آج کا دور مصروفیت سیمعنون ہے ۔مسابقت کی غیر صحت مند دوڑ میں خواہ چھوٹا ہویا بڑا ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا ہے۔ عدیم الفرصتی کے اس دور میں خاندان کے پورے افراد کو اگر اکٹھاہوکر چندیوم راحت و فرصت اور خوشی و مسرت سے بسر کرنے کا موقع حاصل ہوجائے تو یہ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ ہر سال گرمائی تعطیلات جہاں طلبہ، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے لیے نوید مسرت و خوشیوں کا شادیانہ ہوتے ہیں وہیں والدین کی ذمہ داریوں میں یہ ایک بڑے اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔گرماکی تعطیلات میں طلبہ کو با مقصدسرگرمیوں میں مصروف رکھنا والدین کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ عام دنوں میں اسکول کی روز مرہ نصابی سرگرمیوں، تعلیمی مصروفیات اوروقت کی قلت کی وجہ سے والدین بچوں کی دینی و دنیوی تعلیم و تربیت کی سلسلے میں خو د کو مجبور محسوس کرتے ہیں۔لیکن گرماکی تعطیلات والدین کو بچوں کی دینی و دنیوی تربیت کا ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہیں۔ مبسوط و منظم منصوبہ بندی کے ذریعہ تعطیلات میں والدین بچوں کی اصلاح ،کردار اور شخصیت سازی کی عمدہ کوشش کرسکتے ہیں۔ گرمائی تعطیلات کا آغاز ہوچکا ہے ۔گرمی کے قہر سے بچے دن بھر گھروں میں محبوس ہوکر آوٹ ڈور سرگرمیوں میں حصہ لینے سے قاصر ہیں۔ موسمی حالات کے پیش نظر والدین ایسا منصوبہ ترتیب دیں جو بچوں کو آؤٹ ڈور اور ان ڈور سرگرمیوں میں حصہلینے میں معاون ثابت ہوں۔والدین چھٹیوں میں بچوں کے روز مرہ معمولات اورغذا میں توازن برقرار رکھیں تاکہ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشو ونما بہترطریقے سے ہوسکے۔چھٹیوں میں اگر طلبہ کی نگرانی نہ کی جائے تو وہ منفی تفریحی سرگرمیوں کی جانب مائل ہوجاتے ہیں ۔ اسی لئے والدین بچوں کی دینی تعلیم کی منصوبہ بندی پر خصوصی توجہ دیں ٹی وی اسکرینس اور انٹر نیٹ پر وقت ضائع کرنے سے باز رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بچوں کو بہت ساری صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان کی صلاحیتوں کو صحیح راہ میں لگانا اساتذہ اور والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔
ماہرین تعلیم و نفسیات کے مطابق طویل معیادی چھٹیوں میں بچوں کی روٹین خراب ہو جاتی ہے او ر وہ ا سکول نہ جانے کی وجہ سے اکثر صبح دیر تک سوتے رہتے ہیں۔چھٹیوں کے دوران والدین کی جانب سے برتی جانے والی لاپرواہی کا خمیازہ معصوم طلبہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔بعض والدین چھٹیوں کو صرف آرام کا وسیلہ سمجھ کراسے ضائع کردیتے ہیں۔چند والدین بچوں کی شرارتوں ،شورو غل یا پھر دیگر وجوہات کی وجہ سے بچوں کو کسی اکیڈیمی یا ٹٹوریل میں داخل کرتے ہوئے خود کو بری الذمہسمجھتے ہیں۔ایسی روایتی سرگرمیاں بچوں کے لئے اضمحلال کاسبب ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات و تعلیم کے نزدیک اس طرح کافیصلہ بچوں کی تخلیقی ،ذہنی و جسمانی نشوونما کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔چھٹیوں کی موثر و منظم منصوبہ بندی سے بچوں کی ذہنی، جسمانی اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ بخشا جاسکتا ہے۔تعطیلات میں نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں بچوں میں قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاون ہوتی ہیں۔ذیل میں چند ایسی تجاویز پیش کی گئی ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر طلبہ تعطیلات سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ اپنے فاضل وقت کو کارآمد طریقے سے گزارتے ہوئے تعطیلات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا پائیں گے۔
تنظیم وقت کی تربیت؛۔ تعطیلات میں بچوں کی تربیت کا پہلا مرحلہ شب و روز کے نظام الاوقات کا تعین ہے۔ والدین بچوں کی عمر، تعلیم اور مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کی مشاورت سے ان کے سونے جاگنے کے اوقات مقرر کریں۔
بچو ں کی صلاحیتوں کا جائزہ اور لائحہ عمل ؛۔گرمیوں کی تعطیلات میں والدین بچوں کی تعلیمی کمزوریوں کو کم سے کم کرنے کے لیے موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بہتر منصوبہ بندی کے لیے والدین اساتذہ سے مل کر بچوں کی کمزوریا ں معلوم کریں اور اسے دور کرنے میں معاون مشورے حاصل کریں۔بچوں کی گزشتہ تعلیمی کیفیت کا جائزہ لیں۔ان کی خوبیوں اور خامیوں کی فہرست تیار کریں اور انھیں دور کرنے کے لئے جامع منصوبہ بندی کریں۔ایسی خامیاں جن کو دور کرنے کے لئے زیادہ وقت مطلوب ہوتا ہے تعطیلات انھیں دور کرنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔
آموختہ ؛۔تعلیمی نفسیا ت میں آموختہ و اعادہ ( Law of Repeatation)کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اسی لئے طلبہ کو گر ما کی چھٹیوں میں بھی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ منسلک رکھنا بہت ضروری ہوتاہے تا کہ وہ چھٹیوں سے پہلے پڑھائے گئے اسباق چھٹیوں کے دوران اور بعد میں بھی یاد رکھ سکیں۔
دینی تعلیم کا اہتمام؛۔ دینی تعلیم کا حصول وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ گر ما ئی دینی کلاسس سے بھر پور فائدہ اٹھا ئیں ۔ قریبی مسجد یا مدرسے میں جہاں صباحیہ (صبح کا مدرسہ) یا مسائیہ (شام کا مدرسہ) تعلیم کا انتظام ہے وہاں بچوں کو شریک کرتے ہوئے ناظرہ قرآن پڑھانے کا بندو بست کریں یا خود پڑھائیں ۔ قرآن پاک سیکھانے کی مناسب منصوبہ بندی کریں۔قرآن پاک کی تلاوت سے نہ صرف خیرو برکت حاصل ہوتی ہے بلکہ ہماری زندگی میں ایک خوش گوار انقلاب بھی رونما ہوتا ہے۔موسم کی شدت کے پیش نظر بچوں کی صحت کا خیال رکھنا اور انھیں گرمی اور دھوپ سے بچانا بھی بے حد ضروری ہے۔اس کے لیے دن کے اوقات میں ان ڈور سرگرمیاں ترتیب دیں اور سہ پہر میں کھیلنے کودنے باہر نکلیں۔گرمی میں مشروبات اور سادہ غذا کا شیڈول ترتیب دینا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ رمضان کا مبارک مہینہ بھی اس سال چھٹیوں میں آ رہا ہے۔ والدین بچوں کو روزے رکھنے، واعظ و نصیحتیں سننے، نماز یں پڑھنے، ذکر و اذکار کرنے، پاک صاف اور با وضو رہنے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور ثواب کمانے کی ترغیب دیں۔ بچوں کو احادیث، آیات، ماثورہ دعاؤں کا نصاب تیار کر کے دیں اور انھیں باقاعدگی سے زبانی یاد کرنے کی تاکید کریں۔ روزانہ کی بنیادوں پر اس کا جائزہ لیتے رہیں۔ اس سلسلے میں والدین کوتاہی سے کا م نہ لیں۔ تفریح اور دعوتوں کے نام پر اولاد کو دین سے دور نہ کریں۔ والدین اگر دلچسپی کے ساتھ روزانہ کے نظام الاوقات پر کاربند رہیں تو اس سے بچوں کو بہت فائدہ ہوگا ورنہ والدین کی بے پروائی کی وجہ سے طلبہ سستی اور کاہلی کا شکار ہوکر اپنی قیمتی چھٹیاں گنوا دیں گے ۔بچوں میں قرآن مجید سے قلبی لگاؤ اور محبت پیدا کرنے کے لیے والدین روزانہ بچوں سے تلاوت کروانے کے ساتھ خود بھی قرآن مجید کی تلاوت کریں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں اور جمعہ کے دن خاص طور پر سورہ الکہف کی تلاوت کر کے سعادت و برکت حاصل کریں۔
دینی سمر کیمپس؛۔اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے اور وقت و عمر کی قدردانی کرتے ہوئے اولاد کی تربیت کی فکر کریں۔ لایعنی اور فضول مشغلوں میں ان کے اوقات کو ضائع کرنے کے بجائے دینی تعلیم و تر بیت کا مستقل انتظام کریں اورموسم گرما میں چھٹیوں کے پیشِ نظر چلائے جانے والے’’سمر کلاسس‘‘ اور ’’ سمر کیمپس‘‘سے بھر پور فائدہ اٹھا کر قرآن و سنت کی تعلیمات اور دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنے کا راستہ ہموار کریں۔ انشاء اللہ چھٹیوں کا بھی صحیح استعمال ہوگا اوروالدین بھی اولاد کی تعلیم وتربیت میں کوتاہی کے گناہ سے محفوظ ہوجائیں گے۔ قرآن فرماتا ہے ’’ائے ایمان والو! اپنے آپ کو او ر اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسا ن اور پتھر ہوں گے۔(التحریم :6)حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’ یا رسول اللہ ﷺ اپنے آپ کو تو جہنم سے بچاناسمجھ میں آگیا لیکن گھر والو ں کو کیسے بچائیں تو آپ نے فرمایا کہ جس سے تم کو منع کیا گیاان کو منع کرواور جس کاتم کو حکم دیا گیا ہواس کا انھیں بھی حکم دو۔اسی طرح آپ کا ارشاد ہے کہ: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب میں وہ ہوگا جواپنے گھر سے بے خبر رہا۔(روح المعانی:28/156)
تعلیمی سمر کیمپس؛۔ اسکولوں کی جانب سے منعقد کردہ سمر کیمپس بھی طلبہ کو موسم گرما کی چھٹیوں میں نصابی و غیر نصابی سر گرمیوں میں مصروف رکھنے میں معاون ہوتی ہیں۔بچوں کودوسرے بچوں سے میل جول بڑھانے ،آپس میں اکٹھے وقت گزارنے اورایک دوسرے سے سیکھنے میں سمرکیمپس مددگار ہوتے ہیں ہر بچے میں قدرت نے کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہے اس خوبی کو نکھارنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہوتی ہے۔سمر کیمپس مختصر وقت ( دو یا تین گھنٹوں) پر مبنی اپنی سر گرمیوں کے ذریعے طلبہ میں خوش خطی(Hand Writing) ،تحریری و تقریری مہارتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ اخبارات ،میگزین اور کتب بینی کے مشاغل اور دیگر معلوماتی پروگرامس ان سمر کیمپس کا خا صہ تصور کیئے جاتے ہیں۔
نماز پنج گانہ کی تربیت ؛۔بچوں کو نماز پنج گانہ کا عادی بنانے میں تعطیلات بہت کارآمد ہوتی ہیں۔ والدین بچوں کو نماز کی تاکید کی بجائے ان کے ساتھ ادائیگی نماز کا معمول بنائیں تا کہ بچوں میں نمازکی عادت پختہ ہو سکے۔بچوں کے دن کی شروعات نمازفجر سے کریں۔فجرکے بہترین اور بابرکت وقت کو بچوں کی نیند کی نذر نہ کریں۔ بچوں کو وقت پر اُٹھنے اور ادائیگی نماز پر حوصلہ افزائی کے لئے گاہے بگاہے انعام سے بھی نوازیں۔ جب صبح خیزی کی عادت بچوں میں پختہ ہو جائے توانھیں فجر کے وقت باری باری دوسروں کو بیدار کرنے کی ذمہ داری پر مامور کریں جس سے ان میں احساس ذمہ داری اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی کے تعاون کا جذبہ پیدا ہوگا۔ والد کا بیٹوں کو باجماعت نماز کاعادی بنانے کے لیے انہیں اپنے ساتھ مسجد لے کر جائے ،نماز پڑھنے اور امامت کے آداب سکھائے۔
سیر و تفریح ؛۔بچوں کی صرف ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں وقت اور توجہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا والدین اپنی مصروفیات میں سے بچوں کے لیے وقت نکال کر انہیں تفریحی مقامات کی سیر کرانے کے ساتھ ساتھ ایسے مقامات کی بھی سیاحت کروائیں جن کے ذریعے انہیں اپنے ماضی اور تاریخ کا علم ہو سکے۔ تاکہ تعطیلات میں بھی تعلیم سے ان کا لگاؤ برقرار رہے۔تعلیمی سیر جیسے عجائب گھر، سائنس میوزیم اور تاریخی مقامات کی سیر و سیاحت سے طلبہ کو سیکھنے اور راست مشاہدہ کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ بچوں کے ساتھ روزانہ کسی پارک، تفریحی مقام، نہر کے کنارے یا ساحل سمندر پر تفریح کا پروگرام ترتیب دیں۔ کھلی فضا،مناظر فطرت کے مشاہدہ کے علاوہ جسمانی اور ذہنی صحت پر شاندار اثرات مرتب کرتی ہیں۔ خاص طور پر صبح کے وقت کلیوں کا چٹکنا اور پھول بننا، پرند وں کی چہچہاہٹ، سورج و چاند کا طلوع و غروب ہونا،، ستاروں کا چمکناپوری کائنات کاآفاقی نظام فطرت بچوں کو اللہ کے احکامات کی پیروی اور پاسداری کے اصول سیکھاتے ہیں۔
آپسی محبت کو فروغ دینے کے کام ؛۔بچوں کی تربیت کے لیے کچھ خاص پہلو ایسے ہوتے ہیں جن پر تعطیلات میں ہی توجہ دی جا سکتی ہے مثلاً باہمی محبت میں اضافے کے لئے چھٹیوں میں سب اہل خانہ ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا(ظہرانہ و عشائیہ) اکٹھے کھانے کا معمول بنائیں۔ معلومات پر مبنی ٹیلی ویژن پروگرامز سب گھر والیمل کر دیکھیں۔ تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے بچے گھر کے کاموں میں نہ تو دلچسپی لیتے ہیں اور نہ ہی گھریلو ذمہ داریوں میں زیادہ اہم کردار ادا کر پاتے ہیں۔ لہذا تعطیلات کا فائدہ اٹھا کرانہیں اپنے کمرے کی صفائی، مہمانوں کی خاطر تواضع اور استعمال کی دیگر اشیاء کی دیکھ بھال سکھائی جا سکتی ہے۔ سماجی بہبود کے حوالے سے کوئی نہ کو ئی ذمہ داری بچے کو ضرور دی جائے مثلاً چھوٹے بھائی بہنوں کا خیال ،گھر کے بزرگ جیسے دادا،دادی،نانا،نانی کی دیکھ بھال ان کے ساتھ وقت گزارنا، ان کی ضروریا ت جیسے غذا پانی کو وقت پر دینا انہیں اخبار پڑھ کر سناناوغیرہ ۔یہ سنہری کام بچوں کی تربیت کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ رشتے داروں سے میل جول اور ملاقات کے آداب سکھانے کے لیے انہیں رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے لے کر جائیں۔ والدین کے اس کام سے بچوں میں خونی رشتوں کی اہمیت، صلہ رحمی اور بھائی چارے کے جذبات پروان چڑھیں گے۔والدین بچوں کی دوستیوں اور ان کی صحبت پر نظر رکھیں اور ان کی جانچ کے لیے کبھی کبھار ان کے دوستوں کو اپنے گھر بلائیں، ان سے ملیں، ان کے ساتھ کچھ وقت گزاریں، ان کی عزت کریں تاکہ ان کا اعتماد بڑھے۔ بچوں کے دوستوں کے گھر والوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیں۔لیکن اگر والدین ان کے گھر کے ماحول سے مطمئن نہیں تو بچے کو بُرا بھلا نہ کہیں بلکہ حکمت و تدبر سے کام لے کر اپنے بچوں کو ایسی دوستی سے دور رکھیں تاکہ والدین اور بچوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔
کراش کورسس؛۔چھٹیو ں میں بچوں کو با مقصد علمی، ادبی اور تفریح سر گرمیوں میں مصرو ف رکھنا ضروری ہوتاہے۔ مطا لعے کی عادت پیدا کر نے کے لیے بچوں کو لائبریری کی رکنیت دلائی جائے۔ لینگویج امپرومنٹ کراش کو رسز کے ذریعے زبان دانی کی مہارتوں کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ کمپیوٹر میں مہارت پیدا کرنے کے لیے مختصر مدتی کراش کورسز معاون ثابت ہوتے ہیں۔ خوشخطی (Hand Writing) امپرومنٹ کلاسز کے ذریعے بچوں کی لکھائی کو دلکش بنایا جاسکتا ہے۔ تعطیلات کے دوران مختلف مضامین پر مبنی کراش کورسس طلبہ کے لئے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔کراش کورسس طلبہ کی ذہنی اور تعلیمی صلاحیتوں میں بہتر ی پیدا کرتے ہیں۔ڈاکومینٹری فلمیں اور تاریخی دستاویزات کے مطالعے اور مشاہدے سے طلبہ میں تجسس ،ذوق ا ور اشتیاق کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے ۔
عارضی وجزو وقتی ملازمت؛۔ تعطیلات کے دوران ہائیر سیکنڈری اور گرایجویشن کے طلبہ کوئی جزو وقتی نوکری حاصل کرتے ہوئے نہ صرف اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کرسکتے ہیں بلکہ تعلیمی اداروں سے باہر کی دنیا کا عملی مشاہدہ کرنے کا بھی انھیں راست تجربہ حاصل ہوتا ہے۔اگر کسی قسم کی معاشی تنگی نہ بھی ہو تب بھی طلبہ دیڑھ دو ماہ کی تعطیلات میں ملازمت کرتے ہوئے کام اور پیشے کی اہمیت و افادیت کے متعلق عملی معلومات وتجربات حاصل کرسکتے ہیں۔
رضاکارانہ خدمات .۔طلبہ تعطیلات کے دوران رضاکارانہ طور پر فلاح و بہبود کی مختلف سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے اپنے فاضل وقت کا بہتر استعمال کرسکتے ہیں۔ رضاکارانہ طور پر مختلف فلاحی کام انجام دینے سے طلبہ میں خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور طلبہ آگے چل کر معاشرے کی تعمیر میں اپنا گرانقدر کردار پیش کرنے کے لائق ہوجاتے ہیں۔محتاجوں ،یتیموں ،غریبوں اوریا بزرگوں کی خدمت سے طلبہ میں انسانی اقدار پروان چڑھتے ہیں اور انھیں سماج میں بسنے والے مختلف افراد کی ضرورتوں کا علم بھی حاصل ہوتا ہے۔
نئی مہارتیں سیکھنا؛۔ چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر و مہارتیں سکھا نے کی کوشش کریں۔ مثلاً خوش خطی، مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کام، بچیوں کو سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ۔ گھر میں اگر لان یا کیاری کی جگہ ہو تو والدین بچوں کو پودے اُگانے اور ان کی نگہداشت کرنا بھی سکھا سکتے ہیں۔ٹوٹی ہوئی اشیا جیسے خراب کمپیوٹر یا میز کی مرمت و درستگی وغیرہ سے طلبہ پیشے کی عظمت و احترام سے واقف ہوتے ہیں۔آن لائین کورسس بھی طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاون ہوتے ہیں۔ تعطیلات کے دوران طلبہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرتے ہوئے عملی تجربہ حاصل کرسکتے ہیں۔ جو ان کی آنے والی زندگی میںیقیناًکارآمد ثابت ہوگا۔یہ سرگرمیاں طلبہ کو پیسے کمانے بچانے اور انھیں مناسب طریقے سے خرچ کرنے کی تربیت فراہم کرتی ہیں۔اس کے علاوہ طلبہ باغبانی ،فنون لطیفہ جیسے آرٹس ،ڈرائنگ سنگ تراشی ،نقاشی فوٹو گرافی و دیگر فنون کو سیکھتے ہوئے بھی اپنی تعطیلات کو پر لطف اور کارآمد بنا سکتے ہیں۔اپنے ذخیرہ الفاظ (Vocabulary) میں اضافے کے ذریعے طلبہ لفظیات کے بہتر استعمال کی مہارت سے خود کو آراستہ کرسکتے ہیں۔یہ مہارت نہ صرف طلبہ بلکہ ہر انسان کی کامیابی کے لئے ضروری تصور کی جاتی ہے۔ تعطیلات کا صحیح استعمال کرتے ہوئے طلبہ اپنی تحریری صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کتابیں پڑھیں اور مطالعہشدہ کتابوں سے اخذ کردہ اپنے تجربات کو قلم بند کرنے کی باقاعدہ مشق کریں تاکہ تحریر میں پختگی اور بہتری پیدا ہوسکے۔چھٹیوں میں اچھی عادات کی تشکیل و فروغ پر توجہ مرکوز کریں۔کامیابی فراہم کرنے میں مددگار کتابوں اور مضامین کو مطالعے میں شامل رکھیں۔پڑھنے کی رفتار میں اضافہ کرنے والی مہارتیں کو سیکھیں۔
کھیل کود کی صلاحیتوں کا فروغ ؛۔کھیل ا نسان کی ذہنی، جسمانی نشونما کے لئے نہایت اہم ہو تے ہیں۔ کھیل انسان کو چاق و چوبند اور تندرست رکھتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے کھیل بھی بامقصد ہونے چاہئے ، وقت کی بربادی کا سبب نہ بنیں اور انسانی صحت و تندرستی کا وسیلہ ہوں۔ تیراندازی، تیراکی، نیزہ بازی، کشتی ،کبڈی اور دوڑ جیسے کھیل انسان کی صحت کے لئے معاون ثابت ہوئے ہیں۔کھیل چستی پھرتی پیدا کرنے کے علاوہ نظم و ضبط(ڈسپلن) اور قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کھیل سے قوت حافظہ، قوت برداشت اور طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور اعضاء و جوارح بھی مضبوطبنتے ہیں۔تعطیلات میں بچے صحت مند کھیلوں کی جانب توجہ نہ کرتے ہوئے ٹی وی دیکھنے انٹر نیٹ پر گیمز کھیلنے میں وقت ضائع کرتے ہوئے اپنی صحت کو برباد کرلیتے ہیں مذکورہ مشغلے اخلاقی خرابی کا بھی ایک بہت بڑا سبب بنے ہوئے ہیں۔
گھر بچے کی اولین درسگاہ ہوتی ہے بچوں کے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار والدین کو ہوتا ہے۔ گو آج کل کے معمولات بچوں کو خود سر بنا رہے ہیں۔ لیکن والدین کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ بچوں کی شخصیت کی نشوونما میں و الدین کااتنا ہی کلیدی کردار ہوتا ہے جتنا کہ استاد کا۔ اسکول و کالج میں زیادہ بچے ہونے کی وجہ سے استاد ہر بچے پر پوری توجہ نہیں دے سکتا لیکن گھر میں والدین تو بچے پر پوری توجہ دے سکتے ہیں کیونکہ بچے اسکول یا کالج میں 5 تا 8 گھنٹے گزارنے ہوتے ہیں جبکہ 16تا19گھنٹے وہ گھر میں بسرکرتے ہیں۔یہ بات صرف چھٹیوں کی نہیں ہے بلکہ عام دنوں میں بھی بچے 16تا19گھنٹے گھر میں گزارتے ہیں ۔والدین کی ذمہ داری ہے کہ 8 گھنٹے سونے کے نکال کر باقی وقت کو اس طرح تقسیم کریں کہ عام دنوں میں بھی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کیلئے دینی تعلیم کا وقت بھی نکل آئے اور بچے نماز کے بھی پابند ہوجائیں۔ نماز کی پابندی جہاں اللہ کی خوشنودی و رضا کا سبب بنتی ہے وہیں بچے نماز کے ذریعے ڈسپلن بھی سیکھتے ہیں۔ وقت سب سے بڑا سرمایہ ہے اگر والدین یہ سوچ کر کہ بہت زیادہ گرمی ہے بچوں کو آرام کرنے دیں تو یہ ان کی محبت نہیں بلکہ بچوں کے ساتھ دشمنی ہوگی۔ سخت ترین موسم میں بھی ہمارا دین کسی کام سے ہمیں نہیں روکتا۔الغرض فرصت کے لمحات خصوصاً تعطیلات میں بچوں کی تربیت پر توجہ مرکوز کرنا وقت کا اہم اور ناگزیر تقاضہ ہے۔دیڑھ ،دو ماہ کی طویل چھٹیوں کے دوران والدین پیش کردہ نکات بالا کے ذریعے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرسکتے ہیں۔
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...