے الگ نہیں ہے ۔۔ٹھیک یہی کیفیت روح انسانی کی بھی ہے کہ اپنے علٰحدہ تشخص کے باوجود وہ اللہ سے متصل ہے !

تو یہ مطلب ہے ۔۔الصوم لی و انا اجز ی بہ ۔۔کا ۔۔کہ روزہ تو خاص اللہ ہی کے لیے ہے ۔۔کہ وہ رحیم و کریم و شفیق و مہر بان آقا تو ہمہ دم منتظر رہتا ہے کہ جیسے ہی کوئی  مکمل خلوص اور کامل  اخلاص کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو ۔۔وہ بھی کمال شفقت و عنایت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو جائے ۔۔ایک اور حدیث قدسی کے مطابق ۔۔اگر بندہ اس کی جانب چل کر آتا ہے وہ اپنے بندے کی جانب دوڑ کے آتا ہے اور اگر اس کا بندہ اس کی طرف بالشت بھر بڑھتا ہے تو وہ بندے کی طرف ہاتھ بھر بڑھتا ہے ۔۔گویا بقول اقبال ۔۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں ۔۔۔راہ دکھلائیں کسے رہرو ِ منزل ہی نہیں !‘‘

(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا رسالہ ۔عظمت صوم ۔صفحات ۲۰)

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں