جلسوں کی سیاست اور عوامی مشکلات

کراچی میں دو سیاسی جماعتوں کی ایک ہی جگہ جلسہ کرنے ضد کی وجہ سے ہنگامہ آرائی ہوئی اور اور بد قسمتی سے سیاسی شعور نہ رکھنے والے چند جذباتی لوگوں نے ہنگامہ آرائی کر کے پورے علاقے کو جس ذہنی اذیت میں مبتلا کیا وہ قابل شرم ہے اور پھر اچانک دونوں پارٹیوں کی دستبرداری کے اعلان سے حکیم سعید پارک کے قرب و جوار کے لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔ ہمارے ملک میں جیسے جیسے الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے سیاسی پارہ بڑھتا جا رہا ہے اور جلسوں کی سیاست عروج پر پہنچ رہی ہے اور جلسوں میں زیادہ سے زیادہ عوام کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں کیونکہ کامیا ب جلسے کو الیکشن میں کامیابی سے مشروط کیا جاتا ہے ہاں البتہ ہر جلسہ کرنیوالی پارٹی اپنے جلسے کوجس طرح بلند و بانگ دعوے سے ایک عظیم اور تاریخی جلسہ قرار دیتی ہے وہ ایک الگ کہانی ہے جبکہ پاکستان میں تقریبا ہر سیاسی پارٹی جلسہ گاہ کو تو کسی نہ کسی طرح بھر ہی لیتی ہے لیکن بلدیاتی الیکشن تک بھی نہیں جیت پاتی اور ان کے جلسے کی وجہ سے اس جلسہ گاہ کے اطراف کی عوام اور اس شہر کی عوام جس طرح ٹریفک جام اور استقبالیہ کیمپ پر شورشرابا اور ریلیاں نکالنے پر تکلیف اٹھاتے ہیں اس کا کسی کو احساس نہیں ہے اور سیکورٹی کے نام پر جس طرح ذہنی کرب سے گزرتے ہیں اس کا ندازہ شاید یہ ایئرکنڈیشن میں بیٹھے سیاسی رہنما نہیں لگا سکتے اور مزیدار بات یہ ہے کہ جلسہ کی کامیابی الیکشن جیتنے کی ضمانت بھی نہیں ہے اس لیے ہماری تمام سیاسی رہنماؤں، الیکشن کمیشن سمیت ہر اس شخص سے درد مندانہ اپیل ہے جو عوام کی اس تکلیف اور پریشانی کا احساس رکھتے ہے خدارا ہر قسم کے جلسہ اور جلوس کو شہر سے باہر کوئی جگہ متعین کر کے انعقا دکیا جائے وہاں آپ بے شک اپنی عوامی طاقت کا بھی مظاہرہ کریں سیاست بھی کریں اپنے عقیدت مندوں اور پیروکاروں سے خطاب بھی کریں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن خدارا جلسوں کی وجہ سے عوام کو پہنچے والی تکلیف سے نجات دلا ئیں کیونکہ مسلمان کو تو پڑوسی تک کو بھی تکلیف دینے سے منع کیا ہے اور ناکہ ہم جلسہ کے نام پر پورے شہرکو اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں